کھنڈوپاڑہ تک پہنچنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی لیکن اس کے بعدوہاں سے گھر پہنچنا ایک مشکل مرحلہ تھا۔ بائیک سواروں اور رکشا ڈرائیوروں نے راستے کو بری طرح الجھادیا تھا۔ ا
EPAPER
Updated: March 19, 2025, 11:33 AM IST | Qutbuddin Shahid | Mumabi
کھنڈوپاڑہ تک پہنچنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی لیکن اس کے بعدوہاں سے گھر پہنچنا ایک مشکل مرحلہ تھا۔ بائیک سواروں اور رکشا ڈرائیوروں نے راستے کو بری طرح الجھادیا تھا۔ ا
مسجد عبدالحکیم( بھیونڈی) سے تراویح کی نماز پڑھ کرنکلا تو باہر کا سماں بہت خوشگوار اور روح پرور تھا۔ موسم میں ہلکی سی خنکی تھی اور چاروں طرف روشنی ہی روشنی تھی۔ اطراف کی دیگر مساجد میں بھی تراویح کی نماز ختم ہوئی تھی، اسلئے سڑک پر بچے، نوجوان اور بزرگ مصلیان کی خاصی تعداد دکھائی دے رہی تھی۔ کچھ لوگ اپنے اپنے گھروں کو جارہے تھے تو کچھ چائے پینے کیلئے ہوٹل کے اطراف جمع ہورہے تھے اور نوجوان بائیک سواروں کی ایک بڑی تعداد بازاروں کا رخ کررہی تھی۔ مجھے بھی بارہ دری ہوٹل پہنچ کر ایک دوست سے چائے پرملاقات کرنی تھی۔
کھنڈوپاڑہ تک پہنچنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی لیکن اس کے بعدوہاں سے گھر پہنچنا ایک مشکل مرحلہ تھا۔ بائیک سواروں اور رکشا ڈرائیوروں نے راستے کو بری طرح الجھادیا تھا۔ اس کی وجہ سے ۵۰۰؍ میٹر کا فاصلہ طے کرنے میں بائیک سے ۵۰؍ منٹ سے زائد کا وقت لگا۔
حالیہ چند برسوں میں باغ فردوس سے کھنڈو پاڑہ جانے والی سڑک خریداری کے لحاظ سے بالخصوص عید کے موقع پرشاپنگ کیلئے کافی مشہور اور اسی تناسب سے مصروف ہوگئی ہے۔ ضروریات کی تکمیل کیلئے اس کی حیثیت الہ دین کے چراغ اور اطمینان کیلئے زندہ طلسمات کی ہوگئی ہے۔ کپڑوں سے لے کر کانچ کے برتن تک، سیوئیوں سے لے کر ڈرائی فروٹ تک، لذت کام و دہن کی مختلف اقسام سے لے کر موبائل فون کے کور کے شاندار شورومس تک اور افطاری کے سامان سے لے کر چکن، مٹن اور بیف تک.... وہ کون سی چیز ہے، جو اس روڈ پر نہ ملتی ہو۔ بھیونڈی میں کپڑوں کی تیاری کی ایک تاریخ ہے اور اس حوالے سے اسے ہندوستان کا مانچسٹر کہا جاتا ہے لیکن چند برسوں قبل تک عید کے موقعوں پر کپڑوں کی خریداری کیلئے لوگ کلیان، الہاس نگر، تھانے اور ممبئی جایا کرتے تھے مگر اب ممبئی اور نئی ممبئی کے لوگ اِس روڈ پر واقع فرید آرکیڈ کا رخ کرتے ہیں۔ اسی سڑک کے دوسرے سرے پر ’ایس ایس لاٹ‘ کا جلوہ ہے جو اِن دنوں خاص و عام میں مقبول ہے۔افطار کے بعد ہی سے اس روڈ پرگہماگہمی بڑھنے لگتی ہے۔ پہلے عشرے کے بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ۶۰؍ فٹ چوڑے اس کنکریٹ روڈ کی حالت چاند رات آتے آتے ۲۹؍ویں کے چاند کی طرح پتلی ہوجاتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: رمضان ڈائری : ماہم درگاہ میں مغرب کے وقت زائرین سے زیادہ روزہ دار ہوتے ہیں
خدا خدا کرکے میں کسی طرح بارہ دری پہنچا۔ مجھے وہاں پہنچنے میں کافی تاخیرہوگئی تھی،اسلئے خدشہ اس بات کا تھا کہ چائے سے زیادہ گرم دوست کا مزاج ہوگا لیکن ایسا بالکل نہیں تھا۔ ان پر رمضان کی برکات کے اثرات صاف نظر آرہے تھے۔ میں نے تاخیر سے پہنچنے کا جواز پیش کرنے کیلئے شکایتاً کہا کہ لوگ جتنی تیاری افطاری، سحری اور عید کی خریداری کیلئے کرتے ہیں، اگر اتنی ہی کوشش اپنے اندر تقویٰ پیدا کرنے کیلئے کرلیں تو ملک کا نظارہ ہی بدل جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ لوگ نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ عبادت و ریاضت اورخیرکے بہت سارے کام رمضان میں ہوتے ہیں۔ یہ کام انفرادی طورپر بھی ہوتے ہیں اور اجتماعی طورپر بھی۔بات چلی تو انہوں نے کئی مثالیں دیں۔ چند ایک کا تذکرہ ہم اپنے قارئین کیلئے بھی کرنا چاہیں گے۔ جمعیت اہل حدیث کی بھیونڈی شاخ کا ایک بہت پرانا نظم ہے۔ وہ ہر سال رمضان میں ( چاول، آٹا، چنے کی دال،تیل،گھی،شکر، سیوئیاں، چائے، مکس ڈرائی فروٹ،گرم مسالہ، روا اور دودھ پرمشتمل) ایک بڑا سا تھیلا ضرورت مندوں میں تقسیم کرتے ہیں۔۱۹۸۲ء میں محض ۱۰؍ تھیلوں سے شروع ہونےوالا یہ سلسلہ اب ۱۵۰۰؍ تھیلوں تک پہنچ گیا ہے۔ان کے اراکین مستحقین کی تلاش خود کرتے ہیں۔
رمضان میں دوسری تراویح کا انتظام کئی جگہوں پر ہوتا ہے لیکن جس طرح کاا ہتمام مشکوٰۃ مسجد میں ہوتا ہے، شاید ہی کہیں ہوتا ہو۔ پہلی تراویح میں بیشتر جگہوں پر تفسیر کا بیان ہوتا ہے لیکن دوسری تراویح میں اس کا اہتمام عام طور پر نہیں ہوتا لیکن مشکوٰۃ مسجد میں نہایت پابندی سے دوسری تراویح کے بعدتفسیر بیان کی جاتی ہے اور اس کے بعد تمام مصلیان کیلئے چائے اورناشتے کااہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ اسی طرح قرآن شریف کے پہلے دور کی تکمیل کے بعد ستائیسویں یا اٹھائیسویں شب میں ایک عالم دین کا بیان بھی ہوتا ہے۔
ایک اور واقعہ جو دل کو بھا جانے والا ہے، وہ مالیگاؤں کا ہے۔ رائل کالج (عبدالمطلب کیمپس) کے باہر شاہراہ سے متصل ایک ہوٹل’گرین پلازہ‘ ہے جہاں سے کالج میں مقیم ہاسٹل کے تمام طلباو طالبات کیلئے مفت سحری اور افطار کا نظم کیا جاتا ہے۔ ایک ایسے دور میں جہاں مواقع کا فائدہ اٹھانے سے نہیں چوکتے، وہاں پر ہوٹل کاانتظامیہ خیر و برکات کے مواقع دیکھ رہا ہے۔ ہوٹل انتظامیہ چاہتا تو اس موقع پر قیمت میںا ضافہ بھی کرسکتا تھا کیونکہ طلبہ کے پاس اور کوئی متبادل نہیں ہے، لیکن وہ دنیا کو نہیں، آخرت کو دیکھ رہا ہے اور دنیا کو آخرت کی کھیتی سمجھ رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسے بہت لوگ ہیں جو دنیا کو آخرت کی کھیتی سمجھ کر اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں اور رمضان ان کیلئے ایک بہترین موقع ہے۔n