سیرت النبی ؐ کی خصوصی سیریز میں رسول ؐپاک کے حجۃ الوداع کا تذکرہ جاری ہے۔ آج کی قسط میں ’’حدیث جبرئیل‘‘ کی تفصیل پڑھئے۔ آپؐ کے سفر آخرت کے آثار و قرائن اور صحابہ کا اضطراب بھی ملاحظہ کیجئے
EPAPER
Updated: April 26, 2024, 3:03 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai
سیرت النبی ؐ کی خصوصی سیریز میں رسول ؐپاک کے حجۃ الوداع کا تذکرہ جاری ہے۔ آج کی قسط میں ’’حدیث جبرئیل‘‘ کی تفصیل پڑھئے۔ آپؐ کے سفر آخرت کے آثار و قرائن اور صحابہ کا اضطراب بھی ملاحظہ کیجئے
حضرت جبرئیل ؑکی حاضری
ابھی سفر سے واپسی پر چند ہی روز گزرے تھے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کسی غیر معروف انسان کی شکل میں تشریف لائے۔ ان کے جسم پر سفید لباس تھا، بارگاہ نبوت میں حاضر ہونے کے بعد حضرت جبرئیل علیہ السلام نہایت ادب سے دو زانو ہوکر آپؐ کے قریب بیٹھے۔ بخاری شریف میں یہ روایت حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرامؓ کی مجلس میں رونق افروز تھے کہ ایک شخص آیا، اس نے سوال کیا: ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس سے ملنے پر، اس کے رسولوں پر اور مرنے کے بعد زندہ ہونے پر یقین رکھو۔ آنے والے شخص نے سوال کیا: اسلام کیا ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز پڑھو، زکوٰۃ ادا کرو اَور رمضان کے روزے رکھو۔ اس شخص نے پوچھا: احسان کیا چیز ہے؟ آپؐ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اور اگر تم اسے نہ دیکھ رہے ہو تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے (عبادت کے وقت بندے کی یہ کیفیت ہونی چاہئے)۔ اس نے سوال کیا کہ قیامت کب آئے گی؟ آپؐ نے جواب دیا کہ جس سے سوال کیا جارہا ہے وہ سائل سے زیادہ نہیں جانتا، البتہ میں تمہیں قیامت کی نشانیاں بتلا دیتا ہوں، جب لونڈی اپنے آقا کو جنے، سیاہ اونٹ چرانے والے بڑی بڑی عمارتیں بنانے لگیں، قیامت غیب کی ان پانچ باتوں میں سے ہے جسے خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’بیشک اﷲ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے۔ ‘‘ (لقمان: ۳۴)
اس گفتگو کے بعد وہ شخص واپس چلا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ اسے واپس بلاؤ، صحابہؓ اس کی تلاش میں گئے مگر وہ نہیں ملا، آپؐ نے فرمایا یہ جبرئیل تھے جو لوگوں کو دین سکھلانے آئے تھے۔
(صحیح البخاری:۱/۱۹، رقم الحدیث: ۵۰)
حدیث کی کتابوں میں یہ حدیث؛ حدیث جبرئیل کے نام سے مشہور ہے۔ شارحین حدیث لکھتے ہیں کہ یہ حدیث نہایت قابل قدر اور اعلیٰ مطالب ومقاصد یعنی اہم اصول دین پر مشتمل ہے۔ اسی لئے بعض محدثین نے اپنی کتابوں کا آغاز اسی حدیث سے کیا ہے، اس میں پورے دین کا خلاصہ اور نچوڑ ہے۔ (شرح الطیبی: ۱/۱۱۰)۔
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ حجۃ الوداع کے بعد پیش آیا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام حیات طیبہ کے آخری ایام میں ان تمام مسائل اور معتقدات کا خلاصہ بیان کرنے کیلئے تشریف لائے تھے جن کو متفرق طور پر تیئیس (۲۳) سال میں نازل کیا گیا تھا، گویا کہ حجۃ الوداع کے بعد جب کہ آپؐ تین مہینے بھی دنیا میں نہیں رہے شریعت کے مکمل ہونے کے بعد اس کا خلاصہ اور نچوڑ حضرات صحابۂ کرامؓ کے سامنے لانا مقصود تھا (حضرت جبرئیل علیہ السلام کے سوالات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوابات کے ذریعہ)۔ (فتح الباری: ۱/۱۱۹)
یہ بھی پڑھئے: رزق ِحلال کی فکر کیجئے تاکہ جسم و روح میں پاکیزگی رہے اور تقویٰ نصیب ہو
حضرت جبرئیل علیہ السلام بے شمار مرتبہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، لیکن ان کی حاضری اپنی شکل میں نہیں ہوتی تھی، عموماً وہ حضرت دحیہ کلبیؓ کی صورت میں آیا کرتے تھے، بعض اوقات دوسری شکلوں میں بھی تشریف لاتے، آپؐ انہیں پہچان لیا کرتے تھے کہ یہ جبرئیل ہیں، صرف اس مرتبہ ایسا ہوا کہ وہ ایک انجانے شخص کے حلئے میں آئے، اور سوال وجواب کرکے واپس چلے گئے، ان کی واپسی کے بعد آپؐ کے دل میں یہ بات آئی کہ آنے والے جبرئیل تھے، جس کا اظہار آپؐ نے صحابۂ کرامؓ سے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ حضرت جبرئیل کو ان کی اصل شکل میں بھی دیکھا، ایک مرتبہ پہلی وحی کے بعد جب دوسری وحی کے نزول میں تاخیر ہوئی تب وہ آسمان کے افق پر اپنی اصل شکل میں ظاہر ہوئے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھا تھا۔ قرآن کریم میں اس کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے: ’’اور بیشک انہوں نے اس کو (لامکاں کے) روشن کنارے پر دیکھا ہے۔ ‘‘ (التکویر: ۲۳) اور دوسری مرتبہ معراج کی شب میں، اس کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں موجود ہے:’’اور بیشک انہوں نے تو اُس (جلوۂ حق) کو دوسری مرتبہ (پھر) دیکھا، سِدرۃ المنتہٰی کے قریب۔ ‘‘ (النجم: ۱۳۔ ۱۴)
رسول اللہ ﷺ کا سفر آخرت
موت ہر شخص کا مقدر ہے، جو آیا ہے اُسے جانا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی انسان تھے، بہت سی آیات میں آپؐ کی بشریت کا واضح طور پر اعلان کیا گیا ہے، اور یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ جس طرح آپؐ سے پہلے انبیاء نے موت کا ذائقہ چکھا ہے اسی طرح آپؐ بھی اس کا ذائقہ چکھیں گے، جس طرح انہوں نے سکرات موت کا سامنا کیا ہے آپ بھی کریں گے، قرآن کریم میں اس طرح کی متعدد آیات ہیں، ایک آیت میں یہ حقیقت اس طرح بیان کی گئی ہے: ’’اور ہم نے آپ سے پہلے کسی اِنسان کو (دنیا کی ظاہری زندگی میں ) بقائے دوام نہیں بخشی، تو کیا اگر آپ (یہاں سے) اِنتقال فرما جائیں تو یہ لوگ ہمیشہ رہنے والے ہیں ؟ ‘‘ (الانبیاء:۳۴) اس کے فورا بعد فرمایا: ’’ ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور ہم تمہیں آزمانے کے لیے بری بھلی حالتوں میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہماری ہی طرف لوٹ کر آنے والے ہو۔ ‘‘ (الانبیاء:۳۵) ایک جگہ فرمایا: ’’اس زمین میں جو کوئی ہے وہ فنا ہونے والا ہے، اور (صرف) تمہارے پروردگار کی جلال والی، فضل وکرم والی ذات باقی رہے گی۔ ‘‘ (الرحمٰن: ۲۶، ۲۷) ایک جگہ فرمایا: ’’ہر چیز فنا ہونے والی ہے، سوائے اس کی ذات کے، حکومت اسی کی ہے اور اسی کی طرف تمہیں لوٹایا جائے گا۔ ‘‘ (القصص: ۸۸) ایک اور آیت کریمہ یہ ہے: ’’اے پیغمبر موت تمہیں بھی آنی ہے اور موت انہیں بھی آنے والی ہے۔ ‘‘ (الزمر:۳۰) حافظ ابن کثیر نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس آیت سے حضرت ابوبکرؓ سمجھ گئے تھے کہ اب رسولؐ اللہ دُنیا سے رخصت ہونے والے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر: ۴/۵۳)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابۂ کرامؓ کو جو تعلق تھا، جو محبت تھی اور جیسا سچا عشق تھا اس سے یہ ممکن تھا کہ وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد دین سے پھرجاتے، اس لئے قرآن نے پہلے ہی انہیں آگاہ کردیا تھا:’’اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تو) رسول ہی ہیں (نہ کہ خدا)، آپ سے پہلے بھی کئی پیغمبر (مصائب اور تکلیفیں جھیلتے ہوئے اس دنیا سے) گزر چکے ہیں، پھر اگر وہ وفات فرما جائیں یا شہید کر دیئے جائیں تو کیا تم اپنے (پچھلے مذہب کی طرف) الٹے پاؤں پھر جاؤ گے، اور جو کوئی اپنے الٹے پاؤں پھرے گا تو وہ اللہ کا ہرگز کچھ نہیں بگاڑے گا۔ ‘‘ (آل عمران:۱۴۴) مفسر قرطبیؒ کہتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر یہ واضح کردیا ہے کہ انبیاء اپنی امتوں میں ہمیشہ نہیں رہیں گے البتہ ان کی تعلیمات باقی رہیں گی، اگر کوئی نبی انتقال کرجاتا ہے یا قتل کردیا جاتا ہے تو اس کی تعلیم کا سلسلہ منقطع نہیں ہوتا، امت کو اس کی پیروی کرتے رہنا چاہئے۔ (تفسیر القرطبی: ۴/۲۲۲)
یہ بھی پڑھئے: ’’میں تم لوگوں میں دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، اللہ کی کتاب اور میری سنت‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا تو کچھ ایسی آیات بھی نازل ہوئیں جن میں آپ کی وفات کا اشارہ مخفی تھا، اور بعض صحابہؓ نے یہ اشارہ سمجھ بھی لیاتھا، چنانچہ جب یہ آیت نازل ہوئی: ’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا (المائدہ: ۳) تو حضرت عمر فاروقؓ رونے لگے، لوگوں نے پوچھا، یہ تو خوشی کا موقع ہے اور آپ رو رہے ہیں ؟ آپؓ نے جواب دیا کہ کمال کے بعد زوال کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، در اصل وہ سمجھ گئے تھے کہ حضور اب دنیا سے تشریف لے جانے والے ہیں۔ (البدایہ والنہایہ: ۵/۱۸۹)
سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم کہ اب آپ دنیا سے رخصت ہونے والے ہیں قرآن کریم کی سورۂ النصر سے ہوا۔ حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ یہ وہ سورہ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات کی خبر دی گئی، اور یہ حکم دیا گیا کہ وہ اب زیادہ سے زیادہ تسبیح وتہلیل میں مشغول رہا کریں، چنانچہ اس سورہ کے نزول کے بعد آپؐ آخرت کے معاملے میں پہلے سے زیادہ مستعد اور پہلے سے زیادہ جدوجہد کرنے والے بن گئے۔ (مجمع الزوائد: ۹/۲۶)حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اس سورہ کے نازل ہونے کے بعد آپ اکثر و بیشتر تسبیح و استغفار میں مشغول رہتے تھے، علامہ جلال الدین سیوطیؒ کہتے ہیں کہ آپؐ اٹھتے بیٹھتے اور چلتے پھرتے گویا ہمہ وقت یہ پڑھتے تھے: سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ، اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ وَتُبْ عَلَیَّ إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ، کبھی آپ یہ پڑھتے: سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَأَتُوْبُ إِلَیْہِ، اورکبھی یہ سُبْحَانَکَ اَللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوْبُ إِلَیْکِ۔ (الدر المنثور: ۶/۴۰۸)
اس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک میں بیس روز کا اعتکاف کیا، اس سے پہلے آپؐ دس روز کیلئے اعتکاف میں بیٹھا کرتے تھے، حضرت جبرئیلؑ نے بھی اس رمضان میں قرآن کریم کا دور دو مرتبہ کیا، جب کہ اس سے پہلے ہر رمضان میں ایک مرتبہ دور کیا کرتے تھے۔ (البدایہ والنہایہ: ۵/۲۲۳) حجۃ الوداع میں جب تکمیل دین کی آیت نازل ہوئی تو یہ بات تمام صحابہؓ پر واضح ہوگئی کہ اب رسولؐ اللہ کے وجود مسعود سے ہم لوگ محروم ہونے والے ہیں، چنانچہ اس موقع پر جتنے بھی خطبات آپ ؐنے دیئے ان سب میں یہ فرمایا کہ یہ میرا آخری حج ہے، اس کے بعد تم سے میری ملاقات ہونے والی نہیں ہے، تم حج کے مسائل سیکھ لو اس سال کے بعد شاید میں تم سے نہ مل پاؤں۔ (صحیح مسلم:۲/۹۴۳، رقم الحدیث: ۱۲۹۷)
حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسولؐ اللہ نے لوگوں کو خطاب کیا، اس میں یہ بات ارشاد فرمائی کہ اللہ نے اپنے ایک بندے کو دنیا اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے ان میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کیلئے کہا، بندے نے وہ چیز پسند کرلی جو اللہ کے پاس ہے، آپؐ کا یہ ارشاد سن کر حضرت ابوبکرؓ رونے لگے، ہمیں بڑا تعجب ہوا، بھلا اس میں رونے والی کیا بات ہے، آپ نے اللہ کے ایک ایسے بندے کا ذکر کیا ہے جس کو دنیا وآخرت میں سے کسی ایک کو چننے کا اختیار دیا گیا تھا، ہم نہیں سمجھے، ابوبکر سمجھ گئے، ابوبکر ہم میں سب سے زیادہ جاننے والے تھے، وہ سمجھ گئے کہ جس بندے کو اختیار دیا گیا ہے وہ رسولؐ اللہ خود ہیں۔ (صحیح البخاری: ۱/۱۰۰، رقم الحدیث: ۴۶۶)