دو روز قبل پریاگ راج میں ’سنویدھان سمان سمیلن‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے راہل گاندھی نے ذاتوں کے نقطہ نظر سے مردم شماری (کاسٹ سینسس) کو موضوع تو بنایا جو انڈیا اتحاد کی تشکیل کے بعد سے ان کی ہر تقریر میں جگہ پاتا ہے مگر اس بار انہوں نے زیادہ وضاحت کے ساتھ اپنا موقف بیان کیا اور یہ تک کہنے سے گریز نہیں کیا کہ اس کو میں ہر قیمت پر انجام دلوا کر رہوں گا
دو روز قبل پریاگ راج میں ’سنویدھان سمان سمیلن‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے راہل گاندھی نے ذاتوں کے نقطہ نظر سے مردم شماری (کاسٹ سینسس) کو موضوع تو بنایا جو انڈیا اتحاد کی تشکیل کے بعد سے ان کی ہر تقریر میں جگہ پاتا ہے مگر اس بار انہوں نے زیادہ وضاحت کے ساتھ اپنا موقف بیان کیا اور یہ تک کہنے سے گریز نہیں کیا کہ اس کو میں ہر قیمت پر انجام دلوا کر رہوں گا چاہے اس میں میرا سیاسی نقصان ہو۔ آپ محسوس کرسکتے ہیں کہ یہ بہت بڑا سیاسی بیان ہے جس سے کاسٹ کی مردم شماری کے تئیں ان کا کمٹمنٹ تو ظاہر ہوتا ہی ہے ان کی خوداعتمادی بھی ظاہر ہوتی ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ اعادہ کرتے چلیں کہ خود اعتمادی دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک وہ جو دکھائی جاتی ہے۔ دوسری وہ جو خود نظر آجاتی ہے، دکھائی نہیں جاتی۔ راہل گاندھی کی خود اعتمادی دوسری قسم کی ہے۔ اس کے پس پشت مسائل کی گہرائی میں جا کر ان کو سمجھنے اور اپنے طور پر نتائج اخذ کرنے کی ان کی کوشش ہے۔ اسی لئے مذکورہ خطاب میں انہوں نے کاسٹ مردم شماری پر آنے سے پہلے ’’ہنر‘‘ کو موضوع بناتے ہوئے ایک ایسی حقیقت کو اجاگر کیا جس کی اہمیت سے اب عام آدمی بھی بیگانہ ہوگیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ہنر کی کمی نہیں ہے مگر اس کی اہمیت کو سمجھنے اور اس کا اعتراف کرنے کا مزاج نہیں رہ گیا ہے۔ انہوں نے بڑھئی، موچی، نائی، کسان اور دیگر پیشوں کا حوالہ دیتے ہوئے یہ سمجھانے کی کوشش کہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے ان لوگوں کے پاس غیر معمولی مہارت اور تجربہ ہے مگر اس کو لائق اعتناء نہیں سمجھا جاتا۔ ان سب کی معاشی حالت کاسٹ مردم شماری کے ذریعہ ہی منظر عام پر آسکتی ہے اور تب ہی ان کے حالات کو بہتر بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جاسکتے ہیں ۔ راہل نے یہاں پہنچ کو مزید کچھ نہیں بتایا مگر یہ اشارہ ضرور دیا کہ ان کے پیش نظر کوئی ایسی حکمت عملی ہے جس سے ملک کی اس آبادی کو معاشی فیض پہنچانا مقصود ہے جو ان کے مطابق ۹۰ ؍فیصد ہے۔ اس میں ایک سیاسی زاویہ بھی ہے۔ بی جے پی لیڈر اور یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ نے ’’۸۰۔۲۰‘‘ کا فرقہ وارانہ فارمولہ پیش کیا تھا، ’’۹۰۔۱۰‘‘ کے ذریعہ راہل، فرقہ واریت سے پاک ایک ایسا فارمولہ، ملک کے سامنے رکھ رہے ہیں جس کا مقصد معاشی انصاف کو یقینی بنانا ہے۔ یہ ’’۸۰۔۲۰‘‘ کی توڑ اور ملک کے غریب تر، غریب، نچلے متوسط، متوسط اور معاشی طور پر بہتر طبقات کو ساتھ لے کر چلنے کی خواہش دکھائی دیتی ہے جس سے امیر غریب کی بڑھتی خلیج پاٹی جا سکتی ہے اور ملک کے وسائل کی منصفانہ تقسیم کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: بے روزگاری تعلیم کی ناقدری ہے
کیا راہل اپنے اس مشن میں کامیاب ہوں گے؟ امکانات تو یہی ہیں جو وقت کے ساتھ زیادہ روشن ہوں گے کیونکہ اس پر انڈیا اتحاد میں شامل پارٹیاں بھی متفق ہیں ۔ اس وقت پوری دنیا کو امیروں کی بڑھتی امارت اور غریبوں کی بڑھتی غربت کا چیلنج ہے۔ حکومتیں غریبوں سے ہمدردی رکھتی ہیں اور تعاون امیروں کا کرتی ہیں جو غیرمعمولی ہوتا ہے۔ اس نئے طرز کے سرمایہ دارانہ نظام نے مادیت کے تسلط میں اضافہ کیا اور انسانی زندگی کو بے سکون کردیا ہے۔