Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

شعیبؑ کی قوم پر عذاب، فرعون کا تکبر، بنی اسرائیل کی سرکشی اور نیل میں غرقابی

Updated: March 08, 2025, 1:29 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

اللہ نے بنی اسرائیل پر من و سلویٰ تک نازل کیا گیا، انہیں زیتون کا وارث بنایا گیا، لیکن نہ انہیں سدھرنا تھا اور نہ سدھرے۔ اسی طرح گمراہیوں میں پڑے رہے۔

It is commanded to remain silent and listen attentively during the recitation of the Holy Quran. Photo: INN
قرآن کریم کی تلاوت کے وقت خاموش رہنے اور توجہ سے سننے کا حکم دیا گیا ہے۔ تصویر: آئی این این

آج :آٹھویں تراویح نوواں پارہ : قَالَ الْمَلَأُ 
اس سے پہلے والے (آٹھویں ) پارے کے آخری دو تین رکوع بعض انبیائے کرام کے قصوں پر مشتمل ہیں۔ آخری قصہ حضرت لوط علیہ السلام کا تھا کہ کس طرح ان کی قوم غیرفطری عمل میں گرفتار تھی اور کس طرح ان پر پتھروں کی بارش کرکے اور ان کی بستیوں کو تحت الثریٰ میں اتار کر نیست ونابود کیا گیا۔ نویں پارے (قَالَ الْمَلَأُ ) کا آغاز حضرت شعیب علیہ السلام کے قصے سے ہوتا ہے کہ قوم شعیب کے سرداروں نے جو انتہائی غرور میں مبتلا تھے، ان سے کہا کہ اے شعیب ہم تمہیں اور ان لوگوں کو جو تمہارے ساتھ ایمان لائے ہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے ورنہ تمہیں ہماری ملت میں واپس آنا ہوگا۔ حضرت شعیبؑ نے فرمایا کیا ہم زبردستی واپس آئینگے۔ جب حضرت شعیبؑ اپنی قوم سے مایوس ہوگئے تو ان کی قوم پر ایک خوف ناک عذاب آیا جس سے پوری قوم تباہ وبرباد ہوگئی۔ آگے قوموں کے عروج وزوال پر قرآن کریم نے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہم نے جب بھی کسی بستی میں کوئی نبی بھیجا، پہلے ہم نے اس بستی کو تنگی اور بیماری میں مبتلا کیا تاکہ وہ ڈھیلے پڑ جائیں پھر ہم نے ان کی بد حالی کو خوش حالی سے بدل دیا، جب وہ خوب پھلے پھولے تو کہنے لگے کہ ہمارے آباء واجداد پر اچھے بُرے دن گزرے ہیں آخر کار (اُن کی مسلسل سرکشی کے بعد) ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا، انہیں خبر تک نہ ہوئی۔ اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور نیکی اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔ 
اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر ہے کہ ہم نے انہیں اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس بھیجا مگر انہوں نے ان نشانیوں (معجزات) کے ساتھ نار وا سلوک کیا (انہیں جھٹلایا)۔ آپ دیکھ لیجئے ایسے مفسدہ پردازوں کا کیا انجام ہوا۔ اس کے بعد تیرہویں رکوع تک یہی قصہ ہے، قصہ خاصا طویل ہے۔ مختصراً بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے کہا کہ میں دوجہانوں کے مالک کی طرف سے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ فرعون نے کہا اگر آپ کوئی نشائی لائے ہیں تو پیش کریں، اس پرآپؑ نے دو معجزے پیش کئے۔ ایک تو یہ کہ جب آپؑ نے اپنی لاٹھی زمین پر ڈالی تو وہ خوفناک اژدہا بن گئی اور جب آپؑ نے اپنا ہاتھ جیب میں سے باہر نکالا تو وہ روشن ہوگیا۔ اس پر فرعون کے سردار کہنے لگے کہ یہ تو بڑا ماہر جادو گر لگتا ہے، تمہیں تمہارے ملک سے نکالنے کے لئے آیا ہے۔ آپس میں طے ہوا کہ جادو کا مقابلہ جادو سے ہوگا، چنانچہ تمام شہروں میں اطلاع بھجوا دی گئی اور ہر جگہ سے جادوگر اپنا کمال دکھلانے کے لئے جمع ہوگئے لیکن وہ معجزات کے سامنے ٹھہر نہ سکے اور یہ کہتے ہوئے سر بہ سجود ہوگئے کہ ہم موسیٰ و ہارون (علیہما السلام )کے رب پر ایمان لاتے ہیں۔ اس پر فرعون کا پارہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا اور اس نے جادو گروں کو دھمکی دی کہ میں تمہارے ہاتھ پاؤں کٹوا دوں گا اور پھانسی پر لٹکادوں گا، مگر جادو گروں پر ان دھمکیوں کا کوئی اثر نہ ہوا اور کہنے لگے کہ ہم مرنے کے بعد بھی اپنے مالک ہی کے پاس جائیں گے، تو ہم سے صرف اس لئے انتقام لے رہا ہے کہ ہم اپنے رب کی نشانیوں پر ایمان لے آئے، اے ہمارے رب ہمیں صبر کا حوصلہ دیجئے اور ہمیں حالت اسلام پر موت دیجئے۔ 
 اب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم پر فرعون کی طرف سے ظلم وتشدد کا بازار گرم ہوا، ان کے بچوں کو قتل کیا جانے لگا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو صبر کی تلقین کرتے اور فرماتے کہ یہ ملک اللہ کا ہے، اللہ جس کو چاہے گا عطا کرے گا اچھا انجام پرہیز گاروں کے لئے ہے۔ خدا کی رحمت جوش میں آئی اور فرعون کی قوم پر طرح طرح کے آسمانی عذاب نازل ہوئے۔ کبھی یہ قوم قحط سالی کا شکار ہوئی، ان پر طوفان باد وباراں بھیجا گیا، ٹڈی دل چھوڑاگیا، سُرسُریاں (دھنورا، اناج میں پایا جانے والا کیڑا) پھیلائی گئیں، مینڈک نکالے گئے اور خون برسایا گیا مگر ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ جب بھی ان پر کوئی مصیبت آتی تو کہتے اے موسیٰ ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کردیجئے ہم آپ پر ضرور ایمان لے آئیں گے، اور آپ کی قوم کو بھی رہا کردیں گے مگر جب عذاب ہٹ جاتا تو ان کی حالت پہلے جیسی ہوجاتی، تب اللہ نے ان کو دریائے نیل میں غرق کردیا۔ 
اب بنی اسرائیل کی سرکشی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس احسان وانعام نے بھی، کہ انہیں ظالم کے پنجۂ استبداد سے رہا کیا، ان کے اندر انقلاب برپا نہیں کیا، جب حضرت موسیٰؑ چالیس دن کے لئے کوہ طور پر تشریف لے گئے تو انہوں نے اپنے پیچھے اپنے بھائی حضرت ہارونؑ کو نگراں مقرر کردیا لیکن ان لوگوں نے حضرت ہارونؑ کی بات نہ مانی اور سونے کا ایک بچھڑا بنا کر اس کی پوجا کرنے لگے۔ جب بنی اسرائیل کو اپنی نادانی کا احساس ہوا تو رونے گڑ گڑانے لگے اور معافی مانگنے لگے۔ اسی قصے کے دوران قوم یہود کو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی دعوت بھی دی گئی کہ ’’میری رحمت ان لوگوں کے لئے ہے جو نبی ٔ اُمی کا اتباع کرتے ہیں جن کا ذکر وہ اپنی کتابوں تورات اور انجیل میں بھی پاتے ہیں اور وہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) ایسے ہیں جو انہیں نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، پاکیزہ چیزوں کو حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور ان لوگوں کے اوپر سے (ظلم وستم کا) بوجھ اتارتے ہیں جو ان پر لدا ہواتھا اور وہ بندشیں کھولتے ہیں جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے لہٰذا جو لوگ ان پر ایمان لائینگے یا ان کی حمایت و نصرت کرینگے اور ان کے نور کا اتباع کریں گے جو ان کے ساتھ نازل کیا گیا ہے تو وہی فلاح پانے والے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے:ضروری اُمور کی تفصیل اور شیطان کے انکارِ سجدہ پر مبنی آیات سماعت کیجئے

اس ضمنی ہدایت کے بعد پھر بنی اسرائیل کا قصہ بیان کیا گیا ہے کہ ان پر اللہ نے کتنے انعامات کئے اور وہ ہر مرتبہ ایک تازہ سرکشی اور گُمراہی میں مبتلا ہوگئے۔ ان پر من و سلویٰ تک نازل کیا گیا، انہیں زیتون کا وارث بنایا گیا، لیکن نہ انہیں سدھرنا تھا اور نہ سدھرے۔ اسی طرح گمراہیوں میں پڑے رہے۔ اس قصے کا اختتام ان آیات پر ہوتا ہے کہ بڑی ہی بُری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا، وہ اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جسے ہدایت دیتا ہے وہی ہدایت پاتا ہے اور جسے گمر اہ کرتا ہے وہ نامراد رہتا ہے، اوریہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن وانسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم کیلئے ہی پیدا کیا ہے۔ کچھ آگے چل کر فرمایا کہ یہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ آخر قیامت کی گھڑی کب آئے گی، آپ فرمادیجئے کہ اس کا علم میرے رب کے پاس ہے، اسے وہ اپنے وقت میں ہی ظاہر فرمائیں گے، آسمانوں اور زمین میں وہ بڑا سخت وقت ہوگا، یہ وقت تم پر اچانک آجائے گا۔ یہ لوگ آپ سے اس طرح سوال کرتے ہیں گویا آپ اس وقت کی تحقیق کرچکے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ قیامت کا علم اللہ کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ اس بات سے واقف نہیں ہیں، آپ یہ بھی کہہ دیجئے کہ میں خود اپنی ذات کے لئے کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتا مگر جو کچھ اللہ چاہتا ہے اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا تو بہت سے فائدے اپنے لئے حاصل کرلیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان ہی نہ پہنچتا، میں تو ان لوگوں کو صرف ڈرانے والا اور خوش خبری دینے والا رسول ہوں جو ایمان والے ہیں۔ 
اس کے بعد مشرکین کے کفرو عناد کا ذکر ہے کہ جب آپ انہیں ہدایت کی طرف بلاتے ہیں تو وہ آپ کی اتباع نہیں کرتے، آپ انہیں پکارو یا خاموش رہو دونوں حالتوں میں یکساں ہیں۔ اس کے بعد سرکار دو عالم ﷺ کو یہ نصیحت فرمائی گئی کہ آپ در گزر کرنے کی عادت رکھئے نیکی کا حکم کرتے رہئے اور جاہلوں سے اعراض کیجئے۔ چند آیات کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کے وقت خاموش رہنے کا حکم دیا گیا کہ جب تمہارے سامنے قرآن کریم کی تلاوت کی جائے تو توجہ سے سنو اور خاموش رہو شاید تم پر بھی رحمت ہوجائے۔ اور اپنے رب کا ذکر عاجزی سے کیا کرو۔ بے شک ملائکہ بھی ہمہ وقت رب العالمین کی تسبیح کرتے ہیں۔ 
سورۂ اعراف اسی مضمون پر ختم ہوگئی۔ اب سورۂ انفال کا آغاز ہوتا ہے۔ گزشتہ سورہ میں زیادہ تر مشرکین کے اور کسی قدر اہل کتاب کے کفر وعناد کا ذکر تھا، اس سورہ میں غزوۂ بدر کے حوالے سے ان واقعات کا ذکر ہے جو مشرکین کے حق میں ذلت و نکبت کا باعث بنے، کیوں کہ اس سورہ میں جنگوں کا بیان ہے اور جنگوں میں اموال غنیمت ہاتھ لگتے ہیں اسی لئے سورہ کا نام بھی انفال رکھا گیا ہے جس کے معنی ہیں اموال غنیمت اور پہلی آیت اموال غنیمت کے متعلق ہے کہ آپ سے لوگ غنیمتوں کا حکم دریافت کرتے ہیں، آپ فرمادیجئے کہ یہ غنیمتیں اللہ اور رسول کی ہیں (وہ جس طرح چاہیں گے تقسیم کریں گے)۔ آگے اہل ایمان کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں اور جنگ بدر کیلئے مسلمانوں کی تیاری کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ 
اس کے بعد اہل مکہ کا ذکر ہے کہ وہ کس طرح اس جنگ کیلئے زبردست تیاریوں میں منہمک تھے، ایک طرف کفار کا زبردست لشکر تھا جو ایک ہزار نفوس اور دوسرے حربی سازو سامان پر مشتمل تھا، دوسری طرف تین سو تیرہ آدمیوں کا لشکرتھا جو بے سرو سامانی کی حالت میں تھا، مسلمان اپنی اس کیفیت کو دیکھ کر دست بہ دُعا ہوئے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ وہ موقع یاد کرو کہ جب تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے تمہاری فریاد سن لی کہ میں تمہاری مدد کے لئے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں، اس کے بعد جنگ بدر کے معرکے کا بیان ہے کہ کس طرح تین سو تیرہ مسلمان کفار کی فوجوں سے ٹکرائے اور خدا کی مدد کے سہارے فتح و ظفر سے ہمکنار ہوئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK