سیرت النبی ؐ کی خصوصی سیریز میں رسول ؐپاک کے سفر آخرت کا تذکرہ جاری ہے۔ آج کی قسط میں مرض ِ وفات کا آغاز، حضرت عائشہؓ کے یہاں قیام اور آخری خطبے کی تفصیل ملاحظہ فرمائیے۔
EPAPER
Updated: May 03, 2024, 2:27 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai
سیرت النبی ؐ کی خصوصی سیریز میں رسول ؐپاک کے سفر آخرت کا تذکرہ جاری ہے۔ آج کی قسط میں مرض ِ وفات کا آغاز، حضرت عائشہؓ کے یہاں قیام اور آخری خطبے کی تفصیل ملاحظہ فرمائیے۔
رسول اللہ ﷺ کا سفر آخرت
(گزشتہ سے پیوستہ): انہی دنوں آپؐ کے چچا حضرت عباسؓ نے خواب میں دیکھا کہ زمین کو دو رسیّوں سے آسمان کی طرف کھینچا جارہا ہے۔ انہوں نے یہ خواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا، آپؐ نے فرمایا: اس میں تمہارے بھتیجے کے انتقال کی طرف اشارہ ہے۔ (مسند البزار: ۱/۳۹۷) حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن بھیجنے کا حکم ہوا، چنانچہ وہ روانہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو رخصت کرنے کیلئے تشریف لائے، حضرت معاذؓ سواری پر بیٹھے ہوئے تھے، آپؐ پیدل چل رہے تھے، آپؐ نے چلتے چلتے ارشاد فرمایا: اے معاذؓ! اس سال کے بعد شاید تم مجھ سے نہ مل پاؤ، اور میری قبر اور مسجد کے پاس سے گزرو۔ معاذؓ یہ سن کر رونے لگے، آپؐ نے فرمایا: اے معاذ! رو مت، رونا شیطان کا کام ہے۔ (مجمع الزوائد: ۹/۲۲)
حجۃ الوداع سے واپسی کے بعد ایک دن آپؐ غزوۂ احد میں شہید ہونے والے ستّر صحابۂ کرامؓ کی قبروں پر تشریف لے گئے۔ آٹھ سال بعد ان کی جنازہ پڑھی، ایک شب آپؐ جنت البقیع میں بھی تشریف لے گئے، اہل بقیع کے لئے دعائِ مغفرت فرمائی۔ وہاں سے واپس تشریف لاکر آپؐ مسجد میں منبر پر جلوہ افروز ہوئے، اور فرمایا: میں تم سے پہلے جارہاہوں تا کہ تمہارے لئے حوض وغیرہ کا انتظام کروں، میرا تم سے حوض کوثر پر ملنے کا وعدہ ہے، میں اسی جگہ حوض کوثر کو دیکھ رہا ہوں، مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں، مجھے اپنے بعد اس کا ڈر نہیں ہے کہ تم سب کے سب شرک میں مبتلا ہوجاؤ گے، البتہ یہ ڈر ہے کہ تم دنیا کی حرص اور باہمی رقابت میں مبتلا ہوجاؤگے، آپس میں لڑو گے اور ہلاک ہوجاؤگے۔ (سیرۃ المصطفی: ۳/۱۷۹، بہ حوالہ شرح الزرقانی: ۸/۲۵۰)
ان تمام آیات، روایات اور واقعات سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ دنوں تک دنیا میں قیام نہیں فرمائینگے۔
مرضِ وفات کا آغاز
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذی الحجہ کے اواخر میں حجۃ الوداع سے واپس تشریف لائے۔ مہینے کے جو چند دن باقی رہ گئے تھے وہ آپؐ نے مدینے ہی میں گزارے، محرم کا مہینہ بھی مدینے ہی میں گزرا اور صفر کا مہینہ بھی۔ چھبیس صفر سن گیارہ ہجری کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ بن زید بن حارثہؓ کی قیادت میں ایک لشکر تر تیب دیا، اس میں بڑے بڑے انصار اور مہاجر صحابہؓ شامل تھے۔ آپؐ نے حضرت اسامہؓ کو حکم دیا کہ وہ اس جگہ جائیں جہاں اُن کے باپ کو قتل کیا گیا تھا، وہاں لشکرکشی کریں۔ حضرت اُسامہ اس وقت اٹھارہ سال کے تھے، بعض حضرات کو اس پر اعتراض بھی ہوا کہ اٹھارہ سال کے لڑکے کو ایک ایسے لشکر کا امیر مقرر کیا گیا ہے جس میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ جیسے بڑے حضرات بھی شامل ہیں، ویسے بھی وہ ایک آزاد کردہ غلام کے بیٹے تھے۔ آپؐ کو بتلایا گیا کہ کچھ لوگ اُسامہ کی امارت پر معترض ہیں۔
آپؐ نے معترضین کی کوئی پروا نہیں کی، بلکہ فرمایا اگر وہ آج اُسامہؓ کی امارت پر اعتراض کر رہے ہیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، اس سے پہلے وہ اسامہؓ کے باپ زیدؓ کی امارت پر بھی اعتراض کرچکے ہیں، حالانکہ خدا کی قسم وہ امارت کا اہل تھا، اور وہ مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب بھی تھا، بالکل اسی طرح اس کا بیٹا بھی مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔ (صحیح البخاری: ۵/۲۳، رقم الحدیث: ۳۷۳۰) ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ میں تم لوگوں کو اسامہ کے ساتھ اچھے معاملے کی نصیحت کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم:۴/۱۸۸۴، رقم الحدیث: ۲۴۲۶)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس واضح ہدایت کے بعد صحابۂ کرامؓ نے لشکر میں جانے کی تیاری شروع کردی، اور چند دنوں میں لشکر کی تیاری مکمل ہوگئی، اس وقت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری طرح صحتمند تھے۔ حضرت اُسامہؓ کو جو جھنڈا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سپرد کیا تھا وہ اسے لے کر لشکر کے ساتھ نکل پڑے اور مدینے سے باہر مقام جوف میں ٹھہر گئے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی علالت کا سلسلہ شروع ہوا۔
یہ بھی پڑھئے: جبرئیل ؑ ایک انجان شخص کی شکل میں آپؐ کے پاس تشریف لائے اور کچھ سوال پوچھے
اسی دوران ایک شب آپؐ بقیع میں تشریف لے گئے، حضرت ابو مُوَیْہبَہؓ، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ہیں، کہتے ہیں کہ نصف شب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے طلب کیا اور فرمایا کہ اے ابو مویہبہؓ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اہل بقیع کے لئے مغفرت کی دُعا کروں، چلو آؤ وہاں چلتے ہیں۔ چنانچہ میں آپؐ کے ہمراہ وہاں گیا، جب آپؐ بقیع میں پہنچے تو آپؐ نے فرمایا :
’’اے بقیع والو تم پر اللہ کی سلامتی ہو، تم جس حال میں ہو وہ اس حال سے بہتر ہے جس میں لوگ ہیں، تاریک رات کی طرح یکے بعد دیگرے فتنوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے، ہر دوسرا فتنہ پہلے سے زیادہ خطرناک ہے۔ ‘‘
راوی کہتے ہیں کہ اہل بقیع سے اتنا فرمانے کے بعد آپؐ میری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے ابومویہبہ! مجھے دنیا کے خزانوں کے ساتھ ہمیشہ رہنے کا اختیار دیا گیا ہے، پھر جنت کا اختیار دیا گیا ہے، میں نے لقاء خداوندی اور جنت اختیار کی ہے۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں، آپ دنیا کے خزانے لے لیتے، اور دنیا میں دائمی زندگی بھی مانگ لیتے، اس کے بعد جنت تو تھی ہی، آپؐ نے فرمایا: نہیں ! میں نے رب سے ملاقات اور جنت کو ترجیح دی ہے۔
اس کے بعد آپ ﷺ نے بقیع والوں کے لئے مغفرت کی دُعا فرمائی، پھر وہاں سے واپس آگئے۔ واپس آنے کے بعد ہی آپؐ کے سر مبارک میں درد کا سلسلہ شروع ہوا، اسی بیماری میں آپؐ کی روح مبارک قبض کی گئی۔ (المستدرک للحاکم: ۳/۵۵، ۵۶)
مرض میں شدت اور ام المومنین حضرت عائشہؓ کے یہاں قیام
بدھ کے دن درد سر کا سلسلہ شروع ہوا، اور کئی دنوں تک جاری رہا۔ آپؐ اس رات ام المؤمنین حضرت میمونہؓ کے مکان میں تھے۔ واپسی میں آپ حضرت عائشہؓ کے یہاں تشریف لے گئے، حضرت عائشہؓ کو بھی سر درد کی شکایت رہتی تھی، وہ آپؐ کو دیکھ کر کہنے لگیں : ہائے میرا سر۔ آپؐ نے فرمایا: یہ بات تو مجھے کہنی چاہئے تھی، ہائے میرا سر۔ اس کے بعد آپؐ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا: اے عائشہؓ! اگر تم مجھ سے پہلے رخصت ہو گئیں تو کوئی فکر کی بات نہیں، میں تمہارا کفن دفن کرونگا، تمہاری نماز جنازہ پڑھاؤں گا اور تمہارے لئے مغفرت کی دُعا کروں گا۔ حضرت عائشہؓ نے ناز کے طور پر فرمایا: ہاں ! آپ یہی چاہتے ہیں کہ میں رخصت ہوجاؤں۔ یہ بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے۔ آپؐ اسی مرض کی حالت میں اپنی بیویوں کے یہاں ان کی باری کے مطابق قیام فرماتے رہے۔ (سیرۃ ابن ہشام: ۴/۴۹۵) پیر کے دن مرض شدت اختیار کر گیا، آپ بار بار پوچھتے تھے کہ کل میں کس کے گھر میں رہوں گا۔ آپؐ کی مرضی حضرت عائشہؓ کے گھر میں قیام کرنے کی تھی، لیکن آپؐ صراحتاً اپنی مرضی کا اظہار نہیں فرمارہے تھے، ازواج مطہرات نے آپؐ کا منشا سمجھ لیا، اور سب نے اجازت دے دی کہ آپؐ حضرت عائشہؓ کے یہاں قیام فرمالیں، چنانچہ آپ حضرت عائشہؓ کے یہاں منتقل ہوگئے۔ (البدایہ والنہایہ: ۵/۲۲۵)
محدثین نے لکھا ہے کہ حضرت عائشہؓ کے یہاں قیام کی ایک وجہ تو یہی تھی کہ آپؐ کو تمام ازواج میں سب سے زیادہ انسیت اور تعلق خاطر حضرت عائشہؓ سے تھا، دوسری وجہ یہ تھی کہ جب آپ حضرت عائشہؓ کے ساتھ ان کے بستر میں ہوتے تب بھی وحی نازل ہوجاتی تھی، دوسری بیویوں کے بستروں میں کبھی وحی نازل نہیں ہوئی، یہ صرف حضرت عائشہؓ کی خصوصیت تھی۔ آپؐ چاہتے تھے کہ بیماری کے یہ دن حضرت عائشہؓ کے گھر پر ہی گزریں تاکہ اگر آپ اپنے اہل کے ساتھ ہوں اور وحی آنی ہو تو آجائے۔
(کشف الباری: ۸/۶۶۵)
مرض کی شدت کا یہ عالم تھا کہ آپ حضرت عائشہؓ کے مکان تک دو لوگوں کے سہارے سے تشریف لائے، ان میں ایک آپ کے چچا حضرت عباسؓ تھے، اور دوسرے حضرت علی بن أبی طالبؓ۔ جمعرات کے دن آپؐ نے حکم دیا کہ مدینہ منورہ کے مختلف کنوؤں سے سات سر بہ مہر مشکیزوں میں پانی بھر کر لایا جائے اور آپؐ کے بدن پر ڈالا جائے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ہم نے پانی کے سات مشکیزے آپؐ کے جسم ِ مبارک پر ڈالے۔ اس سے آپؐ کو کچھ افاقہ ہوا۔ آپؐ نے فرمایا: اب بس کرو۔ (صحیح البخاری: ۱/۵۰، رقم الحدیث: ۱۹۸)
نماز پڑھانے کیلئے تشریف آوری
مرض میں کچھ کمی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز پڑھانے کیلئے مسجد میں تشریف لے گئے۔ آپؐ نے اس وقت سر مبارک پر کپڑا باندھ رکھا تھا۔ نماز کے بعد آپؐ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا۔ یہ آپؐ کا آخری خطبہ تھا۔ سب سے پہلے آپﷺ نے ربّ ذوالجلال کی حمدوثنا بیان فرمائی، اس کے بعد شہداء اُحد کا ذکر فرمایا اور ان کیلئے دعاء مغفرت کی، پھر مہاجرین سے فرمایا کہ دیکھو! تم تعداد میں زیادہ ہوں گے اور انصار کم ہوں گے، انصار نے مجھے ٹھکانہ دیا ہے، تم ان کے اچھوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور جو غلطی کرنے والے ہیں ان سے در گزر کرنا، اے لوگو! اللہ نے اپنے ایک بندے کو اختیار دیا ہے کہ وہ چاہے تو دنیا کی نعمتوں کو اختیار کرلے اور چاہے تو آخر ت کو اختیار کرلے، اس بندے نے آخرت کی نعمتوں کو اپنے لئے پسند کرلیا ہے۔ آپ کی یہ بات سن کر حضرت ابوبکرؓ رونے لگے کیونکہ آپؓ جان گئے تھے کہ بندے سے مراد خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔
حضرت ابوبکرؓ رو رہے تھے اور یہ بھی کہہ رہے تھے: یارسولؐ اللہ! آپؐ پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: اے ابوبکرؓ! رکو اور قرار پکڑو۔ اس کے بعد آپؐ نے مسجد کے اندر کُھلے ہوئے دروازوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ تمام دروازے بند کردیئے جائیں، صرف ابوبکرؓ کا دروازہ کُھلا رہنے دیا جائے۔ اس خطبے میں آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ اپنی دوستی اور رفاقت کا ذکر کیا اور فرمایا کہ ابوبکرؓ سے زیادہ مجھ پر کسی کا احسان نہیں ہے، جس نے بھی مجھ پر کوئی احسان کیا ہے میں نے اس کے احسان کا بدلہ اتار دیا ہے، مگر میں ابوبکرؓ کے احسانات کا بدلہ نہیں اتار سکا۔ اس کا صلہ قیامت کے روز اللہ ہی دینے والا ہے، اگر میں اللہ کے سوا کسی کو اپنا دوست بناتا تو ابوبکرؓ کو بناتا، مگر ان سے اسلامی اخوت اور محبت ہے، اس میں وہ سب سے بڑھ کر ہیں، اور اس میں کوئی ان کا شریک وسہیم نہیں ہے۔
آپ نے یہ بھی فرمایا کہ لوگو! اسامہؓ کا لشکر جلد از جلد روانہ ہونا چاہئے، مجھے خبر ملی ہے کہ بعض لوگ اسامہؓ کی امارت پر اعتراض کررہے ہیں کہ بوڑھوں کی موجودگی میں ایک جوان کو امیر بنا دیا، ان لوگوں نے اس کے باپ (زید) کی امارت پر بھی اعتراض کیا تھا، خدا کی قسم اس کا باپ بھی اس منصب کا اہل تھا اور اس کے بعد اس کا بیٹا بھی اس کا اہل ہے، لوگو! مجھے معلوم ہوا کہ تم اپنے نبیؐ کی وفات سے ڈر رہے ہو، کیا کوئی نبیؐ اپنی امت میں ہمیشہ رہا ہے جو میں تم میں ہمیشہ رہوں گا، میں خدا سے ملنے والا ہوں، اور تم بھی خدا سے ملنے والے ہو، میں تمام مسلمانوں کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ مہاجرین اولین کے ساتھ خیر کا معاملہ کریں، اور مہاجرین اولین کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ تقویٰ اور عمل صالح پر قائم رہیں۔ اے مسلمانو! میں تمہیں انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں، ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا، انہوں نے اسلام کو ٹھکانا دیا، اور تمہیں اپنے گھروں میں، اپنی زمینوں میں اور اپنے باغات میں شریک بنایا، حالانکہ وہ خود غریب تھے مگر انہوں نے اپنی ذات پر تمہیں ترجیح دی، دیکھو! میں تم سے پہلے جارہا ہوں، تم مجھ سے آکر ملنے والے ہو، اور ہماری ملاقات حوض کوثر پر ہوگی۔
خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد آپؐ منبر پر سے اترے اور اپنے حجرے میں تشریف لے گئے۔ (البدایہ والنہایہ ۵/۲۴۲)