شب ِ قدرایک ایسا راز جس پر وقت کی مہریں لگی ہیں، ایک ایسا لمحہ جو تاریخ ِ انسانی میں نورِ ربانی کے سب سے بڑے انعام کی تجلی لئے ہوئے ہے۔
EPAPER
Updated: March 25, 2025, 11:45 AM IST | Mumabi
شب ِ قدرایک ایسا راز جس پر وقت کی مہریں لگی ہیں، ایک ایسا لمحہ جو تاریخ ِ انسانی میں نورِ ربانی کے سب سے بڑے انعام کی تجلی لئے ہوئے ہے۔
رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں آسمانی رحمتیں اپنے جوبن پر ہوتی ہیں، خدائی عنایات کی بارش ہوتی ہے اور نور الٰہی کی تجلیاں دلوں کو منور کرتی ہیں۔ اس ماہ مقدس میں، بندگانِ خدا ابتدائی ایام میں عبادات کی چاشنی میں مستغرق نظر آتے ہیں، مگر چند دنوں بعد طبیعتوں پر بوجھل پن چھانے لگتا ہے، نفس کی کاہلی انسان کو پچھلے جذبے سے دور لے جانے لگتی ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جوں جوں رمضان اپنے آخری مراحل میں داخل ہوتا ہے، رب کی نگاہِ عنایت بندوں پر ویسے ہی سرعت کے ساتھ پڑتی ہے اور انہیں اپنی رحمت کی آغوش میں لے لیتی ہے۔ گویا آسمانوں سے اترتی برکتیں اپنے کمال کو پہنچنے لگتی ہیں، اور اس کا تقاضا ہے کہ عبادت میں مزید انہماک اور روحانی جذبے کی شمع کو تیز تر کیا جائے۔
یہ وہ لمحے ہیں جب ہر مومن پر لازم ہے کہ اپنے دل و دماغ کو دنیاوی غفلتوں سے جھٹک کر یادِ الٰہی میں ڈوب جائے، اس کے لب ذکر و تلاوت سے تر رہیں، اور اس کی پیشانی سجدوں میں جھکنے کو بےقرار ہو۔ کیونکہ یہ وہ گھڑیاں ہیں جو ایک ایسی رات کی نوید لے کر آتی ہیں جو ہزار مہینوں سے افضل ہے، وہ رات جسے قرآن نے ’’لیلۃ القدر‘‘ سے موسوم کیا ہے۔ یہ محض ایک رات نہیں، بلکہ زمان و مکاں کی حدود سے ماوراء ایک الوہی راز ہے، ایک ایسا لمحہ جب ازل و ابد کے فاصلے سمٹ جاتے ہیں، جب فرشتے جوق در جوق زمین پر اترتے ہیں اور جب زمین و آسمان کی سرحدیں نورِ خداوندی سے یکجا ہو جاتی ہیں۔ یہ وہ رات ہے جس میں مقدرات کے فیصلے صادر ہوتے ہیں، جب انسان کو اپنے وجود کی لطافتوں کا شعور ہوتا ہے، جب دلوں پر پڑے حجابات چھٹنے لگتے ہیں اور جب روح اپنی حقیقت سے ہمکلام ہوتی ہے۔ شب قدر ایک ساعت ِ انقلاب ہے، ایک ایسی ساعت جس میں وقت رک سا جاتا ہے، جس میں انسان اپنے گناہوں کے بوجھ سے سبکدوش ہو کر نور میں ڈھل جاتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب زمین پر بسی بساطِ ہستی، ربانی سکونت گاہ میں تبدیل ہو جاتی ہے، اور جب بندہ اپنی اصل حقیقت کو پہچان لیتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ’فتح مبین‘، بیعت کرنے والے صحابہؓ اور آپؐ کے خواب کا ذکر سماعت کیجئے
اس لئے لازم ہے کہ ہم ان گھڑیوں کو غفلت کی نذر کرنے کے بجائے شعورِ ایمانی کے ساتھ گزاریں، اپنے قلب و روح کو عبادت میں سرشار کریں، اور اپنے وجود کو یادِ الٰہی کی لذت سے معمور کر لیں۔ کیونکہ یہ وہ لمحات ہیں جب فلک کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جب بخشش کی ندیاں بہا دی جاتی ہیں، اور جب ایک ندامت بھری آہ بھی عرشِ الٰہی پر مقبولیت کا درجہ پا لیتی ہے۔
شب ِ قدرایک ایسا راز جس پر وقت کی مہریں لگی ہیں، ایک ایسا لمحہ جو تاریخ ِ انسانی میں نورِ ربانی کے سب سے بڑے انعام کی تجلی لئے ہوئے ہے۔ مگر اہلِ بصیرت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس حقیقت کو اپنی فکری جِلا کے ساتھ سمجھیں کہ شبِ قدر ایک نہیں، بلکہ دو ہیں۔ (’رحمۃاللہ الواسعۃ‘ شرح حجۃ اللہ البالغہ، جلد چہارم)
پہلی شب ِ قدر وہ ہے جس میں تقدیر کے قلم حرکت میں آتے ہیں، جب امورِ کائنات کی حکیمانہ تقسیم عمل میں آتی ہے، اور جب لوحِ محفوظ سے فیصلوں کی امانت فرشتوں کے سپرد کی جاتی ہے۔ یہی وہ شب ہے جس میں پورا قرآن یکبارگی آسمانِ دنیا پر نازل ہوا، اور پھر رسولِ اکرم ﷺ پر اس کے تدریجی نزول کی ابتدا ہوئی۔ یہ شبِ قدر محض ایک زمانی حقیقت نہیں، بلکہ ایک دائمی گردش میں ہے، جو پورے سال میں مختلف اوقات میں وقوع پذیر ہوتی رہتی ہے۔ اگرچہ رمضان میں اس کے وقوع کا امکان غالب ہے، لیکن اس کی تحدید رمضان کے ساتھ لازم نہیں۔ یہ محض اتفاق تھا کہ نزولِ قرآن کے لمحے یہ شب رمضان کی آغوش میں تھی، گویا دو مقدس ساعتیں یکجا ہو گئیں۔ سورۂ دخان میں جس ’’لیلۃ مبارکہ‘‘ کا تذکرہ ہے، وہ اسی شب کی جانب اشارہ کرتی ہے، جہاں قضا و قدر کے فیصلے صادر ہوتے ہیں اور کائنات کے امور الہامی قلم سے رقم کیے جاتے ہیں۔
دوسری شبِ قدر وہ ہے جو رمضان کے اخیر عشرے میں جلوہ گر ہوتی ہے، وہ رات جس میں آسمانی روحانیت زمین پر اُترتی ہے، فرشتے بست و کشاد کے ساتھ اہلِ ایمان کے درمیان آتے ہیں، اور نورانی برکات کی ایک ایسی بارش برستی ہے جو مؤمنین کے دلوں کو جلائے ہوئے چراغوں کی طرح روشن کر دیتی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب انسان اپنے باطن کے آئینے میں حقیقت کے عکس دیکھ سکتا ہے، جب دنیا کی آلائشیں مٹتی ہیں اور بندہ عرشِ الٰہی کی تجلیات کو محسوس کرتا ہے۔ اسی رات میں فرشتے اللہ کے حکم سے زمین پر اس شان سے نازل ہوتے ہیں کہ مومنوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں، ان کے سجدے مسعود ہو جاتے ہیں، اور ان کے آنسو بخشش کے پروانے میں بدل جاتے ہیں۔یہ وہ ساعت ِ نور ہے جو اخیر عشرے کی طاق راتوں میں پوشیدہ رہتی ہے، اور جس کی تعیین میں صحابہ کرام کے متنوع اقوال ادراک و وجدان کی بنیاد پر منقول ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امامِ اعظم ابوحنیفہؒ اور صاحبین رحمھم اللہ نے بھی اس بات پر اتفاق کیا کہ شبِ قدر دو ہیں۔ فقہِ حنفی کی مستند کتب فتح القدیر اور بدائع الصنائع میں بھی یہی حکمت مروی ہے کہ ایک وہ شبِ قدر ہے جو تقدیر کے فیصلوں کی رات ہے، اور دوسری وہ جو روحانی تجلیات کی رات ہے۔
یہی شب ِ قدر کی حقیقت ہے،ایک زمانی، روحانی، اور تقدیری لمحہ، جس میں کائنات کی سرنوشت لکھی جاتی ہے، اور جس میں قلوب کی دنیا بدل دی جاتی ہے۔ یہی وہ رات ہے جس میں انسان کو اپنی حقیقت کو جانچنے کا موقع ملتا ہے، جب وہ اپنی دعا کے ہر حرف میں خدا کی قربت کا لمس محسوس کرتا ہے، اور جب وہ یہ جان لیتا ہے کہ اس رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت پر فوقیت رکھتی ہے۔