اب جبکہ موجودہ حکومت کا انحصار جے ڈی یو اور ٹی ڈی پی پر ہے، یہ دونوں پارٹیاں من مانے طور پر ایوان سے پاس کرائے گئے ان قوانین کے نفاذ سے قبل انہیں ایک بار پھر پارلیمنٹ میں پیش کرکے مکمل غوروخوض کی راہ ہموار کرنے میں اہم رول ادا کرسکتی ہیں، مگر اُن کے اب تک کے طرز عمل سے اس کی امید کم ہے۔
نئے تعزیری قوانین کے خلاف پورے ملک میںاحتجاج ہورہا ہے، ان میں زیادہ تر قانون داں پیش پیش ہیں۔ تصویر : آئی این این
نوٹ بندی ہو، جی ایس ٹی ہو، ۳؍زرعی قوانین ہوں، یا پھر جموں کشمیر کی تقسیم اوراس کا خصوصی درجہ ختم کرنے کا فیصلہ، مودی حکومت نے ہر بار یہ ثابت کیا ہے کہ وہ نہ صلاح و مشورہ میں یقین رکھتی ہے نہ غوروخوض ضروری سمجھتی ہے۔ گزشتہ دو میعاد میں پارلیمنٹ میں قوانین کے مسودوں کو جس طرح پیش کرکے پاس کروایاگیاوہ اس بات کا مظہر ہے کہ پارلیمنٹ میں انہیں پیش کیا جانا محض رسم ادائیگی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ گزشتہ ۱۰؍ برسوں میں شاذ ونادر ہی ایسا ہوا کہ ایوان میں بحث کے دوران اراکین پارلیمان کی جانب سے ظاہر کئے گئے اندیشوں کا خیال رکھ کر یا دی گئی آراء کو خاطر میں لاکر کسی مسودہ ٔ قانون میں کوئی تبدیلی کی گئی ہو۔ پارلیمنٹ کے دو ایوانوں اور ان میں موجودتقریباً ۸۰۰؍ اراکین پارلیمان(لوک سبھا کے ۵۴۲؍ اور راجیہ سبھا کے ۲۴۵) کی بنیادی افادیت ہی یہ ہے کہ اگر کوئی قانون بنایا جائے تواِتنے اذہان اُن پر غور کرلیں۔ اُن لوگوں، علاقوں اور طبقات کے مفادات کو ذہن میں رکھیں جن کی وہ نمائندگی کرتے ہیں اوراس کی بنیاد پر مجوزہ قانون کو پرکھیں کہ وہ سود مند ثابت ہوگا نہیں۔ ایوان میں بتائیں کہ مجوزہ قانون کے کیا مثبت اور کیا منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، وہ کتنا سود مند ہوگا اور کتنا نقصاندہ، اپنی جانب سے صلاح و مشورہ دیں کہ مسودہ میں کن تبدیلیوں کی ضرورت ہے، اس کی بنیاد پر تبدیلیاں کی جائیں اور پھر ایسا قانون منظور ہو جس میں نقائص کے امکانات بہت کم رہ جائیں۔ وزیراعظم مودی کی گزشتہ ۱۰؍ برسوں کی حکومت میں ایسا ہوتا کبھی نظر نہیں آیا۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر فیصلوں پراسے منہ کی کھانی پڑی۔
یکم جولائی سے نافذ ہونے جارہے نئے تعزیری، فوجداری قوانین اور قانون ِ شواہد کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ ملک کے پورے عدالتی نظام کا انحصار بنیادی طورپر تعزیرات ہند (آئی پی سی) ۱۸۶۰ء، ضابطہ فوجداری( سی آر پی سی) ۱۹۷۳ء اور ہندوستانی قانون ِشواہد (انڈین ایویڈنس ایکٹ) ۱۸۷۲ء پر ہے۔ اچانک حکومت کو خیال آیا کہ یہ قوانین تو انگریزوں کے دور کے ہیں اور ان کی وجہ سے ہندوستانی نظام عدالت اب تک نوآبادیاتی دور کے زیر اثر ہے۔ بس پھر کیاتھا اسے اس اثر سے ’پاک‘ کرنے کیلئے مارچ ۲۰۲۰ء میں اس وقت جب پورا ملک کورونا کی وبا اور لاک ڈاؤن سے جوجھ رہاتھانیشنل لاء یونیورسٹی کے وائس چیئر مین کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، فروری ۲۰۲۲ء میں اس نے اپنی تجاویزات کے ساتھ رپورٹ پیش کی اور ۱۱؍ اگست ۲۰۲۳ء کو وزیر داخلہ امیت شاہ نے ’بھارتیہ نیائے سنہیتا ( بی این سی) ۲۰۲۳ء، بھارتیہ ناگرک سُرکشا سنہیتا ۲۰۲۳ء، اور بھارتیہ ساکش بل ۲۰۲۳ء کی شکل میں پارلیمنٹ میں آئی پی سی، سی آر پی سی اور ایوڈنس ایکٹ کے ’’بھارتیہ متبادل‘‘ کے طور پر پیش کئے۔ اتنی بڑی تبدیلی سے قبل بڑے پیمانے پر ماہرین سے اور عوامی صلاح و مشورہ پر زور دیاگیا۔ اس پر توجہ نہ دیتے ہوئے محض خانہ پری کے طور پر بل کو ۱۸؍ اگست ۲۰۲۳ء کو امور داخلہ سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے پاس بھیج دیاگیا مگر کمیٹی میں موجود اپوزیشن کے اراکین کے اعتراضات کو خاطر میں نہیں لایاگیا اور چند معمولی تبدیلیوں کے ساتھ ۱۲؍ دسمبر ۲۰۲۳ء کوانہیں دوبارہ پارلیمنٹ میں نہ صرف پیش کیاگیا بلکہ ایوان میں واضح اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں اپنے مخصوص انداز میں کسی بحث مباحثہ کے بغیر ’’آناً فاناً‘‘ پاس بھی کروالیا گیا۔ اتنے اہم قوانین کس طرح منظور کرائے گئے اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس وقت یہ تینوں بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں منظور کروائے گئے اس وقت اپوزیشن کے۱۴۳؍ اراکین معطل تھے۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ بیک وقت اتنے اراکین پارلیمان کو معطل کیاگیا ہو۔ یعنی ضروری صلاح و مشورہ اور غوروخوض کے بغیر تینوں قوانین پاس کرا لئے گئے اوراب انہیں نافذ بھی کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ہجومی تشدد پر یہ خاموشی افسوسناک ہے
وزیراعظم مودی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تاریخ میں اپنی ایسی چھاپ چھوڑ جانا چاہتے ہیں کہ ان کا نام رہتی دنیا تک رہے۔ وہ مسلسل نہرو جیسے قدآور لیڈروں پر تنقیدیں شاید اسی لئےکرتے ہیں کہ ان کا قد نہرو سے بلند محسوس ہو۔ ملک کے تعزیری اور فوجداری قوانین کا ’’بھارتیہ متبادل‘‘ پیش کرنے کے پیچھے بھی یہی مقصد نظر آتاہے۔ جن قانونی ماہرین نے ’’آئی پی سی‘‘، ’’سی آر پی ‘‘ اور ’’ایویڈنس ایکٹ‘‘ اوران کے ’’بھارتیہ متبادل‘‘ کا تقابلی جائزہ لیا ہےان کے تاثرات کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتاہے کہ کام تومذکورہ قوانین کے نام ’’بھارتیہ‘‘ کرکے اوران میں ترمیم کرکے بھی چلایا جا سکتا تھا۔ قانونی ماہرین بتاتے ہیں کہ مودی حکومت کے تیار کئے گئے تینوں قوانین ’’آئی پی سی‘‘، ’’سی آر پی ‘‘ اور ’’ایویڈنس ایکٹ‘‘کا ہی چربہ ہیں۔ انوپ سریندر ناتھ اور نکیتا وشوناتھ نے انڈین ایکسپریس میں اپنے حالیہ مضمون میں نشاندہی کی ہے کہ ایک طرف ۷۵؍ فیصد دفعات دفعہ نمبر کی تبدیلی کے ساتھ حرف بہ حرف وہی ہیں جو سابقہ قوانین میں تھیں وہیں جو تبدیلیاں کی گئی ہیں وہ پولیس کو غیر معمولی اختیارات دیتے ہوئے شہری حقوق پرقدغن لگانے کے مترادف ہیں۔
کانگریس کے سینئر لیڈر منیش تیواری جو وکیل بھی ہیں، نے نشاندہی کی ہے کہ آئی پی سی کی ۵۱۱؍ دفعات میں سے صرف ۲۴؍ دفعات کو حذف کیاگیاہے اور ۲۳؍ نئی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ اسی طرح قانون شواہد (ایویڈنس ایکٹ) کےتمام ۱۷۰؍سیکشن بھارتیہ ساکش ایکٹ ۲۰۲۳ء میں جوں کے توں ہیں۔ ضابطہ فوجداری (سی آر پی سی) کی بھی ۹۵؍ فیصد دفعات کو ’کٹ اور پیسٹ‘ کرکے بھارتیہ ناگرک سُرکشا سنہیتا ۲۰۲۳ء تیار کر لیا گیا ہے۔ اس طرح اگر یہ کہیں کہ نئے قوانین میں نیا صرف نام اور چند سیکشن ہیں جو گھٹائے اور بڑھائے گئے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ البتہ سب کچھ بدلا بدلا سا نظر آئے اس لئے سیکشن کو یہاں سے اٹھا کر وہاں ضرور کردیا گیا ہے۔ یعنی ان کے نمبر بدل دیئے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر قتل کیلئے اگرتعزیرات ہند میں دفعہ ۳۰۲؍ تھی تو ’’بھارتیہ نیائے سنہیتا ‘‘ میں یہ ۱۰۱؍ ہے۔ قانون جاننے والوں کے مطابق سیکشن کانمبر بدلا ہے مگر جرم کی جو تعریف اور سزا کی جو تجویز ۳۰۲؍ تھی وہی بی این ایس کے ۱۰۱؍ میں بھی ہے۔ نئے قوانین میں شامل کی گئی نئی دفعات کے ذریعہ پولیس کو ایف آئی آر کے اندراج سے لے کر ریمانڈ تک جو غیر معمولی اختیارت سونپ دیئے گئے ہیں وہ پریشان کن ہیں۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ کے سابقہ فیصلوں کا بھی احترام نہیں کیاگیا۔ مثال کے طور پر سپریم کورٹ اپنے ایک فیصلے میں دوٹوک انداز میں پولیس کو ’ایف آئی آر‘کے اندراج میں آناکانی نہ کرنے کی ہدایت دے چکا ہے مگر نئے قوانین میں پولیس افسر کو یہ آزادی دی گئی ہے کہ وہ ۳؍ سے ۷؍ سال تک کی سزا والے جرائم میں ’’ابتدائی جانچ‘‘ کے نام پر ایف آئی آر کے اندراج کو ٹال سکتے ہیں۔ اسی طرح یو اے پی اے کی جن دفعات پر مقدمہ چلانے کیلئے اب تک حکومت کی اجازت ضروری ہوتی تھی، وہی یا ویسی ہی دفعات نئے تعزیری قوانین میں شامل کرکے پولیس افسران کو ان کے استعمال کی کھلی چھوٹ دیدی گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے ’’غداری‘‘ کے قانون کو ختم کردیاتھا مگر نئے قوانین میں چور دروازے سے اسے واپس لایاگیاہے اوراس کی تعریف میں ملک کے’’اتحاد اور سالمیت‘‘ کو شامل کرکےپولیس کو جو اختیارات دے دیئے ہیں ان کی بنیاد پر کل فرقہ ورانہ فساد کے کیس میں یا حکومت کے خلاف احتجاج کی صورت میں بھی مذکورہ دفعات کے تحت ملک کے کسی بھی شہری کو ماخوذ کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح نئے قوانین کے تحت جہاں پولیس ریمانڈ کی مدت میں اضافہ کیاگیا ہے وہیں چارج شیٹ فائل کرنے کیلئے مہلت بھی بڑھا دی گئی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وکیلوں اور سابق نوکر شاہوں کی بڑی تعداد کھل کر نئے قوانین کے نفاذ کی مخالفت کررہی ہے۔ سپریم کورٹ میں ایک سے زائدپٹیشن داخل کی جاچکی ہیں، تمل ناڈو، کرناٹک، مغربی بنگال اور دیگر کئی ریاستیں اپنی تشویش کااظہار کرچکی ہیں۔ قانونی ماہرین متنبہ کررہے ہیں مگر حکومت اپنے طرز حکمرانی پر قائم رہتے ہوئے کسی کو قابل توجہ نہیں سمجھ رہی ہے۔ معروف وکیل کپل سبل نے متنبہ کیا کہ ’’اگر یہ قوانین نافذ کئے گئے تو یہ نوآبادیاتی دور کے قوانین سے بھی بدتر ثابت ہوں گے۔ ‘‘
معروف وکیل اندرا جے سنگھ جنہیں ملک کی پہلی ایڈیشنل سالیسٹرجنرل آف انڈیا کے عہدہ تک پہنچنے کا اعزاز حاصل ہے، نے بھی آگاہ کیا ہے کہ اگر نئے تعزیری قوانین کو جوں کا توں نافذ کیا جاتاہے تو ملک کے شہری وہ بنیادی حقوق کھودیں گے جو انہوں نے سپریم کورٹ میں مختلف مقدمات کے فیصلوں کے ذریعہ گزشتہ ۵۰؍ برسوں میں جیت کر حاصل کئے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سابقہ غلطیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس ضمن میں اٹھنے والی آوازوں پر توجہ دی جاتی مگر وزیراعظم مودی کی قیادت والی حکومت سے اس کی امید نہیں کی جاسکتی جس نے من مانے طریقے سے مذکورہ قوانین پاس کرائے ہیں ۔ البتہ اب اس کے پاس وہ واضح اکثریت نہیں ہے جس کے بل پر اس نے قوانین کو پاس کروایاتھا۔ حکومت جنتادل متحدہ اور تیلگو دیشم پارٹی کی بیساکھیوں کی محتاج ہے۔ یہ دونوں پارٹیاں اہم رول ادا کرسکتی ہیں اور اس بات کو یقینی بناسکتی ہیں کہ مذکورہ قوانین کو ایک بار پھر پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے، ان میں موجود خامیوں کو دور کیاجائے، شہری حقوق پر لگام کسنے کی جو کوششیں ان قوانین میں کی گئی ہیں انہیں دور کیا جائے۔ اگر وہ ایسا کرتی ہیں تو یہ ملک کے عدالتی نظام کیلئے فال نیک اور اُس تبدیلی کے عین مطابق ہوگا جو عوام نے اپنے فیصلے میں سنائی ہے مگر ٹی ڈی پی اور جے ڈی یو سے اس کی امید کم ہی ہے۔