سیرت النبی ؐ کی خصوصی سیریز میں رسول ؐپاک کے حجۃ الوداع کا تذکرہ جاری ہے۔ آج کی قسط میں آپؐ کی منیٰ سے واپسی، ایام حج میں متفرق ارشادات اور غدیر خم میں قیام ،خطبہ اور اس کے پس منظر کی تفصیل ملاحظہ کیجئے
EPAPER
Updated: April 19, 2024, 6:23 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai
سیرت النبی ؐ کی خصوصی سیریز میں رسول ؐپاک کے حجۃ الوداع کا تذکرہ جاری ہے۔ آج کی قسط میں آپؐ کی منیٰ سے واپسی، ایام حج میں متفرق ارشادات اور غدیر خم میں قیام ،خطبہ اور اس کے پس منظر کی تفصیل ملاحظہ کیجئے
ایام حج میں متفرق ارشادات
ان خطبات کے علاوہ بھی حج کے ایام میں فرمودات اور ارشادات کا سلسلہ جاری رہا، صحابۂ کرامؓ نے وہ تمام ارشادات نقل فرمائے ہیں، حضرت ابواُمامہ الباہلیؓ کہتے ہیں کہ میں حجۃ الوداع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھا، آپ نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان فرمائی، اس کے بعد ارشاد فرمایا: ’’اس سال کے بعد شاید تم مجھے نہ دیکھ پاؤ، یہ بات آپ نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی، پھر فرمایا: اپنے رب کی عبادت کرو، پنج وقتہ نمازیں پڑھو، رمضان کے روزے رکھو، بیت اللہ کا حج کرو، زکوۃ ادا کرو، یہ تمام کام خوش دلی کے ساتھ انجام دوگے تو جنت میں جاؤگے۔ ‘‘(مسند احمد بن حنبل: ۳۶/۵۹۵، رقم الحدیث: ۲۲۲۶۰، المستدرک علی الصحیحین للحاکم:۱/۵۲، رقم الحدیث: ۱۹)
حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حج کے ایام میں ) دجال کا ذکر فرمایا، اور کافی دیر تک اس کا ذکر فرماتے رہے، پھر فرمایا: کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی امت کو (دجال سے) ڈرایا نہ ہو، حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے بعد والے انبیاء نے بھی (دجال سے) ڈرایا، وہ تم میں ظاہر ہوگا، اور یہ بات تم اچھی طرح جانتے ہو، اور یہ بات بھی تم پر مخفی نہیں ہے کہ تمہارا رب ان چیزوں کو بھی جانتا ہے جو تم پر چُھپی ہوئی ہیں، یہ بات آپ ؐ نے تین مرتبہ فرمائی، پھر فرمایا: تمہارا رب کانا نہیں ہے، جب کہ اس (دجال) کی دائیں آنکھ کانی ہے، اور وہ اس طرح کی ہے جس طرح پھولا ہوا منقی ہوتی ہے، دیکھو! تم میرے بعد کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ (صحیح البخاری:۱/۳۵، رقم الحدیث: ۱۲۱)
حضرت ابوامامہ الباہلیؓ یہ ارشاد بھی نقل کرتے ہیں، فرمایا: اے لوگو! علم حاصل کرو، اس سے پہلے کہ علم اٹھالیا جائے اور اسے قبض کرلیا جائے، راوی کہتے ہیں کہ اس وقت تک یہ آیت نازل ہوچکی تھی: (ترجمہ) ’’اے ایمان والو! تم ایسی چیزوں کی نسبت سوال مت کیا کرو (جن پر قرآن خاموش ہو) کہ اگر وہ تمہارے لئے ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں مشقت میں ڈال دیں (اور تمہیں بری لگیں )، اور اگر تم ان کے بارے میں اس وقت سوال کرو گے جبکہ قرآن نازل کیا جا رہا ہے تو وہ تم پر (نزولِ حکم کے ذریعے ظاہر (یعنی متعیّن) کر دی جائیں گی (جس سے تمہاری صواب دید ختم ہو جائے گی اور تم ایک ہی حکم کے پابند ہو جاؤ گے)۔ اللہ نے ان (باتوں اور سوالوں ) سے (اب تک) درگزر فرمایا ہے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بردبار ہے۔ ‘‘ (المائدہ: ۱۰۱)
کسی نے عرض کیا: یارسول اللہ! علم کیسے اٹھایا جائے گا، حالاں کہ ہمارے پاس مصاحف موجود ہیں، اور ہم جو کچھ ان میں موجود ہے اسے سیکھتے ہیں، اپنی عورتوں کو اور اپنے بچوں کو سکھلاتے ہیں۔ (یہ سوال سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا، آپ کا چہرۂ مبارک غصّے سے سرخ ہورہا تھا، آپ نے فرمایا: تیری ماں تجھے گم کردے، یہود و نصاریٰ کے پاس بھی تو صحائف تھے، انہوں نے اپنے انبیاء کی لائی ہوئی آسمانی کتابوں میں سے کسی ایک حرف سے بھی واسطہ نہ رکھا، یاد رکھو! علم کے خاتمے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اس کے جاننے والے ختم ہوجائیں۔ آپؐ نے یہ بات بھی تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔ (مسند احمد بن حنبل: ۳۶/۶۲۱، رقم الحدیث: ۲۲۲۹۰)
یہ بھی پڑھئے: حجۃ الوداع میں آپؐ نے ۶۳؍اونٹ ذبح کئے، اسوقت آپؐ کی عمر مبارک ۶۳؍برس تھی
حضرت فضالہ بن عبید انصاریؓ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں فرمایا: ’’میں تمہیں بتلاؤں گا مسلمان کون ہوتا ہے، مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان کے شر سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں، اور مؤمن وہ ہے جس سے لوگوں کے اموال اور ان کی جانیں سلامت رہیں، مہاجر وہ ہے جو گناہوں کو چھوڑنے والا ہو، اور مجاہد وہ ہے جو اللہ کی اطاعت میں اپنے نفس کو تھکاتا ہو۔ ‘‘ (کشف الاستار: ۲/۳۵، رقم الحدیث: ۱۱۴۲) حارث بن برصاءؓ کہتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ’’جس نے جھوٹی قسم کھاکر اپنے بھائی کا مال ہتھیایا لیا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔ ‘‘ (الترغیب والترہیب: ۷/۵۹، رقم الحدیث: ۳۹۴۶)
حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ نے یہ ارشاد گرامی نقل کیا ہے’’اے لوگو! میں نے تمہارے پاس وہ چیز چھوڑی ہے کہ اگر تم نے اسے مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھا تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے، وہ ہے اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت، تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ‘‘ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم:۱/۱۷۱، رقم الحدیث: ۳۱۸)
منٰی سے واپسی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تشریق کے تینوں دن رمی کی، اس کے بعد مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے، راستے میں کچھ وقت کے لیے وادئ مُحَصَّبْ میں قیام فرمایا، وہاں آپ کے آزاد کردہ غلام حضرت ابو رافعؓ نے خیمہ لگایا تھا، ابھی آپ وادئ محصب میں ہی تھے کہ آپؐ نے حضرت عائشہؓ کے بھائی عبد الرحمن بن ابی بکرؓ کو بلاکر فرمایا کہ وہ اپنی بہن کو حرم کے باہر لے کر جائیں تاکہ وہ وہاں سے احرام باندھ کر مکّے میں داخل ہوں اور بیت اللہ کا طواف کریں، میں تم دونوں کا یہاں انتظار کررہا ہوں۔ آپ نے صحابۂ کرام ؓ کو حکم دیا کہ کوئی بھی شخص بیت اللہ کا طواف کئے بغیر واپس نہ جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادئ محصب میں ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھیں، رات کے وقت مکّے میں داخل ہوئے اور خانۂ کعبہ کا طواف کیا۔ (صحیح البخاری باب طواف الوداع: ۲/۱۷۹، رقم الحدیث: ۱۷۵۶)
طواف وداع سے فارغ ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہؓ کو حکم دیا کہ وہ مدینے کا سفر شروع کریں۔
غدیر خم میں قیام اور خطبہ
حجۃ الوداع سے واپسی کے دوران اٹھارہ ذی الحجہ کو آپؐ نے غدیر خم پر قیام فرمایا، یہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان وادئ جحفہ کے قریب ایک جگہ ہے، آپؐ نے اس مقام پر ایک خطبہ ارشاد فرمایا، اس خطبے کا مضمون یہ تھا ’’اے لوگو! میں ایک انسان ہوں، ممکن ہے عن قریب میرے رب کا قاصد مجھے بلانے آجائے اور میں اس کی دعوت قبول کرلوں ‘‘، اس میں یہ اشارہ تھا کہ میری وفات کا وقت قریب ہے، پھر فرمایا: ’’میں تم لوگوں میں دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، ایک ان میں سے اللہ کی کتاب ہے، جس میں ہدایت اور نور ہے، اس لئے کتاب اللہ کو تھامے رکھو اور اسے مضبوطی سے پکڑو‘‘ اس کے بعد فرمایا:’’اور میرے اہل بیت، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں نصیحت کرتا ہوں، یہ بات آپؐ نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔ ‘‘ (صحیح مسلم: ۴/۱۸۷۳، رقم الحدیث: ۲۴۰۸)
ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ خطبے کے دوران آپ نے حضرت علیؓ کا ہاتھ تھاما اور فرمایا’’جس کا میں دوست ہوں، علیؓ بھی اس کا دوست ہے، اے اللہ اس شخص کو اپنا دوست بنا جو علیؓ کو دوست بنائے اور اس کو اپنا دشمن قرار دے جو علی ؓسے دشمنی رکھے۔ ‘‘
اس خطبے کے بعد حضرت عمرؓ نے حضرت علیؓ سے فرمایا: ’’اے علی مبارک ہو، تم صبح وشام ہر مؤمن مرد اور ہر مؤمن عورت کے محبوب بن گئے۔ ‘‘ (سنن ابن ماجہ: ۱/۴۳، رقم الحدیث: ۱۱۶)
خطبے کا پس منظر
غدیر خم کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبے کا پس منظر یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع سے پہلے حضرت علیؓ کو یمن کی طرف بھیجا تھا کہ وہ وہاں جاکر صدقات اور دوسرے محصولات وصول کریں اور جو حصہ بیت المال کا بنتا ہو وہ لے کر آئیں اور باقی وہاں کی ضرورتوں میں استعمال کریں، حضرت علیؓ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق یمن کے مسلمانوں سے صدقات اور ذمیوں سے ٹیکس وصول کرکے بیت المال کے حصے کا بہ قدر مدینے روانہ کرکے مکہ مکرمہ کی راہ پکڑی اور حج سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے، اس موقع پر محصولات کی تقسیم وغیرہ کے حوالے سے بعض حضرات صحابہؓ نے حضرت علیؓ پر کچھ اعتراض کیا تھا، اور یہ اعتراض بہ راہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر بھی ان لوگوں نے دہرایا، آپ نے ان لوگوں کو سمجھایا اور حضرت علیؓ کے اقدامات کی تصویب فرمائی اور یہ بھی فرمایا کہ علیؓ کو اس سے بھی زیادہ کا حق تھا، آپؐ نے ان لوگوں سے فرمایا کہ وہ اپنے دلوں میں حضرت علیؓ سے کوئی کدورت نہ رکھیں، بلکہ ان سے محبت کریں، اس نصیحت کے بعد معترضین صحابہؓ کے دل حضرت علیؓ کی طرف سے بالکل صاف ہوگئے، مگر حج کے دوران آپؐ نے محسوس فرمایا کہ حضرت علیؓ کے تعلق سے کچھ باتیں ابھی تک قافلے کے اندر گردش کررہی ہیں، اس لئے آپ نے حجۃ الوداع سے واپسی پر غدیر خم کے مقام پر خطبہ ارشاد فرمایا، جس میں بلیغ حکیمانہ اسلوب میں حضرت علیؓ کا حق پر ہونا واضح فرمایا، اس خطبے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ بتلانا تھا کہ حضرت علیؓ اللہ کے محبوب اور مقرب بندے ہیں، ان سے اور میرے اہل بیت سے تعلق رکھنا مقتضائے ایمان ہے، اور ان سے بغض وعداوت اور نفرت وکدورت رکھنا ایمان کے منافی ہے، اس خطبے کے بعد ان کے دل بھی حضرت علیؓ کی محبت سے سرشار ہوگئے جن کے دلوں میں کچھ شبہات تھے، باقی تمام صحابہؓ کے دلوں میں جن میں حضرت شیخینـؓبھی شامل ہیں پہلے ہی سے حضرت علیؓ کیلئے بہت زیادہ محبت تھی جس کا وقتاً فوقتاً اظہار بھی ہوتا رہتا تھا۔
مذکورہ پس منظر سے یہ بات بہ خوبی واضح ہوجاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘‘ حضرت علیؓ کی قدر ومنزلت بیان کرنے کے لئے ارشاد فرمایا تھا اور معترضین کے شکوک وشبہات دور کرنے کے لئے آپؐ نے یہ بات ارشاد فرمائی، نیز اس ارشاد مبارک کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کی محبت کو فریضۂ لازمہ کے طور پر امت کی ذمہ داری قرار دیا، الحمد للہ اہل سنت والجماعت اتباعِ سنت میں حضرت علیؓ کی محبت کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں اور بلاشبہ حضرت علیؓ سے تمام اہل ایمان محبت رکھتے ہیں۔