• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عمر عبداللہ کا پہلا چیلنج جموں کشمیر کیلئے ریاست کا درجہ حاصل کرنا ہوگا

Updated: October 20, 2024, 4:19 PM IST | Yogendra Yadav | Mumbai

یہ کام صرف مرکزی حکومت اور پارلیمنٹ ہی کر سکتی ہیں، تاہم تمام قومی اور علاقائی جماعتیں اس سوال پر متفق ہیں۔ مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کے سامنے اس کا وعدہ کیا ہے اور بی جے پی نے دوران انتخابات یہ وعدہ جموں کشمیر کےعوام سے بھی کیا ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ ریاست میں اپنی پسند کی حکومت نہ بننے کے بعد بھی وہ اپنے اس وعدے پر قائم رہے گی۔

Kashmir Valley has fully supported the National Conference, but four months ago in the Barhamula parliamentary constituency of the same valley, the people themselves defeated Omar Abdullah in the elections imprisoned Engineer Rasheed over him. Photo: INN
بلاشبہ وادی کشمیر نے نیشنل کانفرنس کی مکمل حمایت کی ہے لیکن چار ماہ قبل اسی وادی کے بارہمولہ پارلیمانی حلقے میں عوام نے خود عمر عبداللہ کو انتخابات میں شکست دی تھی اور جیل میں بند انجینئررشید کو ان پر ترجیح دی تھی۔ تصویر : آئی این این

کیا عمر عبداللہ کی نئی حکومت جموں کشمیر کیلئے امکانات کے نئے دروازے کھول سکے گی، جس کا ریاست طویل عرصے سے انتظار کر رہی ہے؟۲۰۱۴ ءمیں ہونے والے اسمبلی انتخابات اور اس الیکشن کے درمیان ریاست کا آئینی اور سیاسی منظر نامہ پوری طرح سے بدل گیا ہے۔ جموں کشمیر اب ایک عام ریاست نہیں رہی بلکہ ایک خصوصی ریاست یعنی مرکز کے زیر انتظام علاقے میں تبدیل ہوگئی ہے۔ آئین کا دفعہ ۳۷۰؍ جو اس ریاست کو خصوصی درجہ دیتا تھا، منسوخ کر دیا گیا ہے۔ اب دہلی کی طرح جموں کشمیر بھی صرف مرکز کے زیر انتظام ایک علاقہ ہے۔ دہلی ہی کی طرح وہاں بھی مرکز کے نمائندے کے طور پر، لیفٹیننٹ گورنر کو خصوصی اختیارات حاصل ہیں۔ نئی حد بندی کے بعد جموں خطہ اور وادیٔ کشمیر کا اندرونی سیاسی توازن بھی بدل گیا ہے۔ اب جموں کا وزن کشمیر کے برابر ہو گیا ہے۔ جموں کشمیر کے سائے میں گمنام اور نظر انداز رہنے والا لداخ اب اپنی جنگ لڑتے ہوئے ایک الگ مرکز کے زیر انتظام علاقہ بن چکا ہے۔ دوسری طرف پاکستان اپنے ہی مسائل میں الجھا ہوا ہے۔ کشمیر کے سوال پرپاکستان کا ساتھ دینے والی قوتیں چین سے پریشان ہیں۔ اس لحاظ سے یہ سیاسی تعطل کو حل کرنے کا ایک بڑا موقع ہے جو گزشتہ چھ سال سے جاری ہے۔ 
جموں کشمیر میں حال ہی میں ختم ہونے والے انتخابات کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ انتخابات پرامن طریقے سے ہوئے۔ وادی کشمیر سمیت تمام علاقوں کے لوگوں کی اچھی شرکت رہی اور ریاست میں ۶؍ سال بعد جمہوری حکومت بحال ہوئی۔ اس الیکشن میں عوام نے مرکز میں برسراقتدار بی جے پی اور ریاست میں نئی ​​حکومت سنبھالنے والے نیشنل کانفرنس اتحاد دونوں کو سبق سکھایا ہے۔ 
اس الیکشن میں بی جے پی کی حکمت عملی جموں خطہ میں یک طرفہ جیت حاصل کرنا تھی، جہاں سیٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح اس کی خواہش تھی کہ وادی کشمیر میں ووٹوں اور سیٹوں کی تقسیم ہو اور بہت سی سیٹیں ان پارٹیوں کو مل جائیں جو وقت ضرورت بی جے پی کی کھلے عام یا خفیہ حمایت کر سکیں۔ ایسے میں پہلی بار بی جے پی جموں کشمیر میں اپنی قیادت میں حکومت بنانے میں کامیاب ہونے کا خواب دیکھ رہی تھی۔ ضرورت پڑنے پر گورنر کے نامزد کردہ ۵؍اراکین اسمبلی کی بھی مدد لینے کا منصوبہ تھا۔ یہ منصوبہ بھی بی جے پی کو جموں کے ہندو علاقوں میں یک طرفہ کامیابی سے ہمکنار نہیں کر سکا۔ جموں کے پہاڑی اور قبائلی علاقوں میں اسے یکساں کامیابی نہیں ملی۔ 

یہ بھی پڑھئے:رتن ٹاٹا، وہ شخصیت جو اپنے پیچھےمعاشرہ اور انسانیت کی خدمت کی تابندہ روایات چھوڑ گئی

دوسری طرف وادی کشمیر میں تمام تر دھوم دھام کے باوجود بی جے پی کو زیادہ تر سیٹوں پر امیدوار نہیں ملے، جہاں امیدوار ملے، انہیں ووٹ نہیں ملے۔ محبوبہ مفتی، انجینئر رشیداور سجاد لون جیسے ممکنہ حلیف، جن پر بی جے پی کی بی ٹیم ہونے کا الزام لگایا گیا تھا، کو وادی کشمیر کے لوگوں نے یکسر مسترد کر دیا۔ سبق یہ ہے کہ سیکوریٹی فورسیز کی مدد سے لوگوں کو ڈرایا جا سکتا ہے لیکن ان کے دل نہیں جیتے جا سکتے۔ پروپیگنڈے کی مدد سے پرکشش تصاویر دوسرے ممالک کو دکھائی جا سکتی ہیں لیکن مقامی لوگوں کو گمراہ نہیں کیا جا سکتا۔ الیکشن جیتنے والے نیشنل کانفرنس اتحاد کیلئے بھی اس میں عوامی سبق ہے۔ 
بلاشبہ وادی کشمیر نے نیشنل کانفرنس کی مکمل حمایت کی ہے لیکن چار ماہ قبل اسی وادی کشمیر کے بارہمولہ پارلیمانی حلقے کے لوگوں نے خود عمر عبداللہ کو انتخابات میں شکست دی تھی اور جیل میں بند انجینئر رشید کو ان پر ترجیح دی تھی۔ ان چار مہینوں میں وادی کشمیر کے لوگوں کے مزاج میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، صرف ان کی توقعات کا بوجھ ایک بار پھر نیشنل کانفرنس کے کندھوں پر آ گیا ہے۔ یہ بوجھ بہت بھاری ہے۔ ’لوک نیتی۔ سی ایس ڈی ایس‘ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ عوام کی اصل تشویش بے روزگاری، مہنگائی اور ترقی کے مسائل پر ہے۔ ان توقعات کو پورا کرنا آسان نہیں ہوگا۔ یہ چیلنج مزید بڑھتا جا رہا ہے کیونکہ جموں خطے کے ہندو ووٹروں میں نیشنل کانفرنس اور خاص طور پر کانگریس کا اتحاد مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ نئی حکومت کے سامنے چیلنج اقلیتی ہندوؤں کا اعتماد جیتنا ہوگا۔ نئی حکومت کا پہلا چیلنج جموں کشمیر کو ریاست کا درجہ حاصل کرنا ہوگا۔ یہ کام صرف مرکزی حکومت اور پارلیمنٹ ہی کر سکتی ہیں۔ تاہم تمام قومی اور علاقائی جماعتیں اس سوال پر متفق ہیں۔ مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کے سامنے بھی یہ وعدہ کیا ہے۔ بی جے پی نے یہ وعدہ جموں کشمیر کے لوگوں سے بھی کیا ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ ریاست میں اپنی پسند کی حکومت نہ بننے کے بعد بھی بی جے پی اپنے وعدے پر قائم رہے گی اور ریاست کا درجہ بغیر کسی تاخیر یا پیچیدگی کے دیا جائے گا تاکہ منتخب حکومت عوام کی توقعات کے مطابق کام کرسکے۔ 
 آرٹیکل ۳۷۰؍ کا معاملہ زیادہ پیچیدہ ہے لیکن اس سے بچنا ممکن نہیں ہے۔ ’لوک نیتی۔ سی ایس ڈی ایس‘سروے نے ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ آرٹیکل۳۷۰؍ کو منسوخ کرنے کے دعوے کیلئے ملک کے باقی حصوں میں بھلے ہی بی جے پی کو جو بھی حمایت حاصل ہو، جموں کشمیر کے لوگ اس قدم سے خوش نہیں ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ریاست کے دو تہائی لوگ (اور وادی کشمیر کے تقریباً سبھی) آرٹیکل ۳۷۰؍کی واپسی چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں اور سپریم کورٹ کے اسے مان لینے کے بعد آرٹیکل ۳۷۰؍ کے پرانے الفاظ پر واپس جانا نہ تو ممکن ہے، نہ ہی ضروری، لیکن یہ واضح ہے کہ اس ریاست کی خصوصی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اسے ایک خاص درجہ اور کچھ خاص خود مختاری دینا پڑے گی۔ 
  یاد رہے کہ تمام شمال مشرقی ریاستوں کو آئین ہند کے آرٹیکل ۳۷۱؍کے تحت اسی طرح کی خصوصی خود مختاری حاصل ہے، یہی نہیں، آندھرا پردیش، مہاراشٹر اور کرناٹک جیسی ریاستوں کو بھی آرٹیکل ۳۷۱ ؍کے تحت مراعات حاصل ہیں۔ ایسے میں جموں کشمیر کے شہریوں کو ۳۷۰؍ کے بجائے ۳۷۱؍کی مدد سے زمین اور ملازمت سے متعلق مراعات دینا ناگزیر ہے۔ سچائی کو قبول کرنے کیلئے بی جے پی کو جموں کشمیر کو محض ایک جملہ اور قومی سیاست کے پیادے کے طور پر استعمال کرنے کا لالچ ترک کرنا ہوگا۔ یہی اصل قومی مفاد ہوگا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK