• Mon, 21 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

رتن ٹاٹا، وہ شخصیت جو اپنے پیچھےمعاشرہ اور انسانیت کی خدمت کی تابندہ روایات چھوڑ گئی

Updated: October 20, 2024, 2:20 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai

۲۰۲۴ء کےہورون رِچ لسٹ میں ۱۰؍ امیرترین افرادکےجو نام شامل ہیں، ان میں حال ہی وفات پانے والے رتن نول ٹاٹاکا نام نہیں ہے۔

Ratan Naval Tata. Photo: INN
رتن نیول ٹاٹا۔ تصویر : آئی این این

۲۰۲۴ء کےہورون رِچ لسٹ میں ۱۰؍ امیرترین افرادکےجو نام شامل ہیں، ان میں حال ہی وفات پانے والے رتن نول ٹاٹاکا نام نہیں ہے۔ اس فہرست میں گوتم اڈانی اینڈ فیملی سرفہرست ہے جس کی مجموعی دولت ۱۱؍ لاکھ ۶۱؍ ہزار ۸۰۰؍ کروڑ روپےہے۔ دوسرے نمبر پرمکیش امبانی اینڈ فیملی ہےجس کی مجموعی دولت ۱۰؍ لاکھ ۱۴؍ ہزار ۷۰۰؍ کروڑ روپے ہے۔ اس فہرست میں ۱۰؍و یں نمبرپرنیرج بجاج اینڈ فیملی ہےجس کی مجموعی املاک ایک لاکھ ۶۲؍ ہزار۸۰۰؍ کروڑ ورپے ہے۔ قابل ذکر اور قابل حیرت ہے کہ ہندوستان کے امیرترین افراد کی ہورون کی فہرست میں رتن ٹاٹاکا مقام۳۵۰؍ واں ہے۔ ان کی ذاتی دولت ۷۹۰۰؍ کروڑ بتائی گئی ہےاور ایک خبر کے مطابق انہوں نے اپنے پیچھے۳۸؍ سوکروڑ کی دولت چھوڑی ہے۔ یعنی وہ سرفہرست ۱۰؍ امیروں کی محفل سے بہت دور ہیں۔ تقریباً ۳۰؍ گنا دور ! اس کا جو مطلب ہے وہ اپنے آپ میں معنی خیز ہے۔ 
 رتن ٹاٹاکی اس محفل سے دوری کیا ظاہر کرتی ہے؟ سب سے پہلے تو یہ کہ وہ امیر بن گئے لیکن امیر سے امیرتربننے کی دوڑ میں شامل ہونے کوانہوں نے عملی طورپرمسترد کردیا۔ وہ اس مسابقت کے خلاف تھے ۔ ان کی کمپنی کاروباربلا شبہ ۱۰۰؍سے زیادہ ممالک میں پھیلا، ٹاٹاگروپ کی کمپنیو ں نے اپنے بزنس کا دائرہ بڑھایا، کئی قومی اوربین الاقوامی کمپنیوں کوضم کیا لیکن رتن ٹاٹا کی ذہنیت محدودرہنے کی طر ف ہی مائل تھی۔ وہ جانتے تھے کہ انسان اپنی شخصیت اورکاروبارکے لحاظ سےکتنی بھی حد تک چلاجائے، اس کی ایک حد ہی رہے گی۔ دنیا کے بیشتر کاروباری اور صنعتکار ایسےہیں جودنیا پر چھا جانا چاہتے ہیں بلکہ ان کے اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ وہ دنیا کے سارے سکھ چین خریدلینا چاہتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہےکہ سکھ چین خریدا نہیں جاسکتا۔ رتن ٹاٹا کے اقدامات سے اس ذہنیت کا اظہار کبھی نہیں ہوا۔ وہ سکھ چین خریدنا نہیں چاہتےتھےبلکہ ہر اس شخص کو سکھ چین فراہم کرنا چاہتے تھے جو ان سے بلا واسطہ یا بالواسطہ رابطےمیں تھا یاکسی طرح نہ بھی تھا۔ رتن ٹاٹا جیسے صنعتکارکیلئے صنعتوں کا فروغ معنی نہیں رکھتا تھا، اگراس کے پس پشت مقصدانسانیت اور معاشرے کافروغ نہ ہو۔ ان کا ایک قول اسی ذہنیت کا عکاسی کرتا ہےجو اس طرح ہے:’’اپنے بچوں کو امیربننا نہ سکھاؤبلکہ انہیں خوش رہنا سکھاؤ، پھرجب وہ بڑے ہوں گے تو وہ چیزوں کی قدرکرنا سیکھیں گے، پیسے کی نہیں ۔ ‘‘ غالباً یہی قول ان کی مجموعی شخصیت کا پرتومعلوم ہوتا ہے۔ رتن ٹاٹا نے اپنے معاشرے کی قدر کی، معاشرے کی ضروریات کی قدر کی اور معاشرےکی فلاح اور خوشی میں اپنی کامیابی اور خوشی محسوس کی۔ ان کا ایک قول یہ بھی ہے ’’ اقتدار اور دولت، دونوں میرے لئے اہم اثاثہ کی حیثیت نہیں رکھتے۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے:یوپی اور ہماچل، دومختلف حکومتوں کا ایک طرز کا حکم ؟ کس کیلئے اور کس کیخلاف؟

رتن ٹاٹا کاروباری تھے، صنعتکار تھے اوردولتمند بھی ہوئے لیکن ان کا ہدف کچھ اور تھا۔ رتن ٹاٹا نے کاروباری دنیا میں کامیابی کے ساتھ ساتھ سماجی خدمات پر بھی توجہ دی۔ ان کی رہنمائی میں، ٹاٹا گروپ نے کئی سماجی منصوبے شروع کئے جن میں تعلیم، صحت، اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو خاصی اہمیت حاصل رہی۔ انہوں نے ’ٹاٹا ٹرسٹ ‘(قائم کردہ ۱۹۵۸ء) کے ذریعے مختلف فلاحی سرگرمیوں کو فروغ دیا جس کا مقصد معاشرتی بہتری اور ترقی ہے۔ اس ٹرسٹ کے تعلق سے ایسی معلومات بھی دستیاب ہیں کہ اس کی بنیاد جمشید جی ٹاٹا نے ۱۸۹۲ء میں ’جے این ٹاٹا اینڈومنٹ فنڈ‘ کے طورپر رکھی تھی۔ ممکن ہے رتن ٹاٹا نے ۱۹۵۸ء میں از سرنو اس کی بنیاد رکھی ہو۔ بہر حال اس ٹرسٹ کے ذریعے دہائیوں قبل تعلیم وصحت کےمیدان میں جو فلاحی اورامدادی کام شروع کئے گئےتھے، وہ آج تک جاری ہیں۔ 
 رتن ٹاٹا کی کاروباری خدمات میں ٹاٹا کی نینو ‘ کار کو کون بھول سکتا ہے۔ یہ گاڑی آج سڑک پراتنی نظرنہیں آتی لیکن جس وقت اسے لانچ کیاگیا تھا، اس وقت ہر عام وخاص کی زبان پر اسی گاڑی کا چرچا تھا ۔ متوسط طبقے کو ذہن میں رکھ کر مارکیٹ میں لائی گئی اس گاڑی کولوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا تھا اور اس گاڑی کے تعلق سے الگ ہی جوش دیکھا گیاتھا۔ یہ ایک سستی اورماحول دوست گاڑی تھی یعنی ایک متوسط طبقے کے فرد کی سواری تھی۔ اس کے پیچھے وئی بڑا کاروباری مقصد نہ ہونا بھی اس بات کا ثبوت ہےٹاٹا گروپ کا بزنس کرنے کا طریقہ الگ ہے جواس بنیاد پر استوار ہےکہ رتن ٹاٹا کے پیش نظر پہلی ترجیح عام آدمی اوراس کی سہولت ہوتی ہے، پیسے سے پیسہ بنانا نہیں۔ 
 ایک رپورٹ کے مطابق ایسی کئی چیزیں ہیں جو ملک کو ٹاٹا گروپ نے ہی پہلی بار دی۔ تاج محل ہوٹل ملک کا پہلا عالیشان اور پُرتعیش ہوٹل ہے جسے جمشید جی ٹاٹا نے قائم کیاتھا۔ ملک کی پہلی تجارتی ایئرلائن کا سہرہ ٹاٹا ایئرلائنس کے سربندھتا ہےجسے جے آر ڈی ٹاٹا نے ۱۹۳۲ء میں قائم کیا تھا۔ اسی کمپنی کو بعد میں عوامی حیثیت دی گئی اور۱۹۴۶ء میں یہ ایئر انڈیا کے نام سے مشہور ہوئی۔ ٹاٹا نمک بھی اس گروپ کا وہ پروڈکٹ ہےجس سے گھر گھر کی یادیں جڑی ہوئی ہیں۔ ’ نمک ہو ٹاٹا کا، ٹاٹانمک ‘یہ نعرہ سن سن کر۹۰ء کی نسل بڑی ہوئی ہے۔ یہ وہ بنیادیں ہیں جن کا ٹاٹا گروپ اوراسے بعد کے برسوں میں عروج پرپہنچانے کے ذمہ دار رتن ٹاٹا سے گہرا تعلق ہے۔ چونکہ کاروبار ہی ان کا میدان تھا، اسلئے انہوں نے اسی میدان کو عوامی خدمت کا ذریعہ بھی بنادیا۔ 
 ۲۴۔ ۲۰۲۳ء میں ٹاٹا گروپ کی مجموعی آمدنی ۱۶۵؍ ارب ڈالر تھی۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں ٹاٹا گروپ سے ملحق کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد۱۰؍لاکھ ۲۸؍ ہزار سے زائد ہے۔ 
 گروپ کی آئی ٹی کمپنی ٹاٹا کنسلٹنسی سروسیز (ٹی سی ایس) کاملازمین کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کی بڑی کمپنیوں میں شمارہوتا ہے۔ اس کمپنی میں ۶؍ لاکھ ۱۴؍ ہزار۷۹۵؍ افراد کام کرتے ہیں۔ 
 رتن ٹاٹا کے بارے میں راج ٹھاکرے نےدوروز قبل اپنی طویل پوسٹ میں لکھا ’’رتن ٹاٹا اور میرے قریبی تعلقات تھے اور ایساکبھی نہیں ہوا کہ میں نے ان کے سامنے کوئی خیال پیش کیا ہو اور رتن ٹاٹا نے اس کا جواب نہ دیا ہو۔ مہاراشٹر کے ترقیاتی منصوبے کے حوالے سےتجاویز کا معاملہ ہو یا ناسک میں مہاراشٹر نو نرمان سینا کے دوراقتدار میں `بوٹانیکل گارڈن کی تعمیر کیلئے سی ایس آر فنڈ کا معاملہ، ان کی مجھ سے اور پارٹی سے وابستگی ​​اکثر نظر آئی۔ بوٹانیکل گارڈن کی تعمیر کے وقت ابتدائی طور پر منظور شدہ فنڈ کم پڑ گیا لیکن کام کے دائرہ کار کو دیکھتے ہوئے اور کام کے تئیں ہمارے جذبے اورشوق کے پیش نظر انہوں نے فنڈفراہم کرنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ اتنا ہی نہیں جب پارک مکمل ہوا تو میں نے ان سے درخواست کی کہ وہ آئیں اور اسے دیکھیں جس کا انہوں نے احترام کیا اور خود ناسک آئے۔ ‘‘کسی شخص کی کامیابی کیلئے یہ بہت ہے کہ اس نے اپنے پیچھے معاشرے کی خدمت کی تابندہ روایات چھوڑی ہوں اورلوگ باگ اسے انہی حوالوں سے جانتے ہوں اورجس کا سیاسی تنازعات سے بھی دوردور کا واسطہ نہ رہا ہو۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK