حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں چاہتی تھی کہ میرے والد دنیا کے جھمیلوں سے الگ رہیں، کیوں کہ عزت اور وجاہت خطرے سے خالی نہیں ہوتی، اس میں ہلاکت کا اندیشہ رہتا ہے، اِلّا یہ کہ اللہ کسی کو صحیح سلامت رکھے۔
EPAPER
Updated: May 10, 2024, 4:04 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai
حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں چاہتی تھی کہ میرے والد دنیا کے جھمیلوں سے الگ رہیں، کیوں کہ عزت اور وجاہت خطرے سے خالی نہیں ہوتی، اس میں ہلاکت کا اندیشہ رہتا ہے، اِلّا یہ کہ اللہ کسی کو صحیح سلامت رکھے۔
رسول اللہ ﷺکی وصیتیں
مرض بڑھتا رہا، مرض کی شدت کی وجہ سے آپ پر غشی بھی طاری ہوجاتی تھی، یہ کیفیت دن میں کئی کئی مرتبہ ہوتی، لیکن آپ اس پر مطمئن تھے اور بار بار اللّٰہم الرفیق الاعلٰی فرماتے، جس کا مطلب یہ تھا کہ اے اللہ! رفیق اعلا سے ملا دے، وفات سے چار دن پہلے جب مرض میں شدت ہوئی تو ان لوگوں سے جو کمرے میں موجود تھے فرمایا کہ کاغذ قلم لے کر آؤ، میں تمہارے لئے ایک وصیت لکھوا دیتا ہوں تاکہ تم میرے بعد گمراہی میں نہ پڑو۔ حضرت عمر بن الخطابؓ نے جو اس وقت وہاں موجود تھے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی تکلیف کے عالم میں ہیں، اس وقت آپؐ کو مزید تکلیف دینا مناسب نہیں ہے، اللہ کی کتاب ہمارے پاس موجود ہے جو ہمیں گمراہی سے بچانے کیلئے کافی ہے۔ کچھ دوسرے حضرات نے لکھوانے پر اصرار کیا اور کہا کہ جب آپؐ خود لکھوانا چاہتے ہیں تو آپ کو روکنا نہیں چاہئے بلکہ آپؐ کے حکم پر عمل کرنا چاہئے، کچھ لوگ لکھوانے کے حامی تھے اور کچھ مخالف، اس طرح اختلاف پیدا ہوگیا اور یہ اختلاف اتنا بڑھا کہ دونوں طرف کے لوگ زور زور سے بولنے لگے، اس صورت حال کو دیکھ کر آپؐ نے فرمایا کہ میرے پاس سے اٹھ جاؤ، اور مجھے میرے حال پر چھوڑ دو، میں جس حال میں ہوں وہ اس حال سے زیادہ بہتر ہے جس کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو۔ اس طرح لکھنے کا معاملہ ٹل گیا اور لوگ اٹھ کر چلے گئے۔ اس واقعے کے بعد اسی وقت یا کسی اور وقت آپ نے زبانی طور پر کچھ وصیتیں فرمائیں۔
ایک روایت میں ہے کہ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین وصیتیں فرمائیں، پہلی وصیت یہ فرمائی کہ مشرکین کو جزیرۃ العرب سے باہر نکال دو، اور دوسری وصیت یہ فرمائی کہ آنے والے وفود کو اسی طرح انعام واکرام کے ساتھ رخصت کیا کرو جس طرح میں کیا کرتا ہوں۔ راوی تیسری وصیت بھول گئے، البتہ مؤطا امام مالک میں مشرکین کے ساتھ یہود ونصاری کا بھی ذکر ہے، یعنی مشرکین، یہود اور نصاریٰ کو جزیرۃ العرب سے نکال دو، اس میں تیسری وصیت کا بھی ذکر ہے، راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ میری قبر کو بت بناکر نہ پوجنا۔ (صحیح البخاری: ۴/۶۹، رقم الحدیث: ۳۰۵۳، مؤطا امام مالک: ۱/۳۱۱، رقم الحدیث: ۸۷۳)۔ حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے اپنی حیات مبارکہ کے بالکل آخری لمحات میں ارشاد فرمایا کہ اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھو (صحیح مسلم؛ ۴/۲۲۰۵، رقم الحدیث: ۲۸۷۷) بالکل آخری وقت میں جبکہ آپؐ کی زبان مبارک ساتھ نہیں دے پارہی تھی اور سینۂ مبارک سے گھڑڑگھڑڑ کی آواز آرہی تھی، آپ نے فرمایا نماز کی پابندی کرنا اور غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔ (مسند احمد)
یہ بھی پڑھئے: مجھے اپنے بعد اس کا ڈر ہے کہ تم دنیا کی حرص اور باہمی رقابت میں مبتلا ہوجاؤ گے
حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ آپؐ نے مرض وفات میں ارشاد فرمایا: نبوت کے مبشرات (وحی وغیرہ) کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے، اب صرف خواب باقی رہ گئے ہیں، اللہ کا نیک بندہ وہ خواب دیکھے گا یا اسے دکھلایا جائے گا، مجھے رکوع وسجود میں قرآن کی تلاوت کرنے سے منع کیا گیا ہے، جب تم رکوع کرو تو اللہ کی عظمت بیان کرو، سجدوں میں زیادہ سے زیادہ دعائیں مانگو، سجدوں میں کی جانے والی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ (صحیح مسلم:۱/۳۴۸، رقم الحدیث: ۴۷۹)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا لکھوانا چاہتے تھے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیماری کے ایام میں وصیت لکھوانے کا ارادہ فرمایا تھا، اور تیمار داروں سے کاغذ قلم لانے کے لیے کہا تھا، سیرت کی کتابوں میں یہ واقعہ’’ واقعۂ قرطاس‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ آپؐ کی بیماری کے پیش نظر حضرت عمر فاروقؓ اور بعض دوسرے صحابہؓ نے مناسب نہ سمجھا کہ اس حال میں جبکہ آپ شدید طور پر بیمار ہیں لکھوانے کی مشقت اٹھائیں، بعض حضرات جن میں حضرت عباسؓ وغیرہ شامل ہیں یہ چاہتے تھے کہ جو کچھ آپ لکھوانا چاہتے ہیں وہ لکھوادیں، دونوں طرح کے لوگ آپ کی مجلس میں حاضر تھے، اور اپنی رائے پر اصرار کررہے تھے، اس طرح مجلس میں شور ہونے لگا، آپؐ نے تمام لوگوں کو مجلس سے اٹھ کر چلے جانے کے لیے کہا، اس طرح وصیت نہیں لکھی جاسکی، اس لئے سوال یہ ہے کہ آخر آپ کیا لکھوانا چاہتے تھے؟ ا سکا جواب حضرت عائشہؓ سے ملتا ہے:
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ علالت میں آپ ؐ نے فرمایا کہ میرا ارادہ تھا کہ میں ابوبکرؓ اور ان کے بیٹے (عبد الرحمٰن) کو بلاؤں، ان کو وصیت کروں اور ان کو اپنا جانشین بنادوں تاکہ کہنے والے کچھ کہہ نہ سکیں اور تمنا کرنے والے کوئی تمنا نہ کرسکیں، مگر میں نے اپنا یہ ارادہ ختم کردیا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہے گا کہ ابوبکرؓ کے علاوہ کوئی اور خلیفہ بنے اور مسلمان بھی ابوبکر کے علاوہ کسی دوسرے کی خلافت قبول نہیں کریں گے، ابوبکرؓ کی خلافت میں اختلاف کرنے والوں سے میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ (بخاری ومسلم)
حضرت ابوبکرؓ کی امامت
بیماری کے ابتدائی ایام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر مسجد میں تشریف لاتے رہے، ظاہر ہے آپ ہی نے نمازیں بھی پڑھائیں، یہ سلسلہ جمعرات کے دن تک جاری رہا، جمعرات کے دن عصر کی نماز بھی آپ ہی نے پڑھائی، اور مغرب کی بھی، مغرب کی نماز میں جب آپ تشریف لائے تو آپ کے سر مبارک پر پٹی بندھی ہوئی تھی، آپ نے مغرب کی نماز پڑھائی، اور دونوں رکعتوں میں سورۂ مرسلات کی تلاوت فرمائی، یہ آخری نماز تھی جو آپ نے پڑھائی۔ (صحیح البخاری: ۱/۱۵۲، رقم الحدیث: ۷۶۳، صحیح مسلم:۱/۳۳۸، رقم الحدیث: ۴۶۲) نماز پڑھ کر آپ حجرے میں تشریف لے گئے، عشاء کا وقت آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا نماز ہوگئی! لوگوں نے عرض کیا: سب لوگ آپؐ کے منتظر ہیں، آپ نے اٹھنا چاہا، لیکن ضعف کے باعث اٹھ نہ پائے اور غشی طاری ہوگئی، آپؐ نے کئی مرتبہ اٹھنے کی کوشش کی لیکن اٹھ نہیں پائے، بار بار غشی طاری ہوتی رہی، لوگ مسجد میں انتظار کررہے تھے، جب بالکل بھی اٹھا نہیں گیا تب آپؐ نے فرمایا کہ ابوبکرؓ سے کہو کہ وہ نماز پڑھادیں۔ حضر ت عائشہؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ! ابوبکرؓ کمزور دل کے انسان ہیں، وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو ان پر رقت طاری ہوجائے گی اور وہ نماز نہ پڑھا سکیں گے، اور لوگ ان کے رونے کی بنا پر ان کی قرأت نہ سن سکیں گے، آپ عمرؓ سے نماز پڑھانے کیلئے کہہ دیں، مگر آپ ﷺ نے حضرت عائشہؓ کی یہ رائے قبول نہیں فرمائی، حضرت عائشہؓ نے تین مرتبہ یہ بات کہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں مرتبہ انکار فرمایا اور زور دے کر کہا کہ امامت ابوبکرؓ ہی کریں گے۔ (البدایہ والنہایہ: ۵/۲۳۳)
حضرت عائشہؓ نے ظاہر تو یہ کیا کہ ان کے والد حضرت ابوبکرؓ رقیق القلب آدمی ہیں، لیکن اصل بات یہ تھی کہ وہ ایسے حالات میں جب کہ آپؐ شدید طور پر علیل تھے، یہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کے والد امامت کریں، در اصل ان کے ذہن میں یہ بات تھی کہ جو شخص آپؐ کے مصلّی پر کھڑا ہوگا اور آپؐ کا جانشین بنے گا لوگ اسے منحوس سمجھیں گے اور اس سے نفرت کریں گے، انہیں یہ پتہ نہیں تھا کہ لوگ آپؐ کے جانشین سے بھی محبت اور تعلق خاطر کا معاملہ کرینگے۔ (صحیح البخاری:۶/۱۲، رقم الحدیث: ۴۴۴۵)
امام غزالیؒ نے احیاء علوم الدین میں لکھا ہے کہ حضرت عائشہؓ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کے والد حضرت ابوبکرؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ مصلّے پر کھڑے ہوں اور امامت کریں، میں چاہتی تھی کہ میرے والد دنیا کے جھمیلوں سے الگ رہیں، کیوں کہ عزت اور وجاہت خطرے سے خالی نہیں ہوتی، اس میں ہلاکت کا اندیشہ رہتا ہے، اِلّا یہ کہ اللہ کسی کو صحیح سلامت رکھے، نیز یہ بھی اندیشہ تھا کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ کھڑے ہوکر امامت کرائے گا لوگ اس سے حسد کریں گے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حسد بھی کریں اور ان کو کوئی نقصان بھی پہنچادیں اور ان کو منحوس بھی سمجھیں، مگر جب قدرت کا یہی فیصلہ ہے کہ میرا باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قائم مقام بنے اور آپ کی جگہ امامت کرے تو پھر یہ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے باپ کو دین ودنیا کے تمام خوفناک حالات سے اپنی پناہ میں رکھے اور ان کی حفاظت فرمائے۔ (احیاء علوم الدین)
درد کی شدت اور غشی
حضرت ابوبکر صدیقؓ برابر امامت کے فرائض انجام دیتے رہے، کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر میں اب اتنی طاقت باقی نہیں رہی تھی کہ آپ مسجد تک جاسکیں، حالاں کہ مسجد برابر میں تھی، درد کی شدت سے آپ بار بار بے ہوش بھی ہوجاتے تھے، سنیچر کے روز طبیعت میں کچھ بہتری آئی، آپ حضرت عباسؓ اور حضرت علیؓ کے سہارے مسجد میں تشریف لائے، نماز کھڑی ہوچکی تھی، حضرت ابوبکرؓ نماز پڑھا رہے تھے، آپ حضرت ابوبکرؓ کے بائیں جانب بیٹھ گئے، حضرت ابوبکرؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے برابر میں تشریف فرما دیکھا تو ارادہ کیا کہ مصلّے سے پیچھے ہٹ جائیں تاکہ آپ امامت کرادیں، لیکن آپ نے اشارے سے منع فرمادیا، آپؐ نے وہیں بیٹھے بیٹھے باقی نماز پڑھائی، ابھی کچھ دیر پہلے تک ابوبکر امام تھے اب مقتدی بن گئے، یہ نماز ظہر کی تھی، جمعرات کے دن آپ نے جہری نماز پڑھائی تھی اور مکمل پڑھائی تھی، آج سرّی نماز پڑھائی، مگر نماز کے کچھ حصّے کی امامت کی، اس اعتبار سے ہم یہ کہہ سکتے ہیںکہ آخری نماز جو مکمل طور پر آپؐ نے پڑھائی وہ جمعرات کی نمازِ مغرب تھی۔ (البدایہ والنہایہ: ۵/۲۳۴)