Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

’’رمضان میں یہ سامان بیچ لیتا ہوں،سیزن وصول ہوجاتا ہے‘‘

Updated: March 26, 2025, 11:34 PM IST | Azhar Mirza | Mumabi

تئیسویں شب ہے۔ ڈائری نگارناگپاڑہ جنکشن پر کھڑا ہے۔ کچھ دیر کیلئے غالب و آزاد کی یادگاروں کو نہارا اورقدم آدم ترنگے کو سلامی دے کر مولانا آزاد روڈ پر قدم بڑھائے۔امین منزل اور آس پاس کی عمارتوں کے فٹ پاتھ پر بے خانماں افراد دنیا و مافیہا سے بے خبر سوئے ہوئے ہیں۔ شاید حقیقت کی تھکن سے چُور ہیں اسلئے خوابوں میںسکون پارہے ہیں۔

Allah Beli Hotel located on Maulana Azad Road, Madanpura. Photo: INN
مدنپورہ ،مولانا آزاد روڈ پر واقع اللہ بیلی ہوٹل۔ تصویر: آئی این این

تئیسویں  شب ہے۔ ڈائری نگارناگپاڑہ جنکشن پر کھڑا ہے۔ کچھ دیر کیلئے غالب و آزاد کی یادگاروں کو نہارا اورقدم آدم ترنگے کو سلامی دے کر مولانا آزاد روڈ پر قدم بڑھائے۔امین منزل اور آس پاس کی عمارتوں کے فٹ پاتھ پر بے خانماں افراد دنیا و مافیہا سے بے خبر سوئے ہوئے ہیں۔ شاید حقیقت کی تھکن سے چُور ہیں اسلئے خوابوں میںسکون پارہے ہیں۔ آگے چند گداگر خواتین بیٹھی تھیں جن کے بچے آگے بچھے ہوئے چھوٹے سے کپڑے پر سوئے ہوئے تھے۔یہ بھی عجیب بات ہے کہ ایسی پیشہ ور گداگر خواتین کے بچے دن ہوں یا رات ہمیشہ سوتےنظر آتے ہیں۔ ’کاف سمندر‘ میں تھوڑے بہت لوگ نظر آئے۔ لوہے کی چال کے قریب پہنچا تو گلی خاموش تھی۔یہاں ’’ممبئی بیگ بازار‘‘ کا بڑا سا بورڈ نظر آیا۔ ساری دکانیں ہول سیل کی ہیں اوراوقات کار الگ ہیں سو اس وقت ان پر تالے پڑے ہوئے تھے۔ ویسے مدنپورہ کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ علاقہ پرس اور بیگ سازی میں اپنا مقام رکھتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: شب قدر محض ایک رات نہیں، بلکہ زمان و مکاں کی حدود سے ماوراء ایک الوہی راز ہے

یہاں کئی کارخانے ہیں اور متعدد ہول سیل دکانیں  ہیں۔ جو گوشت بازار، مورلینڈ روڈ، لوہے کی چال، رنگون والا چال سمیت اطراف کے علاقوں میں ہیں۔خیر ، ڈائری نگار کی نظر گلی کے بالکل سامنے لگے ٹوپیوں کے ایک ٹھیلہ پر پڑی۔ جہاں ایک ٹانگ سے محروم نوجوان بیساکھی کے سہارے کھڑے ہوکر اپنی دکان کی ٹوپیاںترتیب سے رکھ رہا تھا۔خودداری اور محنت کی ایسی کئی جیتی جاگتی مثالیں ہیں جو سماج کو پیغام دیتی ہیں۔ یہاں سے رنگون والا چال تک پہنچا تو خاصی بھیڑ نظر آئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ گلی کے کونے پرچار صاحبان موبائل فون پر لوڈو کھیل رہے ہیں۔ وہ اپنی اپنی گوٹیوں کوان کے ’گھر‘ پہنچانے کی تگ دو میں غرق ہیں۔ جبکہ ان کے اگل بغل میں لوگ گھر چلانے کی فکر میں دکانوں پر ڈٹے ہوئےہیں۔ جتنی دکانیں تھیں، تقریباً سبھی پر گاہک موجود تھے۔ کہیں سودوں پر تکرار ہورہی ہے، کہیںبیچے جارہے مال کی خوبیاں گنوائی جارہی ہیں۔ یہیں کچھ دوری پر ’اللہ بیلی ہوٹل ‘ بھی ہے۔ اس ہوٹل کے ٹنڈے کباب دور دور تک مشہورہیں۔ لکھنؤ کی چیز بمبئی میں دستیاب ہوتوچٹورے ایسی جگہ کی قدر تو کریں گے ۔پایہ، نہاری،قیمہ، دال گوشت وغیرہ  کے ساتھ پراٹھا، کلچہ، تندوری روٹی کھانے کیلئے اس ہوٹل میں جگہ آسانی سے نہیں ملتی۔رمضان کے دوران تو یہاں انتظار کرنا ہی پڑتا ہے ۔ یہاں صبر کا پھل میٹھا نہیں ’ذائقہ ‘  دار ہوتا ہے۔ راقم، دکانوں پر نظریں دوڑاتے اور گاڑیوں سے بچتے بچاتے آگے بڑھا۔ ایک گاہک اور دکاندار کے سودے کی تکرار کانوں  میں پڑی۔ دکاندار گاہک کے دام سے مطمئن نہیں تھا کہنے لگا’’اتنے میں تو مجھے بھی نہیں پروَڑتا، ایسا مت کرو بھائی، پانچ سو دے دینا۔‘‘میں حاجی آدم صدیق سنی بڑی مسجد کے سامنے گزرا، جس کی بیرونی بتیاں بند تھیں۔ سڑک کے بالکل درمیان اوپر کی جانب بندھی ہوئی رمضان کی روایتی جدید قندیلیں بھلی معلوم ہورہی تھیں۔ناکے پر شامی گیسٹ ہاؤس کی عمارت کے سائے تلے سخی کولڈڈرنک کو فالودہ کے دیوانے گھیرے کھڑے تھے۔ بائیں طرف اقبال کمالی ہوٹل پر الزعفران کا نیا بورڈ جگمگارہا تھا۔ ناکے سے تھوڑا آگے بینٹیکس اور انیمیٹیڈ جویلری کے ٹھیلے کے پاس ٹھہرا تو دکان دار (محمد قربان) نے کہا ’’بتائیے کیا دکھاؤں‘‘ میں نے کہابچی کیلئے کنگن دکھائیے۔ معلوم ہوا کہ یہ صاحب عام دنوں میں مونگ پھلی کا ٹھیلہ لگاتے ہیں۔ کہنے لگے ’’ اپنا تو ایسا ہی ہے جب جو مل جائے کرلیتے ہیں۔ رمضان میں یہ سامان بیچ لیتا ہوں،سیزن وصول ہوجاتا ہے۔ اللہ کے کرم سے آمدنی ہوجاتی ہے۔‘‘ سحری کا وقت ہوچکا تھا، ڈائری نگار نے اپنے مسکن کی راہ لی ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK