مہنگائی اور بے روزگاری کے علاوہ زرعی شعبہ کی دگرگوں حالت، انتظامی سطح پر اضطرابی کیفیت ،ریاست کی معیشت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی پر سیاسی پارٹیوں کا محاسبہ ضروری ہے۔
EPAPER
Updated: October 21, 2024, 4:36 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai
مہنگائی اور بے روزگاری کے علاوہ زرعی شعبہ کی دگرگوں حالت، انتظامی سطح پر اضطرابی کیفیت ،ریاست کی معیشت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی پر سیاسی پارٹیوں کا محاسبہ ضروری ہے۔
مہاراشٹرمیں اسمبلی انتخابات کا بگل بج چکا ہے۔ سیاسی صف آرائیاں شروع ہو چکی ہیں اور حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی طرف کے سپاہی کیٖل کانٹوں سے لیس ہو رہے ہیں لیکن اس مرتبہ کامہاراشٹر الیکشن ہمارے خیال میں ریاست کے قیام سے لے کر اب تک ہونے والے تمام اسمبلی انتخابات کے مقابلے میں بہت مختلف ہے۔ ساتھ ہی یہ ووٹرس کے لئے بہت زیادہ کنفیوژن کا سبب بھی بنے گا کیوں کہ چند برس قبل تک جو پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف تھیں اب وہ حلیف ہیں اور انہی پارٹیوں کے اندر سے دوسری پارٹیاں نکل آئی ہیں جو بی جے پی کے ساتھ اقتدار میں ہیں۔ اس انتخاب میں اصل مقابلہ ہماری نظر میں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان ہی ہو گا کیوں کہ دونوں ہی قومی پارٹیاں ہیں۔ اس وقت بی جے پی ہریانہ میں ملنے والی بالکل غیر متوقع فتح سے سرشار ہے اور وہ ملک کی معاشی طور پر سب سے بڑی اور اہم ریاست پر اپنا اقتدار قائم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔ اس کے مقابلے میں کانگریس کے لئے مہاراشٹر کرو یا مرو کا مقابلہ ہو سکتا ہے کیوں کہ ہریانہ میں ملنے والی شکست سے جہاں اس کی تنظیم کی قلعی کھل گئی اور پارٹی میں گروہ بندی واضح ہو گئی وہیں بی جے پی کے لئے کانگریس اسی وجہ سے نرم چارہ ثابت ہو سکتی ہے۔ ویسے کانگریس نے اسی سال مئی میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات کے دوران مہاراشٹر میں جو شاندار مظاہرہ کیا تھا اور سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی، اسی مظاہرے کو وہ دہرانے کے لئےپرتول رہی ہے۔ اس کا اندازہ بی جے پی کو بھی بخوبی ہے کہ اسے کم از کم مہاراشٹر کی سطح پر اعتماد یافتہ پارٹی سے مقابلہ کرنا ہے اس لئے اس کی تیاریاں بھی زوروں پر ہیں۔
لوک سبھا انتخابات کے نتائج کی بنیاد پر دیکھا جائے تو کانگریس کو سبقت حاصل ہے کیوں کہ اس نے ۱۳؍ لوک سبھا سیٹوں پر فتح حاصل کی تھی جو اسمبلی حلقوں کے لحاظ سے ۷۸؍ سیٹیں ہوتی ہیں یعنی کانگریس پارٹی ۷۸؍ اسمبلی حلقوں میں پہلی پوزیشن پر رہی ہے۔ اس کے مقابلے میں بی جے پی کی سیٹیں کم ہیں ۔ اس صورتحال میں دونوں ہی پارٹیوں کے حلیف اہمیت کے حامل ہو جاتے ہیں۔ اتفاق سےکانگریس کے دونوں ہی حلیف این سی پی اور شیو سینا، بی جے پی کےہاتھوں مجروح ہوئے ہیں لیکن اس وقت سیاسی مساوات یا پھر سیاسی تجزیہ کا سوال نہیں ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ مہاراشٹر کے انتخابی موضوعات کیا ہیں جن کو لے کر سیاسی پارٹیاں میدان میں اتریں گی اور جن کی بنیاد پر ووٹر کسی پارٹی یا اتحاد کو ووٹ دینے کا فیصلہ کریں گے۔
موضوعات کی بنیاد پر اگر مہاراشٹر کے منظر نامہ کا تجزیہ کیا جائے توچند نہایت اہم موضوع ابھر کر آتے ہیں۔ جیسے زرعی محاذ پر کسانوں کی درگت، ان کی فصلوں کو خاطر خواہ دام نہ ملنا، اندرونِ مہاراشٹرحد سے زیادہ بڑھی ہوئی بے روزگاری، اتنی ہی شدید مہنگائی، مراٹھا، او بی سی اوردھنگر سماج کی جانب سے ریزرویشن حاصل کرنے کے لئےمسلسل تحریک چلانا، ریاستی حکومت کی جانب سے تعلیمی، سماجی اور معاشی محاذوں پر فیصلوں کوملتوی کرنا جس سے سرکاری سطح پر تساہلی کا ماحول قائم ہو ا اور بدعنوانی جیسے موضوعات ہیں جوووٹرس کے لئے کسی بھی محاذ کو ووٹ دینے کا سبب بنیں گے۔
یہ بھی پڑھئے:وَن نیشن، وَن الیکشن کا نفاذ کتنا مشکل، کتنا آسان؟
موضوعات پر تفصیل سے گفتگو کی جائے تو مہاراشٹر میں زراعت ایک اہم اقتصادی شعبہ ہے اور کسانوں کی حالت اکثر انتخابات میں اہم موضوع بنتی ہے، بلاشبہ اس انتخاب میں بھی یہ موضوع بنے گا۔ مراٹھواڑہ اور ودربھ جیسے علاقوں میں خشک سالی، قرض کا بوجھ اور کسانوں کی خودکشی کے واقعات عام ہیں۔ کسانوں کے قرض معاف کرنے، فصلوں کے بہتر دام اور آبی وسائل کی منصفانہ تقسیم جیسے مطالبات اس مرتبہ بھی انتہائی اہم ہیں۔ اس کے علاوہ مراٹھا سماج ریاست سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والا طبقہ ہے۔ اس کا ریزرویشن کئی سال سے انتخابی سیاست کا اہم حصہ رہا ہے۔ مراٹھا ریزرویشن کے حق میں مظاہرے اور احتجاج بھی ہوئے ہیں اور ایک تحریک تو اس وقت پورے زور و شور سے جاری ہے۔ اس کے علاوہ دیگر پسماندہ طبقات، جیسے دلت اور او بی سی کے ریزرویشن کے مسائل بھی اس الیکشن میں زیر بحث آنے کا قوی امکان ہے۔ ان دو موضوعات کے علاوہ مہاراشٹرکا تعلیمی نظام اور معیار اکثر بحث کا موضوع بنتے ہیں کیوں کہ دیہی علاقوں میں اسکولوں کی ناکافی تعداد، سہولتیں اور اساتذہ کی کمی جیسے مسائل کے ساتھ ساتھ انتظامی امور میں بھرتیاں نہ ہونے سے بھی عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ اگر بے روزگاری کو موضوع مان لیا جائے تو بے روزگاری اس وقت مہاراشٹر جیسی ترقی یافتہ صنعتی ریاست میں بھی بڑا مسئلہ بن گئی ہے۔ ان موضوعات کے علاوہ صنعتی ترقی، اسٹارٹ اپ کلچر کی حمایت اور معیشت کی نمو کے بارے میں حکومت کی پالیسیاں انتخابات میں بڑا موضوع بن سکتی ہیں۔ جرائم اور لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ بھی اس ریاست میں سر اٹھارہا ہے جبکہ مہاراشٹر اور یہاں کی راجدھانی ممبئی کو ملک کے سب سے محفوظ شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ خواتین کی حفاظت، بدعنوانی کا خاتمہ اور پولیس اصلاحات جیسے مسائل زیر بحث آنے کا قوی امکان ہے۔
ہندو مسلم تعلقات اور قوم پرستی کا مسئلہ خاص طور پر بی جے پی کی قیادت میں، اہم انتخابی موضوع بنے گا کیوں کہ یہ سماجی ہم آہنگی اور معاشی ترقی سے جڑا ہوا ہے۔ اگر سماج میں ہم آہنگی ہو گی تو سماج تیزی سے ترقی بھی کرے گا۔ اگر مسلمانوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ان کے لئے بھی تقریباً یہی موضوعات ہیں لیکن ان میں ہمیں فرقہ پرستی کا موضوع بھی شامل کرلینا چاہئے کیوں کہ مہاراشٹر میں اس سے قبل کبھی اس پیمانے کی فرقہ پرستی نہیں دیکھی گئی تھی۔ فرقہ وارانہ تصادم اور فسادات اس سے قبل بھی ہوئے ہیں لیکن چند ایک معاملات کوچھوڑ کر ان کے اثرات وقتی ہوتے تھے لیکن گزشتہ کچھ برسوں میں جس طرح سے ملک کی فرقہ وارانہ فضا کو مسموم کیا گیا ہے اس کا اثرمہاراشٹر کی سیاست اور یہاں کی فرقہ وارانہ فضا پر بھی پڑا ہے۔ مسلمانوں کو جس طرح سے ایک طرف دھمکیاں دی جارہی ہیں اور دوسری طرف دلاسہ دیا جارہا ہے وہ یہ ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے کہ مسلم ووٹوں کو بے اثر کرنا ان کیلئے کتنا ضروری ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کیلئے وہی پارٹیاں اہم ہیں جو فرقہ پرستی سے انہیں نجات دلانے کا کام کرسکتی ہیں۔