مراٹھی کے مشہور لوک گیتوں کے اردو ترجمے کی ۱۷؍ ویں قسط میں ملاحظہ کریں ایسا گیت جو بیٹی کی رخصتی کے وقت ماں کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔
EPAPER
Updated: October 30, 2023, 1:47 PM IST | Pradeep Niphadkar | Mumbai
مراٹھی کے مشہور لوک گیتوں کے اردو ترجمے کی ۱۷؍ ویں قسط میں ملاحظہ کریں ایسا گیت جو بیٹی کی رخصتی کے وقت ماں کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔
شاعر سیاست کے میدان میں نہیں جاتا، وہ اس سے دور ہی رہتا ہے۔ لیکن کچھ شعراء ایسے بھی ہیں جو دونوں طرف اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ انہیں میں سے ایک پی ساؤڑا جی تھے۔ کسی زمانے میں وہ تھانے کے صدر (میئر) تھے۔ ان کا اصل نام نیوروتی ناتھ راؤجی پاٹل تھا۔ان کی رنگت سانولی تھی ، اسلئے ان کے بچپن کے دوست جو بعد میں مہاراشٹر قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر بنے وی ایس پاگے جی انہیں’ ساؤڑیا‘ (سانولا) کہتے تھے۔ پی ساؤڑا رام میں پی کا مطلب پاٹل ہے جبکہ ساؤڑا ان کا تخلص تھا ۔ کُسوماگرج جی نے انہیں جَن کوی(عوامی شاعر ) کا لقب دیا تھا۔
پی ساوڑا رام ۴؍ جولائی۱۹۱۴ء کو سانگلی ضلع کے یدینیپانی گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے کئی مراٹھی فلموں میں نغمےلکھے۔ جن میں ’کلپ ورکش کنیا ساٹھی بابا لاونیا گیلا(بیٹی کیلئے درخت لگاکر والد گیا)‘ یہ نغمہ انہوں نے لتامنگیشکر کیلئے لکھا تھا، جو آوڑتو سرواننا توچی آوڑے دیوالا (جو سب کو بھاتا ہےاسے خدا بھی چاہتا ہے)اورجتھے ساگرا دَھرنی مِڑتے(جہاں سمندر زمین سے ملتا ہے) زیادہ مشہور ہیں ۔آج ہم جو گیت لے کر آئے ہیں اسکے بول ہیں، `’جا مُلی جا، دِلیا گھری تو سکھی رہا‘۔ یہ گیت امسال اپنی تخلیق کے ۷۵؍سال مکمل کر رہا ہے۔ کچھ نغمے لافانی ہوتے ہیں ، یہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ آج بھی اس کی خوبصورتی ہنوز برقرار ہے۔
۱۹۴۸ء میں پونے ریلوے اسٹیشن پر سسرال جاتے ہوئے اپنی بیٹی کو ایک ماں سمجھا رہی تھی کہ’’ بیٹی اب آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں؟ سسرال میں خوش رہو۔‘‘ یہ سن کر پاٹل جی بہت اداس ہوئے۔ یہ گیت انہوں نے اسی وقت لکھا تھا۔ اسے وسنت پربھو جی نے راگ پہاڑی میں اپنی موسیقی کے ساتھ سجایا تھا اور لتا منگیشکر نے گایا تھا۔ پانچ ہزار ریکارڈ ریلیز ہوئے جس سے اس کی عوامی مقبولیت جگ ظاہر ہے۔ اس وقت ایک ریکارڈ کی قیمت ڈھائی روپے تھی لیکن یہ ریکارڈ بلیک مارکیٹ میںآٹھ دس روپے میں فروخت ہوتا تھا۔ اس وقت کی تمام تقریبات میں یہ گیت چھایا رہتا تھا۔ ریڈیو پر اتنی فرمائشیں ہوئیں کہ آخر ریڈیو کو کہنا پڑا کہ ’’آج سے ہم یہ گانا روزانہ سنائینگے۔‘‘ جس طرح مرزا غالب نے مومن کا ایک شعر پڑھ کر کہا تھا کہ یہ شعر مجھے دے دو بدلے میں مَیں اپنا دیوان دے دوں گا ۔ اسی طرح مراٹھی کے ممتاز شاعر جی ڈی مڈگولکر جی نے اس گیت کو سننے کے بعد کہا تھا کہ میں ایسا ہی لکھنے کی کوشش کروں گا۔ باتیں اور بھی ہیں مگر آیئے گیت سنتے ہیں :
گنگا جمنا ڈوڑیات اُبھیا کا
جا مُلی جا، دِلیا گھری تُو سُکھی رہا
(تمہاری آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں؟ بیٹی، جس گھر میں تمہاری شادی ہوئی ہے اس گھر میں تم ہمیشہ خوش رہو۔ جاؤ۔)
یہ بھی پڑھئے: مراٹھی شاعرہ بہنابائی کا گیت جسے’ خالص سونا‘ قرار دیا جاتا ہے
کڑکڑونی تُو مِٹھی مارتا باڑے
بالپن آلے آلے گھُموِت گھنگرواڑے
آٹھولے سارے سارے گہی وَرلے ڈوڑے
کڑمائچےتُلا سانگتی جا
(تم نےجو شدت سےگلے لگایا تو مجھے تمہارا بچپن یاد آگیا، کہ جب تم گھنگھرو پہن کر میری طرف دوڑ کر آتی تھیں ۔ مجھے سب کچھ یاد آیا اور میری آنکھیں بھر آئیں۔ یہ میرا سسکتا ہوا پیار ، ماں کی ممتا، میرے آنسو، تمہیں کہہ رہے ہیں، جاؤ بیٹی جاؤ۔)
دَارات اُبھی راہیلی کھِلاری جوڑی
بگھ دِیر دھاکلے بسلے کھوڑنبون گاڑی
پُس گا ڈوڑے یا پَدرانے ساور ہی ساڑی
رُوپ درپنی ملا ٹھیونی جا
(دروازے پر اچھے بیلوں کی جوڑی والی بیل گاڑی کھڑی ہے۔ تمہارا چھوٹا دیور انتظار میں کب سے کھڑا ہے۔ اب اپنے آنسو پونچھ لو ، اپنی ساڑھی پہن لو اور اپنی صورت میرے دل کے آئینے میں رکھ کر جاؤ۔ بیٹی اپنے سسرال جاؤ۔)
موٹھیاچی تُو سُن پاٹلین ماناچی
ہسلے تجھے گ ہِروے بِلور لگینچڑے
بگھو نکوس ماگے ماگے لاڈکے بگھ پُڑے
نکوس وِسرو پری آئیلا جا
(تم بڑے گھر کی بہو ہو۔ پاٹل گھرانے کی پاٹلائن ہو۔ دیکھو تم نے اپنی شادی میں جو سبز چوڑیاں پہنی ہیں وہ مسکرا رہی ہیں۔ اب پیچھے مڑ کر مت دیکھنا۔ آگے کی سوچو ، آگے دیکھو۔ میری ایک درخواست ہے کہ اپنی ماں کو کبھی نہ بھولنا۔ جاؤ، خوش رہو۔)