جموں کشمیر اور ہریانہ کے انتخابی نتائج نے تمام تجزیوں اور سروے کی نفی کردی ہے۔ انتخابات کیلئے کئے گئے سروے میں ہریانہ میں کانگریس کی جیت اور بی جے پی کی شکست کا دعویٰ کیا جارہا تھا جبکہ جموں کشمیر میں معلق اسمبلی کی پیش گوئی کی جارہی تھی، لیکن نتائج برعکس نکلے۔
ہریانہ الیکشن میں کامیابی کے بعدبی جے پی لیڈران نے جلیبی بنا کرجشن منایا۔ تصویر : آئی این این
جموں کشمیر اور ہریانہ کے انتخابی نتائج نے تمام تجزیوں اور سروے کی نفی کردی ہے۔ انتخابات کیلئے کئے گئے سروے میں ہریانہ میں کانگریس کی جیت اور بی جے پی کی شکست کا دعویٰ کیا جارہا تھا جبکہ جموں کشمیر میں معلق اسمبلی کی پیش گوئی کی جارہی تھی، لیکن نتائج برعکس نکلے۔ جموں کشمیر میں لوگوں نے پی ڈی پی کو مسترد کر دیا البتہ ہندو اکثریت جموں میں بی جے پی کو زیادہ سیٹیں ملی اور کانگریس کی حالت قدرے بہتر رہی لیکن ہریانہ میں کانگریس کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرحالات ایسے ہی رہے تھے تو جھارکھنڈ اور مہاراشٹر میں بھی کانگریس کے ہاتھ کچھ نہیں لگے گا۔
دونوں جگہ نتائج غیر متوقع رہے
مراٹھی اخبار’سامنا‘ نےاپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ ’’ہریانہ اور جموں کشمیر اسمبلی انتخابات کے نتائج بی جے پی اور کانگریس دونوں کیلئے حیران کن ہیں۔ کسی کو بھی یقین نہیں تھا کہ بی جے پی ہریانہ میں دوبارہ واپسی کرے گی مگر جیتی ہوئی بازی کو کیسے ہارا جاتا ہے، یہ کوئی کانگریس سے سیکھے۔ ہریانہ میں بی جے پی کی مخالفت کا یہ عالم تھا کہ لوگ وزیروں تک کو گاؤں میں داخل نہیں ہونے دے رہے تھے۔ اس کے باوجود نتائج کانگریس کے خلاف گئے۔ وہیں نیشنل کانفرنس اور کانگریس اتحاد نے جموں کشمیر میں جیت حاصل کرکے بی جے پی کا خواب چکنا چور کردیا ہے۔ دعویٰ کیا گیا کہ جموں کشمیر کے ووٹرس مودی اور شاہ کو ہی ووٹ دیں گے۔ پانچ سال قبل امیت شاہ نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے آرٹیکل ۳۷۰؍ کو ہٹا کر ایک انقلابی قدم اٹھایا ہے، لیکن وہ دہشت گردی کو ختم نہیں کرسکے۔ نوجوانوں کو نوکری دینے میں مودی، شاہ ناکام رہے اور ہندو پنڈتوں کی بھی گھر واپسی نہیں ہوسکی۔ آرٹیکل ۳۷۰؍ کو ہٹانے سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ جموں کشمیر کے عوام نے بی جے پی کو مسترد کردیا اور ہریانہ میں حالات ساز گار ہوتے ہوئے بھی کانگریس کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ ہریانہ میں بی جے پی مخالف لہر تھی اور کہا جارہا تھا کہ بی جے پی اس لہر میں بہہ جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا، کیونکہ کانگریس کا تنظیمی ڈھانچہ غیر منظم اور کمزور تھا۔ ایک بار پھر بی جے پی کی جیت میں آبروریزی کے مجرم بابا رام رحیم کا اہم رول رہا جو پرول پرباہر تھا۔ یہ بابا عین انتخابات کے وقت کیسے رہا ہوتا ہے؟اس سے قبل بھی اس کا انتخابی کنکشن سامنے آ چکا ہے۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے:آندھر اپردیش کے وزیراعلیٰ چندرا بابو نائیڈو کی سپریم کورٹ سے سخت سرزنش
بی جے پی کی جیت پرشبہ ہے
مراٹھی اخبار’پربھات‘ نے اداریہ لکھا ہے کہ ’’ جموں کشمیر اور ہریانہ میں کانگریس کے اچھے دن آنے کی پیش گوئی تمام اگزٹ پول نے کی تھی۔ ان میں سے صرف نصف ہی سچ ثابت ہوئی۔ اگرچہ جموں کشمیر میں نیشنل کانفرنس کے تعاون سے کانگریس اقتدار میں لوٹ آئی مگر ہریانہ میں اسے انتہائی چونکا دینے والی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ تمام اگزٹ پولز ہریانہ میں کانگریس کی یکطرفہ جیت کو ظاہر کررہے تھے۔ ووٹوں کی گنتی شروع ہونے کے بعد صبح ۱۱؍ بجے تک اور پوسٹل بیلٹ کے سبب کانگریس کا ۵۰؍ سے ۵۵؍ سیٹیں حاصل کرنے کا اندازہ لگایا جارہا تھالیکن دوپہر ۱۲؍ بجے کے بعد صورتحال پلٹ گئی۔ چونکا دینے والے نتائج سے سیاسی تجزیہ نگار بھی حیران رہ گئے۔ شام ۴؍ بجے تک بی جے پی کو واضح اکثریت مل گئی۔ حتمی نتائج ظاہر ہونے سے پہلے ہی وزیراعظم مودی نے بی جے پی کے وزیر اعلیٰ کو فون پر مبارکباد دے کر فتح پر مہر ثبت کردی۔ تقریباً دو سے تین گھنٹے تک الیکشن کمیشن نے نتائج کا اعلان انتہائی سست رفتاری سے کیا۔ تمام ٹی وی چینلوں کے نمائندے جو اِن پُٹ دے رہے تھے وہ کانگریس کے حق میں تھے مگر بعد میں ٹی وی کے اینکروں نے الیکشن کمیشن کے اعداد وشمار بتانے شروع کردیئے۔ یہ سب شک وشبہات کا باعث بناکیونکہ اس سے قبل چنڈی گڑھ کے میئر کے انتخاب میں جہاں کانگریس اور ’آپ‘ کا امیدوار واضح اکثریت سے جیت گیا تھاوہیں الیکشن کمیشن کے ریٹرننگ آفیسر نے اپنے ہاتھ سے بیلٹ پیپر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرکے بی جےپی کو فاتح قرار دیا تھا، اسلئے ہریانہ میں بی جے پی کی جیت بھی شک کے گھیرے میں ہے۔ ‘‘
کانگریس کیلئے آگے کا راستہ کافی مشکل ہے
ہندی اخبار’ نو بھارت ٹائمز‘ ` ۱۹؍کتوبر کے اداریہ میں لکھتا ہے کہ ’’جموں کشمیر اور ہریانہ کے انتخابی نتائج نےکسی بھی الجھن کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی ہے۔ نتائج کا پیغام بہت واضح ہے۔ ان انتخابات کے نتائج نہ صرف جموں کشمیر اور ہریانہ کے عوام اور وہاں کی سیاست کے لحاظ سے اہم ہےبلکہ کئی اہم مسائل پر قومی سیاست کا رخ بھی متاثر ہونے والا ہے۔ ان نتائج کو یقینی طور پر جموں کشمیر کیلئے ایک نئے دور کی علامت قرار دیا جاسکتا ہے۔ دس سال کے طویل عرصے کے بعد ہونے والے ان انتخابات میں عام لوگوں کی جیسی شرکت رہی اور جس طرح سے علاحدگی پسندی کے دھارے میں شامل لوگوں نے بھی سیاست کا راستہ اختیار کیا، یہ نہ صرف ملک بلکہ پوری دنیا کیلئے ایک مثبت پیغام ہے۔ سب سے بڑی بات نیشنل کانفرنس اور کانگریس اتحاد کو واضح اکثریت حاصل ہوئی۔ اس پر پی ڈی پی نے بھی اطمینان کا اظہار کیا۔ ہریانہ میں دس سال بعد بھی مبینہ حکومت مخالف رجحان لہر کو شکست دے کر بی جے پی اقتدار میں واپس آگئی ہے۔ کانگریس کیلئے یہ ایک بڑا جھٹکا ہے۔ کسان، جوان اور پہلوان کے نام پر جو رجحان طویل عرصہ سے چلایا جارہا تھا اس نے اپنی افادیت کھو دی ہے۔ کانگریس کی شکست پر جس طرح سے’ انڈیا‘ اتحاد میں شامل ’آپ‘ اور شیوسینا نے کانگریس کوکا نشانہ بنانا شروع کیاہے، اس سے واضح ہے کہ یہ نتائج اپوزیشن کی سیاست میں کانگریس کا راستہ مشکل کرنے والے ہیں۔ ‘‘
ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کانگریس کو لے ڈوبی
انگریزی اخبار ’ دی فری پریس جنرل‘ ` نے ۹ ا؍کتوبر کے اداریے میں لکھا ہے کہ’’یہ سچ ہے کہ ہندوستانی رائے دہندگان کو کبھی معمولی نہیں سمجھا جانا چاہئے۔ پولنگ اسٹیشن کے اندر جانے کے بعد وہ کسی سے نہیں ڈرتے اور اپنی پسند کے امیدوار کا انتخاب کرتے ہیں۔ تقریباً ہر اگزٹ پول نے پیش گوئی کی تھی کہ کانگریس مکمل اکثریت کے ساتھ ہریانہ میں حکومت بنا رہی ہے۔ پری پول سروے بھی حکمراں بی جے پی کی شکست کا دعوی کررہے تھے۔ اس سے کانگریس کے لیڈران کا دماغ ساتویں آسمان تک پہنچ گیا تھا۔ انہوں نے ہریانہ کو ایک پکے ہوئے آم کی طرح سمجھ لیا تھا جو بس ان کی جھولی میں گرنے ہی والا ہے۔ کچھ لیڈر دعویٰ کررہے تھے کہ وہ بے مثال فرق سے جیت حاصل کریں گے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ زمینی سطح سے کتنے لابلد تھے۔ آخر کار یہ بے جا خود اعتمادی کانگریس کو لے ڈوبی۔ کانگریس کے سابق وزیر اعلیٰ بھوپیندر سنگھ ہڈا نے ۹۰؍ امیدواروں میں سے ۷۰ ؍اپنی پسند کے امیدوار میدان میں اتارے تھے۔ اس سے پارٹی دو گروپ میں تقسیم ہوگئی۔ یہ سچ ہے کہ جاٹ پیسے اور طاقت میں کافی بااثر ہے۔ کانگریس کو اطمینان تھا کہ ہڈا اس کی نیا پار لگا دیں گےلیکن کانگریس یہ سمجھ نہیں پائی کہ بی جے پی نے غیر جاٹ ووٹوں کو بڑی خاموشی سے اپنے حق میں ہموار کرلیا ہے۔ ‘‘