• Thu, 21 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’ فنگر پرنٹس اور چہروں کے اسکین کے ڈیٹا سے گھروں پربھی ہماری نگرانی کی جاسکتی ہے‘‘

Updated: October 27, 2024, 2:04 PM IST | Ghulam Arif | Mumbai

ممتاز عوامی دانشور ’یُووال نوح ہراری‘کی تازہ کتاب میں انکشاف، اس کتاب میں مصنوعی ذہانت کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا گیا ہے،دنیا کی ۶۵؍ سے زائد زبانوں میں، ہراری کی تصنیفات کے ساڑھے چار کروڑ نسخے فروخت ہو چکے ہیں۔

Nexus: A Brief History Of Information Networks From The Stone Age To AI. Photo: INN
نیکسس: پتھر کے زمانے سے اے آئی تک معلوماتی نیٹ ورکس کی مختصر تاریخ۔ تصویر : آئی این این

گزشتہ ہزاربرسوں میں، ہم انسانوں نے بے پناہ طاقت جمع کی ہے۔ تاہم، اپنی تمام تر دریافتوں، ایجادات اور فتوحات کے باوجود، اب ہم خود کو ایک وجودی بحران سے برسرِپیکار پاتے ہیں۔ دُنیا ماحولیاتی تباہی کے کنارے پر کھڑی ہے، بین الاقوامی اور سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے اورہم مصنوعی ذہانت کے دور میں سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔ اجنبی لیکن جانی پہچانی سی لگنے والی مصنوعی ذہانت، ہمارے وجود کو مِٹا دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ وہ اِس طاقت کاکچھ کچھ اظہار بھی کرنے لگی ہے۔ ہمارے اپنے کرموں کے نتائج سے ہم خود کو تباہی کی راہ پر پاتے ہیں۔ 
 یُووال نوح ہراری کی تازہ کتاب’ نیکسس‘ انسانی تاریخ پر اثر انداز ہونے والے ترسیلِ معلومات کے نیٹ ورکس کا ایک جائزہ ہے۔ چند ہفتوں قبل منظرعام پر آئی اس کتاب کو خوب پڑھا جارہا ہے۔ ہراری، یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی میں تاریخ کے معلم ہیں۔ کیمبرج کے شعبہ’خطرہ برائے وجود‘ سے بھی منسلک ہیں۔ دنیا کی ۶۵؍ سے زائد زبانوں میں، ان کی تصنیفات کے ساڑھے چار کروڑ نسخے فروخت ہو چکے ہیں۔ وہ اِس دور کے سب سے زیادہ باثر عوامی دانشوروں میں شمار کئے جانے لگے ہیں ۔ بغیر رکے اور بلاتکان بولنے والے ہراری بے حد مقبول عوامی مقرر ہیں۔ 
 پیدائشی اسرائیلی یہودی یُووال، پکے ملحد لیکن سبزی خور ہیں اور بدھ مت کے ’وِپاسنا‘ نامی طریقِ مراقبہ پر عمل کرتے ہیں۔ اسمارٹ فون کا استعمال صرف ہنگامی ضرورتوں کے وقت کرتے ہیں۔ ہمارے اردو قارئین کو یہ جملہ کچھ عجیب محسوس ہوگا کہ ہراری اپنے ’شوہر‘ کے ساتھ تل ابیب میں قیام پذیر ہیں۔ اس مبصر کا مقصد، اُن کے خیالات کے معقول اور غیر معقول اجزاء کی نقاب کشائی ہے۔ دنیا میں کیا سوچا، کیا لکھا اور کیا کہا جا رہا ہے یہ سوالات اہم ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے:آندھر اپردیش کے وزیراعلیٰ چندرا بابو نائیڈو کی سپریم کورٹ سے سخت سرزنش

’نیکسس‘ ہمیں معلومات اور حقیقت، بیوروکریسی اور فکشن، دانائی اور طاقت کے درمیان پیچیدہ تعلق پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ یہ بھی بتاتی ہےکہ کس طرح رومن سلطنت، کیتھولک چرچ اور سوویت یونین جیسے نظاموں نے معلومات کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا، چاہے وہ اچھے ہوں یا برے۔ معلومات نہ تو صرف سچائی کا خام مال ہیں اور نہ ہی محض ایک ہتھیار۔ ہراری، عالم انسانیت کے روبرو موجود اُن فوری نکاتِ انتخاب کی طرف متوجہ کرتے ہیں کیونکہ انسانی ذہانت ہمارے وجود کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ یہ کتاب ان دو انتہاؤں کے درمیان ایک متوازن راستہ تلاش کرتی ہے اور اس عمل میں ہماری مشترکہ انسانیت کو نئے سرے سے دریافت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ 
تبدیلی: تاریخ میں واحد مستقل
 ’تاریخ ماضی کا مطالعہ نہیں، تبدیلی کا مطالعہ ہے‘‘ کتاب قارئین کو تاریخ کے سفر پر لے جاتی ہے۔ انسانوں نے ترسیلِ معلومات کے پیچیدہ تانے بانے بُنے جو سادہ مواصلاتی طریقوں سے شروع ہو کر آج موجود وسیع و ترقی یافتہ نظاموں میں ارتقاء پذیر ہوئے۔ یہ نیٹ ورکس، سینہ بہ سینہ منتقل ہونے ہونے والی زبانی روایات سے لے کر جدید ٹیکنالوجی تک، ہمارے معاشروں اور سیاست سے گہرے جڑے ہوئے ہیں۔ ہراری، پہلی جنگ عظیم کے دوران پیغامات لے جانے والے ’چیر امی‘ نامی کبوتر جیسی دلچسپ مثالیں پیش کرتے ہیں، جس کی پیغام رسانی نے بہت سے فوجیوں کی جان بچائی۔ ہندوستان میں مقبول ہونے والے ٹی وی سیرئل رامائن کی مثال بھی جس نے عوامی رائے متاثر کیا۔ ہراری متنبہ کرتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ معلومات تک رسائی حکمت ہی کی طرف لے جائے۔ غلطیوں کو جانچنے اور درست کرنے کے نظام کے بغیر، یہ ترسیلِ معلومات کے نیٹ ورک غلطیاں اور غلط عقائد ونظریات پھیلا سکتے ہیں۔ وہ دو مثالوں کا موازنہ کرکے اس کی وضاحت کرتا ہے۔ کیتھولک چرچ، جس نے صدیوں تک معلومات کو کنٹرول کیا لیکن اس نے خود احتسابی کے ذریعے ہمیشہ اپنے کو درست نہیں کیا اور جدید میڈیکل سائنس، جو فعال طور پر اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے تاکہ اسے بہتر بنایا جا سکے۔ ہراری کے نزدیک، جمہوریتیں آمرانہ حکومتوں کے مقابلے غلطیوں کو ٹھیک کرنے میں بہتر ہوتی ہیں کیونکہ وہ کھلی بحث اور تنقید کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ پیغام واضح ہے: معلومات طاقتور ہے، لیکن یہ اس وقت ہی قیمتی ہے جب اسے درست کرنے اور بہتر کرنے کے طریقے موجود ہوں۔ 
ہماری پرائیویسی خطرے میں ہے
 ماضی میں، لوگ ایک دوسرے کو بہت محدود پیمانے پر دیکھ سکتے تھے، لہٰذا بڑی حد تک قدرتی رازداری میسر تھی لیکن آج کی جدید ٹیکنالوجی، خاص طور پرمصنوعی ذہانت (AI) کے ساتھ، ہماری ہر حرکت پر نظر رکھنے کی صلاحیت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ یہ امر صرف آمرانہ ممالک میں تشویش کا باعث نہیں بلکہ عالمی مسئلہ بنتا جا رہا ہے جو جمہوری ممالک کو بھی متاثر کر رہا ہے جہاں پرائیویسی کے تحفظ کی توقع کی جاتی ہے۔ جیسے جیسے AI مزید ترقی کررہا ہے، سیکوریٹی اور رازداری کے درمیان توازن تلاش کرنا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ 
 حکومتیں اور کارپوریشنز اب ہماری ہر حرکت پر نظر رکھنے کیلئے نگرانی کی جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کر رہی ہیں۔ اِن آلات میں سی سی ٹی وی کیمرے، چہرے کی شناخت کے نظام، اور آن لائن ڈیٹا ٹریکنگ شامل ہیں۔ مثال کے طور پر، جب ہم پاسپورٹ کیلئے درخواست دیتے ہیں تو بایومیٹرک ڈیٹا جیسا کہ فنگر پرنٹس اور چہرے کے اسکین جمع کئے جاتے ہیں۔ یہ ڈیٹا عوامی جگہوں اور یہاں تک کہ گھر پر بھی ہماری نگرانی کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے، کیونکہ ہماری آن لائن اور آف لائن سرگرمیاں معلومات کی ایک پگڈنڈی پیچھے چھوڑ جاتی ہیں۔ اگرچہ یہ ٹیکنالوجی عوامی تحفظ اور جرائم کو حل کرنے کیلئے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں، لیکن ان میں خطرات بھی موجود ہیں۔ ہراری خبردارکرتے ہیں کہ اگر نگرانی کے طریقے مناسب ضوابط کے بغیرمستعمل رہے تو ہمیں ایک ایسے مستقبل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جہاں پرائیویسی مکمل طور پرختم ہو جائے گی اور نگرانی صرف جبر و استحصال کا ایک ذریعہ بن جائے گا۔ اب ’اے آئی‘ مستقبل کو نئی شکل دینے کیلئے تیار ہے۔ ماضی کو حال سے ملا کر ہراری وضاحت کرتے ہیں کہ طاقت کیسے ان لوگوں کے ہاتھوں میں رہتی ہے جو ہمارے ابلاغ اور علم کے تبادلے کے طریقوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اے آئی کے عروج کی تحقیق سے جو بے شمار امکانات اور خطرات سامنے آتے ہیں، ان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہم تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔ 
تشویش درست ہے، مایوسی کفر
  ہراری کا اندازِ تحریر عوامی ہے اور تاریخ کے بیان میں سطحیت محسوس ہوتی ہے۔ اس سےقبل بھی اُن کی شاہکار تصنیف’سیپئین: انسان کی مختصر تاریخ‘ زدِ تنقید آئی تھی۔ ماقبل تاریخ دور کے واقعات کو مستند تاریخ قرار دینا عوام کی کم علمی کا استحصال ہی کہلائے گا۔ اِسی طرح نظریۂ ارتقاء کو مصالحہ دار پاپ کارن بنا کر پیش کرنا، حیاتیات کے ساتھ انصاف ہے نہ تاریخ کے ساتھ۔ ان کے کام کو شائد کچھ لوگ پاپولر سائنس کے زمرے میں شامل بھی کر لیں تو علمِ تاریخ میں کس طرح شمار کریں گے ؟ 
 خیر یہ کتاب ابھی تازہ ہے اور اس پر اہلِ علم کی آراء آنی باقی ہیں، لیکن راقم جیسا طالب علم بھی بڑے آرام سے یہ کہہ سکتا ہے کہ ہراری کی نیکسس، اپنے دعوے کے باوجود ایک جامع تاریخی جائزہ نہیں ہے لہٰذا عنوان سے انصاف نہیں کرتی۔ بہتر ہوتا کہ سیدھے سیدھے کتاب کو مکمل طور پر مصنوعی ذہانت پر مرتکز کرتے۔ ٹیکنالوجی، بطور خاص اے آئی کی جانب سے انسانیت درپیش موجودہ اور ممکنہ خطرات کے متعلق ہراری کی باتوں پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جانا چاہئے۔ کتاب صرف ٹیکنالوجی کی ترقی کا بیان ہی نہیں کرتی بلکہ سوچنے پر آمادہ کرتی ہے اُس کےانتخاب پر، جو ہم بحیثیت افراد، گرہوں اور قوموں کے، اپنے مستقبل کو شکل دینے کیلئے کرتے ہیں۔ دنیا میں ہونے والی گہری تبدیلیوں کو سمجھنے کے خواہشمند افرادکیلئے یہ کتاب ایک لازمی مطالعہ ہے۔ 
 لیکن یہ کتاب ڈراتی ہے، انسانوں کی خودساختہ قیامت سے۔ راقم فکر مند ضرور ہے، لیکن مایوس نہیں۔ سچی بات تو یہ کہ انسانیت کی ساخت ہی میں کچھ ایسے عناصر شامل ہیں جو اس کو ہر ممکنہ چیلنج سے نبرد آزماہو کر کامیاب ہونے کی طاقت فراہم کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہےکہ جب اے آئی کے پاس انسانی ذہانت پر قابو پاسکنے کی طاقت آچکی ہوگی، تو انسان کے کمینہ پن، لالچ، حرص، سفاکی جیسی صِفات اس کے اختیار میں یقیناً ہوں گی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ سچائی، اچھائی، رحم، اخلاق و انصاف جیسے اوصاف بھی تو مصنوعی ذہانت کے سسٹم میں نفوذ کر چکے ہوں گے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK