• Tue, 22 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’ون نیشن،ون الیکشن‘:موضوعات سے توجہ ہٹانے کا وزیراعظم مودی کا نیا نسخہ

Updated: October 20, 2024, 1:49 PM IST | Sagarika Ghose | Mumbai

خود ساختہ غیر حیاتیاتی وزیر اعظم مودی ایک بار پھرعوامی موضوعات سے توجہ ہٹانے کے کام میں لگ گئے ہیں۔ وہ کچھ ایسا کر رہے ہیں جسے انہوں نے اپنی گزشتہ دونوں میقاتوں کے دوران ایک فائن آرٹ کے طور پر فروغ دیا ہے۔

`One Nation One Election` is among the Prime Minister`s priorities. Photo: INN
’ون نیشن ون الیکشن‘ وزیراعظم کی ترجیحات میں شامل ہے۔ تصویر : آئی این این

خود ساختہ غیر حیاتیاتی وزیر اعظم مودی ایک بار پھرعوامی موضوعات سے توجہ ہٹانے کے کام میں لگ گئے ہیں۔ وہ کچھ ایسا کر رہے ہیں جسے انہوں نے اپنی گزشتہ دونوں میقاتوں کے دوران ایک فائن آرٹ کے طور پر فروغ دیا ہے۔ اس میں مودی کو مہارت حاصل ہے کہ کسی بھی موضوع سے عوام کی توجہ کس طرح ہٹائی جائے۔ اُس وقت جبکہ ایک انتہائی معمولی اور اوسط درجے کی قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کی حکومت نے بغیر کسی دھوم دھام اور مودی اسٹائل بینڈ باجا بارات کے اقتدار میں ۱۰۰؍ دن مکمل کر لئے، اجتماعی توجہ ہٹانے کا ایک اور ہتھیار سامنے آیا ہے۔ اس کا نام ’ون نیشن، ون الیکشن‘ دیا گیا ہے۔ 
 ۱۸؍ ستمبر کو کابینہ نے’ایک ملک ایک الیکشن‘ یا یوں کہیں کہ لوک سبھا الیکشن کے ساتھ ہی بیک وقت ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات کی تجویز کو منظوری دی۔ اس اعلان نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ مودی نہ صرف اپنے برانڈ کو ظاہر کر رہے ہیں بلکہ یہ بھی کہ وزیراعظم تیزی سے سچائی سے دور ہو رہے ہیں۔ مودی ایک تصوراتی بلبلے میں رہتے ہیں جہاں وہ اب بھی اپنے آپ کو ’دیویہ شکتی‘ سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ جون۲۰۲۴ء سے پہلے کے اس دور میں جی رہے ہیں، جب بی جے پی کوواضح اکثریت حاصل تھی اور ان کی اپنی شخصیت غالب تھی۔ آج کی سچائی یہ ہے کہ وہ نام نہاد ’مودی فیکٹر‘ زوال پذیر ہے۔ 
 ’ون نیشن ون الیکشن‘ قانون کیلئے۲؍ آئینی ترامیم درکار ہوں گی، یعنی اسے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت سے منظور کرنا ہوگا۔ بل کی منظوری کیلئے این ڈی اے کو لوک سبھا میں ۳۶۲؍ اور راجیہ سبھا میں ۱۶۶؍ ووٹوں کی ضرورت ہے۔ وہ اس تعداد کے قریب قریب بھی نہیں ہے۔ درحقیقت، این ڈی اے کسی بھی آئینی ترمیم کو منظور کرنے کیلئے درکار دو تہائی اکثریت سے بہت دور ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو’ ون نیشن ون الیکشن‘ آئیڈیا کو آگے بڑھانا ’ ہیڈ لائن مینجمنٹ‘ کی صرف ایک اور کوشش ہے۔ اس کا مقصد منی پور بحران، سیبی کے انکشافات اور امتحانی پیپر لیک جیسے اہم مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بی جے پی، سنگھ پریوار کے وفادار وں اور اس کے کارکنوں میں مصنوعی تشہیر اور شور و غوغا پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مودی کا خیال ہے کہ ان کی قیادت والی حکومت ان کی مرضی اور ان کی من مانی کے مطابق کام کر سکتی ہے (جیسے انہوں نے۴؍ گھنٹے کے نوٹس پر نوٹ بندی کی ہو یا پھر لاک ڈاؤن) اور عام لوگ ان کے بار بار کئے جانے والے اقدامات کو نہایت احترام کے ساتھ قبول کرلیں گے۔ 
 حکومت اس تعلق سے دو سادہ وضاحتیں دے رہی ہے کہ ون نیشن، ون الیکشن کیوں ضروری ہے؟ اول یہ کہ اس سے انتخابی اخراجات کم ہوں گے اور دوم یہ کہ گورننس کا معیار بہتر ہوگا۔ ویسے سچائی یہ ہے کہ یہ دونوں ہی دلائل باطل اور بے معنی ہیں۔

یہ بھی پرھئے:آپ یہ عہد کرلیں کہ آپ کا ایک گروہ اخلاقی اقدار، پیش رفت اور معاشی خوشحالی کیلئے سرگرم ہو

ایک اندازے کے مطابق فی الحال الیکشن کمیشن انتخابات کے دوران ۴؍ ہزار کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کرتا ہے جبکہ ون نیشن ون الیکشن پر اس سے کم لاگت آئے گی۔ لیکن یہ سکے کا صرف ایک رخ ہے۔ سچائی یہ ہے کہ امیدوار اور پارٹیاں جو خرچ کرتی ہیں، اس کا اس میں شمار نہیں ہوتا۔ ایک اندازے کے مطابق ۲۰۲۴ء کے عام انتخابات پر جو خرچ ہوا ہے، وہ مبینہ طور پر ایک لاکھ ۳۵؍ ہزار کروڑ روپے تھا، جو اَب تک کا سب سے مہنگا ہے۔ ہندوستان کے تیزی سے بڑھتے ہوئے ووٹروں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے، اس بات کا قطعی امکان نہیں ہے کہ آئندہ برسوں میں سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کی سطح پر ہونے والے اخراجات میں کوئی کمی واقع ہوگی۔ ایسے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے ہونے والا خرچ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ دونوں قسم کے انتخابات ایک ہی وقت میں کرانے کیلئے درکار انتظامات کی بھاری مقدار کے ساتھ ہی لاگت کا فرق بہت معمولی ہونے کا امکان ہے۔ 
 اسی طرح اس تعلق سے جو دوسری دلیل دی جارہی ہے، وہ یہ ہےکہ ’ون نیشن، ون الیکشن‘ بہتر طرز حکمرانی کا باعث بنے گا۔ یہ مکمل طور پر بکواس ہے۔ سچائی اس کے برعکس ہے۔ مودی کو حکمرانی کی ضرورتوں کا احساس اسی وقت ہوتا ہے جب انتخابات ہونے والے ہوں۔   
 ۲۰۲۴ء میں، عام انتخابات سے دو ہفتے پہلے، مودی نے ایندھن کی قیمتوں میں ۲؍ روپے اور ایل پی جی کی قیمت میں ۱۰۰؍ روپے کی کمی کی تھی۔ ۲۰۲۴ء سے پہلے کے برسوں میں جب عالمی سطح پر قیمتوں میں کمی واقع ہوئی تھی، تو اس کا فائدہ عوام اور صارفین کونہیں اٹھانے دیا گیا تھا، لیکن جیسے ہی انتخابات کا اعلان ہوا — قیمتیں نیچے آگئیں۔ مودی مہنگائی پر زور دے کر اپنے شہری متوسط طبقے کے ووٹ بینک کو راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جمہوریت کوئی کمپنی نہیں ہے جس کے اخراجات کو متوازن کرنے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت عوام کی مرضی اور عوام کے حق کے بارے میں ہے کہ وہ ایسی حکومت کو گرا دیں جو عوام کا اعتماد کھودے۔ 
 مودی حکومت کہتی ہے کہ حکمرانی کیلئے’ ایک ملک، ایک انتخاب‘ بہتر ہے، لیکن ہمارے ملک میں سچائی یہ ہے کہ متواتر انتخابات کی بدولت عوام کی ضروریات بہتر طور پر پوری ہوتی ہیں۔ مہاراشٹر میں اچانک انتظامی سرگرمیوں کو دیکھیں، جہاں چند ہفتوں میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ خواتین کیلئے ایک نئی اسکیم’لاڈلی بہن یوجنا‘ کا اعلان جولائی۲۰۲۴ء میں کیا گیا۔ اس کے تحت خواتین کو مالی مدد دی جارہی ہے۔ اسی طرح کسانوں کیلئے گیس سلنڈر اور بجلی کے بل معاف کرنے والی دیگر اسکیموں کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ لگاتار انتخابات کی وجہ سے رائے دہندگان کو حکومت اور حکمراں جماعتوں سے اپنے لئے کچھ مطالبات کرنے کا موقع ملتا ہے اورحکومتیں بھی اسی وقت عوام کو یاد کرتی ہیں جب انہیں اُن کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح لگاتار انتخابات حکومتوں کو عوام کے تئیں چوکنا رکھتے ہیں۔ 
 بی جے پی کے حامی ان مضحکہ خیز دلائل کا سہارا لے رہے ہیں کہ’ ایک ملک، ایک الیکشن‘ کی ضرورت ہے کیونکہ یہ۱۹۵۰ء کی دہائی میں ایک عام رواج تھا۔ یہ دلیل تاریخی سیاق و سباق کو لاپروائی سے نظرانداز کرتی ہے۔ آج کی حقیقت سابق وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے دور سے بہت مختلف ہے۔ ۱۹۵۰ء کی دہائی سے ریاستوں کی تعداد، پارٹیوں کی تعداد، سیاسی تحریکوں، سیاسی شناختوں، مسائل، تحریکوں اور خواہشات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ نئی مقامی جماعتیں اور مقامی طبقات سامنے آئے ہیں۔ ۵۰ء کی دہائی میں، ہندوستان بالکل نیا نیا نوآبادیاتی دور سے باہر آیا تھا۔ جمہوریت میں اُتنا تنوع نہیں آیا تھا۔ اور ایک سچائی یہ ہے کہ اُس وقت صرف ایک بڑی پارٹی تھی’ انڈین نیشنل کانگریس‘۔ ۱۹۶۷ء کے بعد سے، مختلف مقامی شناختوں پر مبنی علاقائی جماعتوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:ہریانہ اور جموں کشمیر کے انتخابی نتائج ماہرین، سیاسی جماعتوں کیلئے نہیں، عوام کیلئے بھی حیران کن ہیں

ایسے میں سوال یہ ہے کہ علاقائی شناخت رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں کو ایک ہی قومی ریفرنڈم میں کیوں شامل کیا جانا چاہئے؟ ریاستوں سے دہلی کے احکامات پر عمل کرنے کیلئے کیوں کہا جائے؟ پیچیدہ علاقائی مسائل کو قومی مباحثوں کے ساتھ کیسے مربوط کیا جا سکتا ہے؟ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران شدت کے ساتھ سیاست پرعلاقائیت کا غلبہ ہوا ہے۔ اس کو ہم سیاست کی ’ہائپر لوکلائزیشن‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ لاتعداد پارٹیاں نہ صرف ریاستی سطح پر بلکہ پنچایت سطح پر بھی میدان میں ہیں۔ یہ پارٹیاں ان مسائل سے پریشان ہیں جن کا دہلی میں جاری سرگرمیوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ تمام سیاست مقامی سطح کی ہوتی ہے اور ووٹروں کے مقامی اور ریاستی انتخابات میں ان کے مقامی مفادات کو سننے کا امکان اس سے کہیں زیادہ ہوتا ہے، اگر ان تمام مسائل کو کسی ایک شخصیت کے بارے میں ایک بڑے قومی انتخاب میں ڈال دیا جائے۔ درحقیقت ’ون نیشن ون الیکشن‘ کے نظریئے سے دہلی کی آمرانہ ذہنیت کی بو آتی ہے۔ یہ ہمارے آئین کے’ دفعہ ایک‘ کی بھی خلاف ورزی کرتا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ’’ہندوستان ریاستوں کا ایک خودمختار اتحاد ہے‘‘ آج، پہلے سے کہیں زیادہ، ہندوستان اپنی ریاستوں میں رہتا ہے اور یہ ریاستی حکومتیں ہیں جو نچلی سطح پر شہریوں کی زندگیوں میں تبدیلی لانے میں سب سے آگے ہیں۔ 
 ایک ملک ایک انتخابی بحث میں بی جے پی واضح طور پر سامنے نہیں آ رہی ہے۔ اس کا ٹریک ریکارڈ ریاستوں میں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ تصادم، پارٹیوں کو توڑنا اور حکومتوں کو گرانا رہا ہے۔ ۹؍ برسوں میں ۹؍ جمہوری طور پر منتخب حکومتوں کا تختہ اُلٹ دیا گیا ہے۔ یہ ریاستیں اروناچل پردیش (۲۰۱۶)، منی پور (۲۰۱۷)، میگھالیہ (۲۰۱۸)، گوا (۲۰۱۷)، کرناٹک (۲۰۱۹)، مدھیہ پردیش (۲۰۲۰)، مہاراشٹر (۲۰۲۲) اتراکھنڈ (۲۰۱۶) اور پڈوچیری (۲۰۲۱) ہیں۔ یہ دھمکیوں، لالچ اور مرکزی ایجنسیوں کے غلط استعمال کے ذریعے کیا گیا ہے۔ اسی دوران بنگال کو منریگا کے واجبات نہیں دیئے گئے ہیں اور تمل ناڈو نے بھی شکایت کی ہے کہ اسے سیلاب ریلیف فنڈ سے محروم رکھا گیا ہے۔ 
 مودی کی قیادت والی بی جے پی نے ہندوستان کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا ہے۔ اس نے کووڈ جیسی صحت عامہ کی ایمرجنسی کے دوران لاک ڈاؤن نافذ کرنے میں تاخیر کی، صرف اسلئے کہ وہ مدھیہ پردیش میں کمل ناتھ کی قیادت والی کانگریس حکومت کو گرانا چاہتی تھی۔ مہاراشٹر میں بی جے پی نے دو علاقائی پارٹیوں شیو سینا اور این سی پی کو صرف اسلئے توڑ دیا کہ وہ کسی بھی قیمت پر اقتدار چاہتی ہے۔ بی جے پی نے شمال مشرق میں اپنی حکومتیں قائم کرنے کیلئے منتخب اراکین میں بڑے پیمانے پر انحراف کروایا۔ اروناچل پردیش میں تقریباً پوری کانگریس کو بی جے پی میں ضم کرکے حکومت بنائی گئی۔ کیا ایسی انتقامی سیاست کرنے والی بی جے پی حکومت پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے جو آئینی اقدار کی بحالی اور اس بنیاد پر’ وَن نیشن، وَن الیکشن‘ کو نافذ کرنا چاہتی ہے؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK