ہر انتخابی ریلی میں ہندو ، مسلمان کرنے والے وزیر اعظم نے اپنا پرچہ داخل کرنے کے بعد جو جھوٹ بولا، اس پر جھوٹ بھی احساس ندامت سے سرنگوں ہے۔
EPAPER
Updated: May 20, 2024, 3:24 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
ہر انتخابی ریلی میں ہندو ، مسلمان کرنے والے وزیر اعظم نے اپنا پرچہ داخل کرنے کے بعد جو جھوٹ بولا، اس پر جھوٹ بھی احساس ندامت سے سرنگوں ہے۔
جھوٹکی تشہیر اور توقیر نے انسانی اخلاقیات میں ایسا اُلٹ پھیر کر دیا ہے کہ کل تک جو باتیں شخصیت سازی اور معیاری زندگی بسر کرنے کیلئے ناگزیرسمجھی جاتی تھیں اب ان پر غور کرنا تضیع اوقات کے مترادف ہو گیا ہے۔ جھوٹ کی اس درجہ مقبولیت نے زندگی کے ان اصولوں اور ضابطوں کو بھی غیر اہم بنا دیا ہے جو اقدار حیات کی تنظیم اور ان اقدار کے دوام میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے تھے۔ اب تو عالم یہ ہے کہ زندگی کے بہت کم معاملات ایسے بچے ہیں جن میں سچ کو فضیلت حاصل ہے۔ سچ کی اس حالت زار کا ایک سبب وہ خوئے انسانی ہے جو زندگی کے ہر معاملے میں ہر حال میں کامیابی اور فتح مندی کے حصول کو یقینی بنانا چاہتی ہے جبکہ سچائی یہ ہے کہ کامیابی اور ناکامی زندگی کے دو ایسے پہلو ہیں جو فرد کی ذات کی تکمیل کا وسیلہ ہوتے ہیں۔ ان میں سے اگر ہر وقت اور ہر معاملے میں صرف کامیابی کے حصول ہی پر اصرار کیا جائے تو یہ اصرار انسان کی ذات کو اس قدر پر اسرار بنا دیتا ہے کہ اس کا بھید پانا مشکل ہو جاتا ہے۔ جب یہ رویہ اس کی ذات کا لازمی جزو بن جاتا ہے تو بات اسرار سے آگے بڑھ کر اشرار تک جا پہنچتی ہے۔
اسی طرح یہ اندازہ بھی لگانا مشکل ہے کہ اقتدار کے سب سے اعلیٰ منصب پر براجمان شخص کتنا جھوٹ بول رہا ہے اور کتنا سچ، بلکہ اس پر تو غور کرنا ہی نہیں چاہئے کہ ان کی باتوں میں سچ کی مقدار کتنی ہے بس صرف یہ دیکھنا چاہئے کہ اس شخص نے جھوٹ کی کتنی قسمیں وضع کی ہیں۔ ایک جھوٹ وہ جس کے فریب میں ملک کی اکثریت کو اس قدر الجھا دیا کہ وہ اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو اپنا جانی دشمن سمجھنے لگے۔ ان بیچاروں کی عقل نے نہ جانے کیسے یہ غیر منطقی بات قبول کر لی کہ ملک کی ۸۰؍فیصد آبادی کو تقریباً ۱۵؍فیصد آبادی والے کیا نقصان پہنچا سکتے ہیں ؟ لیکن اس جھوٹ کو جس چالاکی اور جذباتی انداز میں عام کیا گیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کے طول و عرض پر مسلمانوں کا جینا دوبھر ہو گیا۔ کہیں گئو کشی، کہیں لو جہاد اور کہیں کسی اور بہانے سے ان کے اندر خوف کی نفسیات کو اس حد تک پیوست کر دیا گیا کہ یہ بیچارے ملک سے اپنی وفاداری ثابت کرنے اور بھائی چارگی کو بڑھاوا دینے کیلئے نئی نئی تدابیر کرنے لگے۔ جنھیں مسلمانوں سے خوفزدہ کیا گیا وہ تو سڑکوں، چوراہوں اور بعض دفعہ تو گھروں میں گھس کر مسلمانوں کو زدو کوب کرنے حتیٰ کہ انھیں مار ڈالنے پر اتارو ہو گئے اور بیچارے مسلمانوں نے ان سے رہ و رسم برقرار رکھنے کیلئے الگ الگ طریقے اختیار کرنے لگے۔
یہ بھی پڑھئے: افسوس! مستقبل ساز نسل مذہبی سیاست کا آلۂ کار بن کررہ گئی ہے
جھوٹ کے جھنڈا برداروں خصوصاً اس گروہ کے سردار نے اپنے ہر عوامی خطاب میں اس فضا کو ملک گیر سطح پر قائم و دائم رکھنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ کبھی مسلمانوں کے کھانے پینے اور کبھی ان کے لباس اور ان سب سے بڑھ کر کبھی ان کے قبر ستان کا ایسا ہوا کھڑا کیا کہ زندگی کے ہر محاذ پر ہندوستانی مسلمان ایک مشتبہ وجود کی حیثیت اختیار کر گیا۔ ۸۰؍فیصد آبادی کے ذہنوں پر اس زعفرانی فکر کو مسلط کر دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کے ہر عوامی ادارے میں اب ۸۰؍ فیصد اور ۱۵؍ فیصد کے درمیان ایک خلیج سی بنتی جا رہی ہے۔ اس خلیج کا اظہار جن صورتوں میں ہو رہا ہے اس نے ہر عمر کے ہندوستانی مسلمان کے دلوں میں عدم تحفظ کے احساس کو جاگزیں کر دیا ہے۔ اس اظہار کی سب سے تشویشناک صورت ان تعلیمی اداروں میں دیکھی جا سکتی ہے جن کے قیام کا مقصد ملک کو ایسی نوجوان نسل سے بہرہ ور کرنا ہے جو ملک کی ہمہ گیر ترقی اور خوشحالی میں فعال کردار ادا کر سکے لیکن زعفرانی فکر کا غلبہ اس نسل کو جس راہ پر لئے جا رہا ہے اس راہ پر نفرت اور تشدد کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ افسوس کہ یہ نوجوان نسل جو فہم و دانش اور بصارت و مہارت ہر لحاظ سے اپنے اسلاف سے افضل ہے وہ بھی اس جھوٹ کو محسوس کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
جمہوریت کے جشن میں عوام کو اپنے کرتب دکھانے والے کھلاڑیوں کے درمیان کچھ ایسے کھلاڑی بھی ہیں جو ہنر مندی کے معاملے میں تو صفر ہیں لیکن جھوٹ اس مہارت سے بولتے ہیں کہ ان کے اس فن کے آگے دنیا کی ہر فنکاری دست بستہ ہو کر ان کی پابوسی کرتی نظر آتی ہے۔ ابھی چند روز قبل ان کھلاڑیوں کے کپتان نے ایسا جھوٹ بولا ہے کہ نہ تو اسے سفید کے خانے میں رکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی سیاہ کے زمرے میں۔ اب ماہرین لسان کیلئے لازم ہے کہ اس طرز کے جھوٹ کیلئے کوئی نئی قسم ایجاد کریں جس سے اس کی واضح شناخت قائم ہو سکے۔ چناؤ کے اعلان کے ساتھ ہی اپنی ہر انتخابی ریلی میں ہندو، مسلمان کرنے والے وزیر اعظم نے گزشتہ دنوں اپنا پرچہ داخل کرنے کے بعد جو جھوٹ بولا اس پر جھوٹ بھی احساس ندامت سے سرنگوں ہے۔ کبھی مسلم لیگ، کبھی مغلیہ فکر، کبھی مچھلی اور مٹن، کبھی منگل سوتر اور کبھی زیادہ بچے پیدا کرنے والی قوم کہہ کر مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بازار گرم کرنے والے وزیر اعظم اب کہہ رہے ہیں کہ انھوں نے کبھی ہندومسلمان نہیں کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر یہ دعویٰ بھی کر دیا کہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو انھیں عوامی زندگی میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ اب ان کی یہ باتیں سچ ہیں یا جھوٹ اس کا فیصلہ تو دیدہ ور حضرات کریں گے لیکن سوال اس بیچاری صحافی کی دیدہ وری کا ہے جس نے ان انمول اقوال کو آمنا صدقنا قبول کر لیا۔
گودی میڈیا میں یہ شرف قبولیت ملنے کے محض ۲۴؍ گھنٹوں بعد ہی ایک بار پھر وہ رگ پھڑک اٹھی جو سنگھ کے ایک کاریہ کرتا سے وزیر اعظم کے عہدے تک پہنچنے میں ان کے حوصلوں کو مہمیز کرتی رہی۔ اس مدت قلیل میں ہی ایسی قلب ماہیئت ہوئی کہ وہ پھر ووٹ جہاد، مغلیہ سوچ اور نہ جانے کیا گیا گوشے پیدا کرکے یہ ثبوت فراہم کرنے لگے کہ انھوں نے عوامی زندگی میں شاذ ونادر ہی ہندو، مسلمان کی بحث چھیڑی ہوگی۔ ہندوستانی مسلمانوں سے اپنی ہمدردی اور خیر خواہی کا مظاہرہ کرتے وقت وہ کانگریس کو کوسنا نہیں بھولتے۔ اس کوسنے کا اختتام اس یقین دہانی پر کرتے ہیں کہ ان کی حکومت ہر سطح پر قومی دھارے میں مسلمانوں کی نمائندگی کو یقینی بنائے گی۔ اس طرز یقین دہانی کے فریب میں وہ مسلمان بہ آسانی آجاتے ہیں جو جاہ و منصب کی لالچ میں اپنا دین و ایمان سب کچھ بیچنے پر آمادہ رہتے ہیں۔ ایسے ہی مسلمانوں کی منہ بھرائی کیلئے زعفرانی گروہ نے مسلم راشٹریہ منچ نامی دکان کھول رکھی ہے۔ اس دکان کا کمال یہ ہے کہ یہاں جو مال بیچا جاتا ہے اس کا مقصد خریداروں کو فکری اعتبار سے اس قدر معذور کردینا ہے کہ وہ اپنی ہی قوم کو ورغلانے میں جٹ جائیں۔ ان دنوں ایسے ذہنی لاغروں کوان علاقوں میں بڑے زور وشور سے زعفرانی گیت گاتے ہوئےسنا جا سکتا ہے جن علاقوں میں مسلمان ووٹر فیصلہ کن رول ادا کرتے ہیں۔
فکر و شعور کی سطح پر انتہائی پست رویہ کا مظاہرہ کرنے والے یہ ذہنی لاغر اپنے اسی جھوٹے سردار کی پیروی کرتے ہیں جو عوام کو صرف سبز باغ دکھا کر ان کی حقیقی زندگی کو خزاں رسیدہ بنائے رکھنا چاہتا ہے۔ سماج میں مذہبی اور علاقائی تعصب کو نفرت اور تشدد کے رنگ میں رنگ دینے والا شخص اور اس کی ہمنوائی کرنے والی اس کی ٹیم جب یہ کہنے لگے کہ عوامی زندگی میں وہ مذہبی تفریق کے قائل نہیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ سیاسی ہوا کا رخ اب دوسری جانب مڑنے لگا ہے۔ ملک کی فضاؤں کو آلودگی اور تعفن سے محفوظ رکھنے کیلئے ہوا کے رخ میں یہ تبدیلی ناگزیر ہے۔ اگر ہوا کے رخ میں تبدیلی نہ واقع ہوئی تو یہ فرمان بھی آسکتا ہے کہ اب جھوٹ کو ہر کسی کیلئے لازمی قرار دیا جاتا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو باضابطہ طور پر اگر چہ ایسے کسی فرمان کے نفاذ کا امکان نہ بھی ہو توبھی اس کا مشاہدہ باقاعدہ طور پر کیا جا سکتا ہے کہ اب زندگی کے بیشتر معاملات میں جھوٹ بولنا معمول بنتا جا رہا ہے۔ اگر یہی صورت رہی تو آئندہ یہ سکھایا اور پڑھایا جائے گا کہ جھوٹ بولنا گناہ نہیں بلکہ ایسا عمل ہے جو مطلب بر آری میں معاونت کرتا ہے بھلے ہی اس کے عوض میں ہزاروں کی جانیں چلی جائیں، اقتصادی و معاشی سطح پر ملک و معاشرہ کی کمر ٹوٹ جائے اور ہر انسان اضطراب و خوف میں ہمہ وقت مبتلا ہی کیوں نہ رہے، بس جھوٹ بولنے کا سلسلہ تھمنا نہیں چاہئے۔