• Sun, 06 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ہجومی تشدد پر یہ خاموشی افسوسناک ہے

Updated: June 23, 2024, 3:05 PM IST | Asim Jalal | Mumbai

انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد محض ۱۵؍ دنوں میں ۴؍ مسلم نوجوانوں کو ہجومی تشدد میں ماردیاگیا، ایم پی میں ۱۱؍ گھروں پر فریج میں ’بیف‘ کی پاداش میں  بلڈوزر چلادیاگیا، میدک میں فساد ہوا مگر’محبت کی دکان‘ کا نعرہ دینے والے خاموش ہیں، اس کے کیا معنی لئے جائیں؟

A protest was held on Friday against mob violence in Raipur. Photo: INN
رائے پور میں ہجومی تشدد کے خلاف جمعہ کو احتجاج کیاگیا۔ تصویر : آئی این این

اس کا اعتراف ایک زمانہ کررہاہےکہ پارلیمانی الیکشن میں اگر اپوزیشن مضبوط ہوکر اُبھرا ہے تو اس کی کلیدی وجہ مسلمانوں کی دانشمندانہ ووٹنگ ہے۔ انہوں نے متحد ہوکر ’’انڈیا‘‘ اتحاد کے حق میں  ووٹنگ کی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ نفرت پھیلانے والی طاقتوں کے مقابلے میں اُن طاقتوں  کو مضبوط کیا جائے جو ’’نفرت کے بازار میں  محبت کی دکان‘‘کھولنے کی باتیں  کرتی ہیں۔ ’انڈیا‘ اتحاد کے لیڈروں کو اس کا احساس تو ہے ہی، بی جےپی بھی خوب سمجھ رہی ہے کہ جن مسلم ووٹروں  کو اس نے ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء میں بے اثر کر کے رکھ دیا تھا انہوں نے ۲۰۲۴ء میں  نہ صرف اپنی اہمیت کا لوہا منوایا ہے بلکہ یہ پیغام بھی دیا ہے کہ اگر وہ ٹھان لیں تو ملک کی سیاست میں ان کے ووٹوں  کا کلیدی رول اوران کی جگہ ان سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ 
 ملک کے مسلم ووٹرس نے اس جوکھم کے بعد بھی کھل کر اپوزیشن کو مضبوط کرنے کیلئے ووٹنگ کی کہ اگر جسے وہ ہرانا چاہتے ہیں یا جس کے خلاف وہ ووٹنگ کررہے ہیں وہی پھر اقتدار میں  آگئے تو نتائج بھی بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔ یہ سب اس لئے کیاگیا کہ ملک میں سیکولر اقدار کو تقویت حاصل ہو، نفرت پھیلانے والوں کےحوصلے پست ہوں اور وہ طاقتیں جو نفرت کے خلاف آواز بلند کرتی ہیں، ان کی آواز پہلے سے زیادہ توانا اور بااثر ہو۔ یہ امید تھی کہ اگر اپوزیشن برسراقتدار نہ بھی آسکا تب بھی مضبوط ہونے کی صورت میں   وہ مظالم کے خلاف کھل کر آواز بلند کرے گا اور حکومت کی جوابدہی طے کرنے میں اہم رول ادا کرےگا مگر ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن اب بھی اُن شدت پسند ووٹروں کے ناراض ہوجانے کے خوف سے باہر نہیں  آسکا جنہوں  نے ۲۰۱۴ء میں  اسے ووٹ دیا، نہ ۲۰۱۹ء میں  اور نہ ہی ۲۰۲۴ء میں  قابل اعتنا سمجھا۔ ورنہ کیا بات ہے کہ انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد ۱۵؍ دنوں  کے اندر ہجومی تشدد میں ۴؍ مسلم نوجوانوں  کو موت کے گھاٹ اتار دیاگیا اور اپوزیشن نے اس کی مذمت کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں  کیا۔ الیکشن کے بعد مسلمانوں  کے خلاف تشدد کا ایک سلسلہ سا شروع ہوتا نظر آتا ہے مگر اپوزیشن کی جانب سے اس ضمن میں  کسی فکرمندی کااظہار نہیں  کیاگیا۔ اتر پردیش میں یکے بعد دیگرے ۲؍ علمائے دین کا انتہائی بہیمانہ قتل ہوا۔ نتائج کے تیسرے دن چھتیس گڑھ کے دارالحکومت رائے پور میں  خود ساختہ گئورکشکوں نے بھینسوں سے بھرے ایک ٹرک کا پیچھا کرکے اسے رُکوایا اور اس میں  سوار ۳؍ مسلم نوجوانوں  کو بے دردی سے پیٹا۔ ۲؍ کو مہاندی پُل سے نیچے پھینک دیا جن کی لاشیں  دوسرے دن صبح ندی میں  ملیں  جبکہ تیسرا صدام قریشی زخمی حالت میں  ملا۔ صدام اگر زندہ نہ ملتا تو شاید ہجومی تشدد کا یہ واقعہ منظر عام پر بھی نہ آپاتا۔ صدام نے بتایا کہ ’’وہ ۱۵؍ لوگ تھے، انہوں نے گڈو اور چاند کو مارنے کے بعد ندی میں  پھینک دیا، میں  خود اپنی جان بچانے کیلئے پُل سے کود گیا۔ ‘‘ حالانکہ صدام بھی بچ نہ سکا اور زخموں  کی تاب نہ لاکر اسپتال میں چل بسا۔

یہ بھی پڑھئے: ’نیٹ‘ امتحان میں بدنظمی کیلئے ذمہ دار کون اور سزا کسے؟ کیا اس معاملے کے متاثرین کو انصاف مل سکے گا؟

گزشتہ ہفتے منگل کوعلی گڑھ میں ماموں  بھانجا چوک پر فرید عرف اورنگ زیب نامی ایک مسلم نوجوان کو چوری کے شبہ میں  بھیڑ نےپیٹ پیٹ کر مارڈالا۔ اُدھرمدھیہ پردیش میں  جو کام اب تک بھیڑ کرتی تھی وہ کام پولیس نے کیا۔ فریج میں  ’’بیف‘‘ ہونے کا الزام عائد کرکے ۱۱؍ مسلمانوں کے گھروں  پر ۱۵؍ جون کو بلڈوزر چلادیاگیا۔ گھروں  کےا نہدام کیلئے جواز یہ بنایاگیا کہ وہ سرکاری زمین پر غیر قانونی طور پر بنائے گئے تھے مگر اخبارات میں  چھپنے والے بیانات میں  پولیس افسران نے آن ریکارڈ تسلیم کیا ہے کہ جن گھروں کے فریج میں  ’بیف‘ملاان پر بلڈوزر چلایاگیا۔ ہماچل پردیش میں جہاں  کانگریس کی حکومت ہے، جاوید نامی ایک مسلم تاجرکی دکان پولیس کی موجودگی میں  اس لئے لوٹ لی گئی کہ اس نے اتر پردیش کے اپنے گاؤں  میں  قربانی کا ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کردیا تھا۔ یہ الزام عائد کردیا گیا کہ اس نے گئو کشی کی ہے۔ بات یہیں  ختم نہیں ہوئی بلکہ کانگریس کے اقتدار والی اس ریاست میں  جاوید کی دکان لوٹنے کے بعد شرپسندوں  کی بھیڑ ’’گولی مارو .....‘‘ کا قابل اعتراض نعرہ بلند کرتے ہوئے پولیس اسٹیشن پہنچی اور پولیس نے انہیں  جاوید کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کرائی۔ بھگوا تنظیموں نے وہاں  موجوددیگر مسلم تاجروں  کیلئے یہ الٹی میٹم بھی جاری کر دیا کہ وہ علاقہ چھوڑ کر چلے جائیں۔ ادیشہ میں  جہاں  بی جےپی اقتدار میں  آئی ہے، کے بالاسور میں   قربانی کے موقع پر نالی سے بہہ رہے سرخ پانی جو شاید قربانی کےجانور کے خون سے سرخ ہوگیاتھا، کو بہانہ بنا کر فساد برپا کرنے کی کوشش کی گئی۔ تلنگانہ جہاں ہماچل کی طرح  کانگریس کی حکومت ہے، عید الاضحی سے ایک روز قبل ’گئو رکشا‘ کے نام پر غنڈہ گردی کی گئی اور مسلمانوں کو نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایاگیا بلکہ شرپسندوں  کی شکایت پر مسلمانوں  کے قربانی کے جانور بھی پولیس نے ضبط کرلئے۔ 
 حیرت انگیز طو رپر ان واقعات پر اپوزیشن کے لیڈر خاموش ہیں۔ نیٹ امتحان کے خلاف تو وہ حکومت کو گھیرنے میں  مصروف ہیں مگر دل کو دہلا دینے والے ہجومی تشدد کے واقعات پر ’’نفرت کے بازار میں  محبت کی دکان کھولنے‘‘ کا اعلان کرنے والے راہل گاندھی بھی کچھ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں  کررہے ہیں۔ کیا ہجومی تشدد کے واقعات اب اتنے زیادہ معمول کا حصہ بن چکے ہیں کہ ان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی بھی ضرورت نہیں  رہ گئی؟ ایسا نہیں ہے کہ اس جانب ان کی توجہ مبذول نہیں  کرائی گئی۔ سوشل میڈیا پر اس پر سوال اٹھ رہے ہیں، دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اور سماجی کارکن اپوروانند باقاعدہ ٹویٹ کرکے اپوزیشن سے یہ سوال کرچکے ہیں  کہ ’’اگر مسلمانوں   کے خلاف تشدد پر آوازبلند کرنے کی جرأت آج بھی آپ نہیں  کر پارہے ہیں  تو پھر آپ کازیادہ سیٹیں  جیتنے کا کیا فائدہ؟‘‘ اپوزیشن کا یہ رویہ نہ صرف افسوسناک اور مایوس کن ہے بلکہ خود اپوزیشن کیلئے نقصاند ہ ثابت ہوسکتاہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK