سیرت ِ نبی کریم ﷺ کی اِس خصوصی سیریز میں آپؐ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد کے حالات کا تذکرہ جاری ہے۔ آج کی قسط میں جانشینی کے لئے ہونے والی مشاورت اور حضرت ابوبکرؓ صدیق کی تقریر ملاحظہ کیجئے۔
EPAPER
Updated: June 07, 2024, 3:46 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai
سیرت ِ نبی کریم ﷺ کی اِس خصوصی سیریز میں آپؐ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد کے حالات کا تذکرہ جاری ہے۔ آج کی قسط میں جانشینی کے لئے ہونے والی مشاورت اور حضرت ابوبکرؓ صدیق کی تقریر ملاحظہ کیجئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشینی کا معاملہ
حضرت ابوبکرؓ کی تقریر سے صحابۂ کرامؓ کے غم واندوہ کی وہ کیفیت تو ختم ہوگئی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کی خبر سن کر اُن پر طاری ہوئی تھی، فطری حزن وملال اپنی جگہ تھا، اس میں سب مبتلا تھے، مگر اس یقین کے ساتھ کہ ایسا تو ہونا ہی تھا، دنیا میں کوئی بھی شخص ہمیشہ نہیں رہتا، اس سے انبیاء کرام بھی مستثنی نہیں ہیں۔ اب یہ سوال سب کے ذہنوں میں پیدا ہونے لگا کہ آپؐ کا جانشین کون ہوگا، یہ حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں فرمایا تھا، یہ الگ بات ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کو امامت کے لئے اپنی جگہ کھڑا کرکے آپؐ نے یہ اشارہ دے دیا تھا کہ ابوبکرؓ کو خلیفہ ہونا چاہئے، مگر یہ محض اشارہ تھا، صریح حکم نہیں تھا، چونکہ صاف اور واضح حکم نہیں تھا اس لئے صحابہ کے لئے واجب العمل بھی نہیں تھا، البتہ یہ ضروری تھا کہ امیر یا خلیفہ کا انتخاب ہونا چاہئے۔ حالاں کہ ابھی آپؐ کی تدفین بھی نہیں ہوئی تھی، بہ ظاہر تو ایسا ہونا چاہئے تھا کہ پہلے آپ ؐ کی تجہیز و تکفین اور تدفین کے مراحل طے کرلئے جاتے پھر خلیفہ کا انتخاب کیا جاتا، لیکن ایسا نہیں ہوا، بلکہ پہلے خلیفہ کا انتخاب کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خلافت کا قیام اور خلیفہ کی نامزدگی فرض ہے۔ (فتح الباری: ۹/۳۹)۔ یہ صحیح ہے کہ چند گھنٹے لوگ خلیفہ کے بغیر رہے، مگر یہ ایک وقفہ تھا، جو ایک امیر کے جانے اور دوسرے کے مقرر ہونے کے درمیان ہوتا ہے۔
سقیفۂ بنی ساعدہ میں اجتماعِ انصار
مدینے میں جن لوگوں نے رسولؐ اللہ اور دوسرے مہاجرین کا استقبال کیا اور دین اسلام کی نصرت کی وہ قرآن کریم کی اصطلاح میں انصار کہلاتے ہیں۔ اسلام سے پہلے یہاں دو بڑے قبیلے آباد تھے، اَوْس اور خَزرَج، زمانۂ جاہلیت میں یہ دونوں قبیلے ایک دوسرے کے ساتھ جنگ کرتے رہے تھے۔ آپؐ کی تشریف آوری کے بعد جنگوں کا یہ سلسلہ ختم ہو ااور دونوں شیروشکر ہوکر رہنے لگے۔ ان میں خزرج تعداد میں زیادہ اور اوس کم تھے۔ رسولؐ اللہ کی وفات کے بعد دونوں قبیلوں کے سرکردہ افراد سقیفۂ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے۔ بنی ساعدہ انصار مدینہ کا ایک قبیلہ تھا، یہ جگہ مسجد نبویؐ کے شمال مغرب میں بئر بضاعہ کے قریب واقع ہے۔ اس قبیلے کے رہائشی علاقے میں ایک وسیع چھپر پڑا ہوا تھا جہاں لوگ بیٹھا کرتے تھے اور مشورے ہوتے تھے۔ رسولؐ اللہ کے وصال کے بعد انصار یہاں مشورے کیلئے جمع ہوئے، مقصد یہ تھا کہ آپؐ کے جانشین کا انتخاب کرلیا جائے، بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس اجتماع میں خزرج کے لوگ شریک ہوئے، اوس کے لوگوں نے شرکت نہیں کی، خزرج کے لوگ بھی کسی خاص منصوبے کے تحت جمع نہیں ہوئے، بلکہ وہ غم کی اس گھڑی میں اپنے بیمار سردار حضرت سعد بن عبادہؓ کے گھر کے پاس بنے ہوئے اس چھپر میں بلا ارادہ آتے چلے گئے، اور بات شروع ہوگئی، کیونکہ مدینے میں خزرج کا غلبہ تھا، یعنی افرادی قوت ان کی زیادہ تھی اس لئے فطری طور پر ان کے ذہن میں یہ بات آئی کہ اب سردار ہماری قوم کا بننا چاہئے، کیونکہ ہم تعداد میں زیادہ ہیں، اس زمانے کے دستور کے مطابق اقتدار انہی کے پاس ہوتا تھا جن کو افرادی غلبہ اور تفوق حاصل ہوتا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: اس دن جب بلالؓ نے اذان میں اشہد ُ اَنّ محمداً کہا تو صحابہؓ کی ہچکیاں بندھ گئیں
یہ خیال پہلے ذہنوں میں پیدا ہوا، پھر زبانوں پر بھی آگیا۔ بعض حضرات کہنے لگے کہ اب خزرج کے سردار سعد بن عبادہؓ کو امیر ہونا چاہئے۔ ابھی یہ بات شروع ہی ہوئی تھی کہ کسی نے اس کی اطلاع حضرت عمرؓ کو دے دی کہ وہاں سقیفۂ بنی ساعدہ میں قبیلۂ خزرج کے لوگ امیر المؤمنین کے معاملے میں مشاورت کررہے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ کو ساتھ لیا اور وہاں پہنچ گئے جہاں یہ لوگ جمع تھے۔ کسی نے بھی ان کی آمد اور شرکت پر اعتراض نہیں کیا، یہ حضرات بیٹھ گئے اور خزرج کے لوگ گفتگو کرتے رہے۔ قبیلے کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ بھی وہاں موجود تھے۔ بیماری کی حالت میں لوگ ان کو گھر سے اپنے ساتھ لے آئے تھے، وہ کمبل میں لپٹے ہوئے بیٹھے تھے، اس واقعے کی کچھ تفصیلات حضرت عبداللہ ابن عباسؓ نے بیان فرمائی ہیں، انہوں نے حضرت عمر بن الخطابؓ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ہم لوگ رسولؐ اللہ کے گھر میں تھے کہ ایک آدمی نے گھر کے باہر سے مجھے آواز دی اور کہا کہ ابن الخطاب! باہر آؤ، میں نے کہا: اے شخص! یہاں سے جا، ہم لوگ رسولؐ اللہ کے معاملے میں مشغول ہیں، اور تمہارے لئے ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ اس شخص نے کہا: ایک واقعہ پیش آیا ہے، انصار سقیفۂ بنی ساعدہ میں جمع ہیں، آپ ان کے پاس چلیں، ایسا نہ ہو کہ کوئی ایسا معاملہ پیش آجائے جو بعد میں جنگ وجدال کا سبب بن جائے، میں نے حضرت ابوبکرؓ (کو پوری بات بتلائی اور ان )سے کہا کہ چلئے، چنانچہ ہم چلے، راستے میں ہمیں دو نیک آدمی ملے، انہوں نے کہا کہ اگر تم نہ بھی جاؤ تو کوئی بات نہیں، جو کچھ تمہیں کرنا ہے وہ بے فکر ہوکر کرو، میں نے کہا خدا کی قسم ہم ان کے پاس ضرور جائیں گے، وہاں جاکر دیکھا کہ کپڑوں میں لپٹا ہوا ایک شخص ان کے درمیان موجود ہے، میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے، لوگوں نے کہ یہ سعد بن عبادہؓ ہیں، میں نے وہاں پہنچ کر کچھ کہنے کا ارادہ کیا، میں نے اس موقع کیلئے کچھ اچھی باتیں ذہن میں جمع کی تھیں اور میں ابوبکرؓ کی موجودگی میں وہ باتیں کہنا چاہتا تھا، مگر ابوبکرؓ نے مجھ سے کہا کہ خاموش رہو اور آرام سے بیٹھو۔ (صحیح البخاری: ۵/۶، رقم الحدیث: ۳۶۶۷، فتح الباری: ۹/۳۲۶)
حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ مجلس میں جاکر بیٹھ گئے، انصار کی گفتگو جاری رہی، بنو خزرج کے حضرت ثابت بن قیسؓ نے کھڑے ہوکر انصار کے فضائل اور مناقب بیان کئے، ان کی خدمات کا ذکر کیا، انہوں نے اپنی طویل گفتگو کا اختتام اس تجویز پر کیا کہ رسولؐ اللہ کا جانشین انصار میں سے کسی کو ہونا چاہئے، اس کے بعد انہوں نے مہاجرین کی طرف متوجہ ہوکر پوچھا کہ میری اس تجویز پر آپ حضرات کی کیا رائے ہے، بعض کتابوں میں حضرت سعد بن عبادہؓ کی تقریر کا ذکر بھی ملتا ہے، انہوں نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
ہم انصار دین اسلام کے مددگار ہیں، اور اسلام کا لشکر ہیں، اور اے اہل قریش! تم ہم میں ایک چھوٹا سا گروہ ہو، تم نے ہمارے یہاں پناہ حاصل کی اور اب تم ہم سے ہمارا حق (سیادت و قیادت کا حق) چھننا چاہتے ہو۔ یہی وہ موقع تھا جب حضرت عمر بن الخطابؓ کچھ کہنے کا ارادہ کررہے تھے، وہ اس معاملے میں نہایت پرجوش تھے اور ان کے ذہن میں کچھ ایسی باتیں تھیں جن کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ اس موقع پر سب کے سامنے آنی چاہئیں، مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتے حضرت ابوبکرؓ نے انہیں خاموش رہنے کیلئے کہہ دیا، حضرت عمرؓ چپ چاپ بیٹھے رہے، لوگ امیر المؤمنین کے انتخاب کے معاملے میں گفتگو کرتے رہے، تجویز یں پیش کرتے رہے، ایک صاحب نے یہ تجویز پیش کی کہ دو امیر منتخب کرلئے جائیں، ایک انصار میں سے اور دوسرا مہاجرین میں سے، دونوں مل کر خلافت کا کام سنبھالیں، مگر یہ تجویز خود حضرت سعد بن عبادہؓ کو پسند نہیں آئی۔ (الکامل فی التاری: ۲/۱۸۹)
حضرت ابوبکرؓ کی تقریر
جب حاضرین کا روئے سخن مہاجرین کی طرف ہوا اور ان سے رائے مانگی گئی تب حضرت ابوبکرؓ کھڑے ہوئے اور نہایت مدلل طریقے پر اپنا موقف لوگوں کے سامنے رکھا، سب سے پہلے انہوں نے اللہ کی حمد وثنا بیان کی، اور اس حقیقت کا اظہار کیا کہ اللہ رب العزت نے محمد رسولؐ اللہ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، آپؐ نے لوگوں کو دین حق کی طرف بلایا تاکہ وہ ایک اللہ کی عبادت کریں، اس سے پہلے وہ بہت سے معبودوں کی پرستش کرتے تھے جو پتھر اور لکڑی سے بنائے جاتے تھے، اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے آپؐ ہی کی قوم کے لوگوں کو توفیق عطا فرمائی، اور اس کی ہدایت بخشی کہ وہ سب سے پہلے آپؐ کی تصدیق کریں اور آپؐ کی غم گساری کریں، اور قوم کی طرف سے جو ایذائیں انہیں پہنچیں ان پر صبر کریں، ان لوگوں نے تعداد میں کم ہونے کے باوجود اللہ کے رسولؐ کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ اس تمہید کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے انصار کے بہترین کردار کا بھی ذکر کیا اور اس بات کا اعتراف کیا کہ آپ ان فضائل کے بجا طور پر مستحق ہیں جن کا آپ لوگ ذکر کررہے ہیں۔ روایات میں ہے کہ انصار کی فضیلت کے متعلق جتنے بھی ارشادات نبویہ تھے وہ سب آپ نے ایک ایک کرکے بیان فرمائے۔ ان ارشادات میں ایک ارشاد یہ بھی تھا کہ ’’اگر لوگ ایک راستے پر چلیں اور انصار دوسرے راستے پر ہوں تو میں انصار کے راستے پر چلوں گا‘‘ اے انصار مدینہ! تمہاری فضیلت کا اور دین اسلام میں تمہاری سبقت کا کسی کو انکار نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے دین کی مدد کیلئے پسند کیا اور تمہیں اپنے رسول کا معین ومددگار بنایا، اور اپنے رسول کو تمہاری طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا، اس لحاظ سے مہاجرین اوّلین کے بعد تمہارا ہی مرتبہ بلند ہے۔
اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے فیصلہ کن انداز میں کہا کہ رسولؐ اللہ کی خلافت اور جانشینی کے معاملے میں ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اہل عرب کس کی خلافت پر اتفاق کرینگے، تمہارا مقام ومرتبہ اپنی جگہ مگر قریش کا قبیلہ تمام عرب میں انتہائی قدر و منزلت کا حامل ہے، یہ قدر ومنزلت کسی دوسرے قبیلے کو حاصل نہیں ہے، عرب کے قبائل اسی قبیلے کے کسی شخص پر متفق ہوسکتے ہیں۔ آپ لوگ اللہ سے ڈریں، اور اسلام کی اشاعت میں سب سے پہلے رخنہ ڈالنے والے نہ بنیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے مسئلے کا حل پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسا کرلیا جائے کہ امیر تو قریش کا ہو، اور وزیر تم لوگوں میں سے ہو۔ ایک انصاری صحابی حضرت خباب بن منذر ؓنے کہا کہ اس کے بجائے دو امیر بنا دیئے جائیں، ایک امیر تم میں سے ہو اور دوسرا ہم میں سے۔ حضرت ابوبکرؓ نے یہ تجویز مسترد کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسا ممکن نہیں ہے، قیادت ہماری ہوگی اور وزارت تمہاری ہوگی، کیونکہ قریش سب سے زیادہ محترم اور مقدس سرزمین سے تعلق رکھتے ہیں اور حسب ونسب میں بھی سب سے اعلا ہیں۔ (السنن الکبری للبیہقی: ۸/۲۴۵، رقم الحدیث: ۱۶۵۳۶، صحیح البخاری: ۸/۱۶۶، رقم الحدیث: ۶۸۳۰، مسند احمد بن حنبل: ۱/۹۹، رقم الحدیث: ۱۸)