• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اب کوئی راہل کو مذاق میں نہیں لیتا، جب وہ بولتے ہیں تو بی جے پی ہنستی نہیں، گھبراتی ہے

Updated: July 15, 2024, 5:09 PM IST | Veer Singhvi | Mumbai

کانگریس کے اس لیڈر نے گزشتہ دہائی میں بہت سی غلطیاں کی ہیں، لیکن موجودہ دور کے دوسرے سیاستدانوں کے برعکس، انہوں نے اپنی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا بھی ہے۔

Rahul Gandhi has been active once again, in recent days he has visited Hathras, Assam and Manipur along with his constituency Rae Bareli. Photo: INN
راہل گاندھی ایک مرتبہ پھر فعال ہوگئے ہیں، گزشتہ دنوں انہوں نے اپنے انتخابی حلقے رائے بریلی کے ساتھ ہی ہاتھرس، آسام اورمنی پور کا دورہ کیا ہے۔ تصویر : آئی این این

انتخابات ختم ہوئے، حساب کتاب ہوگیا اورحکومت تشکیل پا گئی توایک طرح سے ہمیں پرسکون انداز میں عام انتخابات کو معروضی طور پر دیکھنے کیلئے اب کافی وقت میسر آگیا ہے۔ ایسے میں ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا ہوگا کہ کیا واقعی کچھ بدلا ہے؟
 کیا وزیر اعظم نریندر مودی کی تیسری مدت، دوسری مدت ہی کی طرح ہوگی؟ کیا بی جے پی کی متوقع تعداد تک پہنچنے میں ناکامی نے اس کی حکومت کرنے کی صلاحیت کو کمزور کیا ہے؟ یا یہحکومت بھی سابقہ روش ہی پر چلنے جارہی ہے؟میرے خیال میں ان تمام سوالوں کے جواب اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں جتنا کہ زیادہ تر سیاسی جماعتیں تسلیم کرتی ہیں۔ یہاں انتخابی نتائج سے کچھ مفاہیم اخذ کئے گئے ہیں جو پہلے ہی سے واضح ہیں۔ 
 وزیر اعظم کی زیادہ تر طاقت کسی سرکاری اتھاریٹی سے نہیں آئی بلکہ بہت سے لوگوں (اور خاص طور پر خود مودی) کے خیال سے کہ وہ اب قدرتی طاقت ہیں، خواہ (جیسا کہ انہوں نے بتایا) وہ مکمل طور پر’ بایولوجیکل‘ نہ ہوں۔ حکومت، انتظامیہ، عدلیہ اور میڈیا میں بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ مودی ساری زندگی وزیر اعظم رہیں گے، اسلئے اس سلسلے میں کسی قسم کی مزاحمت لاحاصل ہے۔ ہر کسی کو ایک ’نئے ہندوستان‘ کے مطابق تال میل بٹھا لینا چاہئے، جسے بالکل اسی طرح سے چلنا ہے جیسا کہ بی جے پی چاہتی ہے۔ 
 آپ میڈیا کی حکومت کی گود میں بیٹھنے کی آمادگی کو اس یقین سے منسوب کر سکتے ہیں کہ چونکہ اپوزیشن کے پاس کوئی موقع نہیں ہے اسلئے اس پر توجہ دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہندوستان میں نظریاتی طور پر پریس کو آزاد مانا جاتا ہے، لیکن چونکہ حکومت ٹی وی پر دکھائی جانے والی چیزوں کو بہت سختی سے کنٹرول کرتی ہے اور پرنٹ میں شائع ہونے والی کسی بھی چیز کے بارے میں بہت زیادہ حساس ہوتی ہے، اسلئے میڈیا مالکان (اور افسوس کی بات ہے کہ بہت سے صحافیوں نے بھی) فیصلہ کیا کہ حکمرانوں کو خوش رکھنے کیلئے اس کی خواہش کے مطابق کام کیا جائے۔ 

یہ بھی پڑھئے: سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ : ’’یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے‘‘

ویسے یہ کوئی پہلا یا حیران کن واقعہ نہیں ہے۔ ۱۹۷۶ء تک، اندرا گاندھی کی ایمرجنسی حکومت نے بھی یہ محسوس کرلیا تھا کہ اب پریس کو سنسر کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ میڈیا نے بھی ایسا ہی کیا تھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اب معاملات اسی طرح چلیں گے۔ اُن دنوں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے لیڈر ایل کے اڈوانی نے کچھ اسی طرح کی شکایت کی تھی کہ’’پریس سے جھکنے کیلئےکہا گیا تھا لیکن اس نے رینگنا شروع کردیا۔ ‘‘
 وہ دور۱۹۷۷ء میں ختم ہوگیا تھا کیونکہ کانگریس انتخابات ہار گئی تھی۔ اس بار بی جے پی الیکشن نہیں ہاری ہے لیکن مودی کے ہمیشہ کیلئے قائم رہنے کے امکانات یقیناً معدوم ہو گئے ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ اگلا الیکشن ہار جائیں۔ اس احساس نے نہ صرف میڈیا بلکہ فرمانبردار سرکاری ملازمین اور پولیس افسران کو بھی متاثر کیا ہے، جنہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ انہیں ایک دن دوسرے باس کو جواب دینا پڑے گا۔ توہین عدالت کے قوانین مجھے مزید کچھ کہنے سے روکتے ہیں، لیکن مجھے یقین ہے کہ عدلیہ کے کچھ عناصر بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہیں۔ بے شک، مودی اب بھی طاقتور ہیں، لیکن وہ ہمیشہ رہنے والے وزیر اعظم قطعی نہیں رہ گئے ہیں۔ 
 بی جے پی کی مقبولیت کا ایک بڑا حصہ گزشتہ ایک ڈیڑھ دہائی میں سوشل میڈیا پر اس کی مہارت اور رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت سے آیا ہے لیکن اس بات کو قبول کرنا پڑے گا کہ بہت سے عوامل کی وجہ سے اس کی یہ صلاحیت لوک سبھا انتخابات کے نتائج آنے سے پہلے ہی کم ہونے لگی تھی۔ جب مین اسٹریم میڈیا نے خود کو کھیل دکھانے والے بندروں کے طور پر تبدیل کرلیاتو اس کی ذمہ داریاں انٹرنیٹ نے سنبھال لیں ۔ نیوز سائٹس، یوٹیوب چینلوں، فیس بک اور ایکس( ٹویٹر) نے کامیابی کے ساتھ مین اسٹریم کو چیلنج کیا اور اُس کہاوت کو ثابت کیا کہ’’— شہنشاہ کے نئے کپڑے حقیقت میں موجود نہیں تھے۔ ‘‘
 یہ توقع کی جا رہی تھی کہ جب وہ تیسری بار اقتدار میں آئے گی، تو بی جے پی اپنے فائدے کیلئے اہم آن لائن مواد کو ریگولیٹ کرنے کے طریقے تلاش کرے گی۔ یہ اب بھی ایسا کرنے کی کوشش کر سکتی ہے، لیکنحالیہ انتخابی نتائج کے بعد اس لائن پر اس کیلئے آگے بڑھنا زیادہ مشکل ہو جائے گا۔ 
 حالانکہ آج کے حالات میں بھی اپوزیشن کیلئے جشن کااظہار قبل از وقت جیسی بات ہے۔ حکومت کا اب بھی ایجنسیوں پر مکمل کنٹرول ہے اور وہ اپوزیشن لیڈروں کو نشانہ بنانے کیلئے ان کا استعمال جاری رکھ سکتی ہے۔ حکومت ایسے قوانین کا استعمال بھی کر سکتی ہے جو نہ صرف ملزمین کو تب تک مجرم تصور کرتے ہیں جب تک کہ وہ خود کو بے گناہ نہ ثابت کرسکیں۔ اس کے علاوہ ایسے قوانین بھی ہیں جو بے گناہوں کو بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے بھی طویل عرصے تک جیل میں رکھنے کی اجازت دیتے ہیں۔ 
  اس صورتحال کوصرف دو چیزیں ہی بدل سکتی ہیں۔ اول یہ کہخود حکومت کو اس بات کا احساس ہو کہ سی بی آئی اورای ڈی کے استعمال کے نتائج اب الٹے ہوتے جارہے ہیں اور عوام اس سرکاری بیانیے پر یقین نہیں کرتے کہ اپوزیشن کی جماعتیں بدمعاشوں سے بھری ہوئی ہیں جبکہ بی جے پی کے تمام لیڈر صاف ستھرے ہیں۔ دوم یہ کہ اگر عدلیہ انفرادی آزادی کے بارے میں ان تمام باتوں کو سنجیدگی سے لینا شروع کر دے جو چیف جسٹس کی تقاریر میں باقاعدگی سے آتی ہیں۔ خیال رہے کہ اپنی تقریروں میں وہ اکثر جیل کو حل قرار دینے سے انکار کرتے ہیں اور ضمانت کو بنیادی حق تصور کرتے ہیں۔ لیکن کیا ایسا ہو گا؟ اس پر کچھ کہنے سے قبل ہمیں انتظار کرنا پڑے گا اور دیکھنا پڑے گا کہ آگے کیا ہوتا ہے؟
 بی جے پی کے اقتدار میں آنے اور اس پر بنے رہنے کی جو سب سے بڑی وجہ تھی، وہ یہ کہ اس نے راہل گاندھی کو مذاق کا موضوع بنا دیا تھا۔ اس نے راہل گاندھی کو ایک اناڑی ’پپو‘ بنا دیا تھا جو بمشکل وزیر اعظم کے اولمپین کے درجے سے میل کھاتا تھا۔ 
  یہ بات درست ہے کہ مودی اب بھی راہول گاندھی سے زیادہ مقبول ہیں، لیکن کوئی بھی غیر جانبدار شخص راہل کو اب مذاق میں نہیں لیتا۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ راہل نے پچھلی دہائی میں بہت سی غلطیاں کی ہیں، لیکن بہت سے دوسرے سیاست دانوں کے برعکس، انہوں نے اپنی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھابھی ہے۔ اب انہیں ایک قابل اعتماد حریف کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، ایک ایسے شخص کے طور پر جو اُن مسائل (مثال کے طور پر منی پور) کے بارے میں واضح طور پر بات کرتا ہے جن سے وزیر اعظم نے گریز کرتے ہیں۔ جب وہ پارلیمنٹ میں بولتے ہیں تو بی جے پی کے لیڈران ہنستے نہیں ہیں بلکہ گھبراتے ہیں۔ 
 جن لوگوں کا خیال تھا کہ نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو مرکز میں چند وزارتی عہدوں سے مطمئن ہو جائیں گے اور حکومت کو بہت زیادہ پریشان نہیں کریں گے.... وہ دراصل ان کے ارادوں کو غلط سمجھے ہیں۔ دونوں وزرائے اعلیٰ اس معاملے میں بہت زیادہ حساس ہیں۔ وہ اپنی ریاستوں کیلئے بہت سارا پیسہ چاہتے ہیں، اتنا پیسہ کہ اس سے پڑوسی ریاستوں میں ناراضگی پیدا ہو جائے۔ وہ دونوں ہی وزیر اعظم کو ایک طرح سے قابو میں رکھنا چاہتے ہیں، جنہیں زندہ (حکومت میں بنے رہنے) کیلئےپیسے دیتے رہنے پڑیں گے۔ مودی کے سامنے دو ہی راستے ہوں گے، یا تو ان کے بیشتر مطالبات تسلیم کر لیں گے یا تو پھر حکومت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ بہرحال یہ وقت بتائے گا کہ آگے کیا ہوگا؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK