Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

کلچہ نہاری کیلئے ’ویٹنگ‘ اور ’پاکستانی‘ سوٹ کا جھوٹ

Updated: March 28, 2025, 11:47 AM IST | Ahsanul Haque | Mumbai

ماہ مبارک کا آخری عشرہ اختتام کے قریب ہے ۔ عبادات کے ساتھ اب عید کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ رات کے بارہ بج رہے ہیں ،نخاس کی تمام گلیاں خریداروں سے بھری پڑی ہیں۔ دور دراز سے آئے ہوئے لوگ خریداری کے بعد اب کلچہ نہاری کے ہوٹلوں کا رُخ کررہے ہیں ، لیکن یہاں ویٹنگ چل رہی ہے ۔

After shopping, there are also queues outside hotels for pleasure work and defecation. Photo: INN
تشاپنگ کرنے کے بعد ہوٹلوں کے باہر لذت کام و دہن کے لئے بھی قطار ہے۔ صویر: آئی این این

خریداری تو مکمل ہو گئی لیکن اب لذت کام و دہن کیلئے لمبا انتظار کرنا پڑ رہا ہے ۔ لکھنؤ کے مشہور رحیم اور مبین کے ہوٹلوں کے باہر لوگ اپنی باری کے منتظر کھڑے ہیں۔ ایسا ہی کچھ نظارہ راجہ بازار میں واقع اچھو بھائی کے ہوٹل کا ہے یہاں بھی کھانے پینے کے شوقین دور دراز سے آتے ہیں۔ اُس روز شہر کے نوجوانوں کا ایک گروپ وہاں پہنچا اپنی باری کا منتظر تھا ، ایک باریش نوجوان گلے میں گلاب کی مالا پہنے انتظار کرنے والوں کے ساتھ کھڑے تھے ، وضع قطع سے مدرسہ کے فارغ معلوم ہو رہے تھے ۔ پوچھنے پر اس گروپ کے ایک صاحب بتانے لگے کہ آج ہمارے یہاں تراویح میں قرآن کا دور مکمل ہو ا ہے اس خوشی میں ہم لوگ اچھو بھائی کی نہاری کھانے چل پڑے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: ہماری مشکلات و مصائب ہماری بدا عمالیوں کا نتیجہ ہیں

بارہ بجنے کو ہیں ، بہت دیر کردی آپ لوگوں نے ، کیا تراویح دیر شروع ہوئی تھی ؟مذکورہ سوالات پر وہ صاحب گویا ہوئے کہ در اصل بات یہ ہے کہ ہم لوگوں کا کام رات میں دس بجے مکمل ہوتا ہے ۔ چنانچہ ہماری تراویح  ساڑھے بجے تک شروع ہوتی ہے ، اس لئے تاخیر سے پہنچے ہیں۔ انہوںنے مزید بتایا کہ نائٹ شفٹ میں کام ہونے کے سبب ہم لوگوں کی تراویح کئی سال سے چھوٹ رہی تھی ۔چنانچہ گزشتہ تین سال سے ہم لوگ پاس کی مسجد میں تراویح کی الگ جماعت کرتے ہیں ،جو ساڑھے دس بجے سے شروع ہوتی ہے ۔ شروع سال میں تو لوگ کم تھے لیکن اب ۲۰ ؍سے ۲۵؍ افراد کی جماعت ہو جاتی ہے ۔ابھی یہ گفتگو جاری ہی تھی کہ اتنے میں ٹیبل پر نہاری سج گئی اور نوجوانوں کا یہ گروپ اپنی اپنی نشستیں سنبھالنے کیلئے آگے بڑھ گیا ، جو کافی انتظار کے بعد ہاتھ آیا تھا ۔
آئیے پھر ایک بار نخاس اور چوک کی بازاروں کا رُخ کرتے ہیں۔ اس بار یہاں پاکستانی ڈیزائنر سوٹ خواتین کی پہلی پسند ہیں۔دکاندار بھی پاکستانی بتا کر تھان کے تھان کپڑے بیچے دے رہے ہیں۔ دکاندار کے ہاتھ میں جو بھی سوٹ آتا ہے وہ کہتا ہے یہ لو بہن جی پاکستانی ڈیزائنر سوٹ بالکل نیا مارکیٹ میں آیا ہے ۔دکاندار کے بار بار پاکستانی سو ٹ کی رَٹ لگانے پر ایک خاتون جھنجھلا کر بولی کیا بھائی صاحب رمضان کا تو خیال کیجئے۔ اتنے ڈیزائنر سوٹ پاکستان سے بھر بھر کر کیسے چلے آرہے ہیں۔ انسانوں کا تو سر حد اُس پار آنا جانا کتنا مشکل ہے اور یہ کپڑے ہیںکہ نخاس کی ہر دکان تک پہنچ گئے ہیں۔
شکایتی لہجے میں خاتون گویا ہوئیں... سارے کپڑےیہیں تیار کئے جارہے ہیں ، ڈیزائن اور کاریگری سب ہندوستانی ہے لیکن پاکستان کےنام پر آپ لوگ دو سے چار ہزار مہنگے کر دیتے ہیں۔ پلیز رمضان میں تو ایسا نہ کریں۔  خاتون کی لمبی تقریر کے بعد دکاندار نےکہا اچھا تو آپ کو پسند نہیں آیا...  یہ لیجئے لکھنوی غرارہ ۔ اس میں صرف دکاندار کا ہی قصور نہیں ہے ۔ ایسے خریدار بھی بڑی تعداد میں بازار میں پہنچ رہے ہیں جن کو صرف پاکستانی ڈیزائنر سوٹ ہی چاہئے ، ان کے یہاں پیسوں کامسئلہ نہیں ہے بس کپڑا پسند آنا چاہئے ۔ ویسے اب تو لکھنؤ میں بڑے بڑے مال بن گئے ہیںلیکن عید کی خریداری کیلئے چوک ، نخاس اور امین آباد ہی لوگوں کی پہلی پسند ہے ۔ لولو مال اور فینکس پلاسیو میں لوگ خریداری کرنے کم گھومنے کے مقصد سے زیادہ جاتے ہیں۔رمضان میں بارہ بنکی ، ملیح آباد اور رائے بریلی سے بڑی تعداد میں لوگ لکھنؤ خریداری کرنےآتے ہیں۔
اب رات کے تقریباً دوبج رہے تھے اور مارکیٹ سے بھیڑ بھی کافی کم ہو گئی تھی ۔ کچھ لوگ ابھی بھی ہوٹلوں کے باہر اپنی باری کے منتظر تھے اور کچھ نوجوان کشمیری چائے کیلئے قطار میں کھڑے تھے۔رات تیزی سے گزر رہی تھی ، سحری کا وقت قریب تھا، اہم اپنی منزل کی طرف بڑھ رہے تھے۔ چوک اور نخاس پیچھے چھوٹا ، یونیورسٹی روڈ ہوتے ہوئے خرم نگر کی فاطمی مسجد کے پاس پہنچ چکے تھے ۔یہاں لوگ مسجد کے گیٹ کے پاس جمع آپس میں محو گفتگو تھے۔ علیک سلیک کے بعد سب نے ٹائم معلوم کیا اور اپنے اپنے گھروں کی طرف روانہ ہو گئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK