انہوں نے ۱۹۳۱ء تا ۱۹۷۰ء کی تاریخی ہندی فلموں کے نایاب گیتوں، اداکاروں ، فلمساز اور موسیقاروں کے تعلق سے اخبار اور فلمی رسالوں میں شائع ہونے والے مضامین وتصاویر کا قیمتی ذخیرہ بھی سنبھا ل کررکھاہے
EPAPER
Updated: February 06, 2025, 12:01 AM IST | Saadat Khan | Mumbai
انہوں نے ۱۹۳۱ء تا ۱۹۷۰ء کی تاریخی ہندی فلموں کے نایاب گیتوں، اداکاروں ، فلمساز اور موسیقاروں کے تعلق سے اخبار اور فلمی رسالوں میں شائع ہونے والے مضامین وتصاویر کا قیمتی ذخیرہ بھی سنبھا ل کررکھاہے
پائیدھونی: یہاں کے ۶۷؍علی عمر اسٹریٹ میں رہائش پزیر ۸۸؍ سالہ محمد عثمان غنی ہندی فلموں اور موسیقی کے زبردست شیدائی ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے ہندی فلموں کے نغموں، مکالمحے، موسیقاروں اور اداکاروں کی تفصیلات اور تصاویر کا خزانہ محفوظ کررکھا ہے۔ پیرانہ سالی میں بھی ان کا یہ شوق و جذبہ برقرار ہے۔ ان کے پاس ۱۹۳۱ء سے ۱۹۷۰ء کی تاریخی ہندی فلموں کے نایاب گیتوں، فلم اداکاروں ، فلمساز اور موسیقاروں کے تعلق سے اخباروں اور فلمی رسالوں میں شائع شدہ مضامین کا بیش بہا ذخیرہ موجود ہے۔ آڈیو کیسٹ، سی ڈی، ریکارڈ اور ویڈیو کے غیر معمولی خزانے سے ایک الماری بھری پڑی ہے۔ انقلاب میں شائع ہونے والے فلمی نغموں اور مضامین کے تراشوں کو بھی محفوظ کر رکھا ہے جو تقریباً گزشتہ ۵۰؍ برسوں سے زیادہ عرصہ پر مبنی ہے۔
محمد عثمان غنی نے اس نایاب خزانے کو محفوظ رکھنے کیلئے لکڑی کی ایک الماری مختص کر رکھی ہے۔ جس میں پچاسوں فائلیں سجی ہوئی ہیں ۔ ان ہی فائلوں میں انہوں نے فلمی گیتوں، مضامین اور تصاویر اکٹھا کررکھےہیں ، علاوہ ازیں علاحدہ علاحدہ موضوعات پر مبنی بیسوں فائلیں ان کے پلنگ پر ہوتی ہیں ۔ جن میں وہ عنوان کے مطابق ’روزنامہ انقلاب ‘ سے نکالے گئے تراشوں کو فائل کر کے رکھتے ہیں ۔ جو لوگ ان کے شوق سےآگاہ ہیں وہ ضرورت پڑنے پر ان سے استفادہ کرتے ہیں ۔
محمد عثمان غنی اپنی الماری دکھاتے ہوئے، جہاں نغموں کا خزانہ محفوظ رکھا ہے۔ تصویر: آئی این این
محمد عثمان غنی نے بتایا کہ ’’ میرے والدایچ ایم وی موسیقی کمپنی کے ڈیلر تھے۔ ہماری دکان گرانٹ روڈ اسٹیشن ( ایسٹ) کے سامنے تھی۔ ایک مرتبہ اتوار کو میٹنی شو انگریزی فلم کی ٹکٹ کیلئے ۳۱؍ پیسوں کی ضرورت تھی۔ میں گھر سے دکان پہنچا۔ والد گاہکوں میں گھرے تھے۔ میں نے والد سے فلم کے ٹکٹ کیلئے ۳۱؍پیسے طلب کئے، جس پر انہوں نے کہا کہ دکان پر خریداروں کی بھیڑ ہے، تھوڑی دیریہاں کھڑے ہو جائو، پھر فلم دیکھنے جانا، اس طرح تھوڑی دیر کھڑے ہونے کےمعاملے میں ۳۰؍ برس گزرگئے، نہ ۳۱؍پیسہ ملانہ وہ فلم دیکھ سکا۔ انہوں نےمذکورہ دکان پر ۳۰؍ برسوں تک کام کیاتھا۔ یہیں سے فلم اور موسیقی کاشوق پیدا ہوا۔ اس عمرمیں بھی نایاب ہندی فلموں کے نغمے سننے کا شوق باقی ہے۔ اس جنون کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ میرے پاس ۱۹۳۱ء میں ریلیز ہونے والی عالم آراء فلم سے لے کر ۱۹۷۰ء تک کی فلموں کے نایاب نغموں کا آڈیو کیسٹ، سی ڈی اور ریکارڈ کا غیر معمولی خزانہ محفوظ ہے۔ جن میں تقریباً ۳؍ہزار گیت ہیں۔ اسی طرح تاریخی ہندی فلموں کے نایاب گیتوں، فلم اداکاروں ، فلمساز اور موسیقاروں کے تعلق سے اخباروں اور فلمی رسالوں میں شائع ہونےوالے مضامین اور یادگار تصاویر کابیش بہا ذخیرہ بھی موجودہے۔ میرے شوق کو جاری وساری رکھنے میں روزنامہ انقلاب کا بہت اہم کردار رہا۔ انقلاب میں شائع ہونے والے گزشتہ ۶؍دہائیوں کے فلمی نغموں، مضامین اور یادگار تصاویر کے تراشوں کو بھی محفوظ کر رکھا ہے۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: دوران تعلیم ہند چین جنگ کےوقت۲۵؍ ہزار روپے چندہ جمع کرکے کالج انتظامیہ کودیا تھا
ایک دیگر سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’’سرگم پریزنٹس(میوزیکل کمپنی) کے تحت مجھے وقتاً فوقتاً میوزیکل پروگرام بھی منعقد کرنے کاشوق رہا۔ فلم اداکار مدن موہن، ثریا، نورجہاں، شری رام چندر اور وجینتی مالا وغیرہ پر اب تک تقریباً ۱۵۔ ۱۲؍ پروگرام منعقدکئے ہیں۔ ‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ ’’میرے پاس ۱۹۳۱ء سے ۱۹۷۰ء کے کامیاب فلم اداکاروں مثلاً ماسٹر نثار، عبدالرشیدکاردار، نورجہاں، دیوی رانی، کنجن، زبیدہ، شریفہ، کے این سہگل، پنکج ملک، ہمانشورائے اور ستارہ دیوی وغیرہ کی نایات اور دیدہ زیب تصاویر کا بھی کلیکشن موجود ہے۔ ‘‘