Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

ضروری اُمور کی تفصیل اور شیطان کے انکارِ سجدہ پر مبنی آیات سماعت کیجئے

Updated: March 07, 2025, 2:55 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

سورہ اعراف کا آغاز سرکارؐ دو عالم کو اس حکم کے ساتھ ہوا کہ یہ ایک کتاب ہے جو آپ پر اس لئے نازل کی گئی ہے کہ آپ اس کے ذریعے ڈرائیں۔

The purpose of the revelation of the Quran is explained in Surah Al-A`raf. Photo: INN
سورۂ اعراف میں قرآن کے نزول کا مقصد بتایا گیا ہے۔ تصویر: آئی این این

آج :ساتویں تراویح آٹھواں پارہ : وَلَوْ أَنَّنَا 
اہلکفر کے عناد اور ہٹ دھرمی کا ذکر چل رہا تھا کہ وہ ایمان لانے کی شرط کے طور پر طرح طرح کے مطالبے پیش کرتے رہتے ہیں۔ آٹھویں پارے کی شروعات میں اس پر ارشاد فرمایا گیا کہ اگر ہم ان (اہل کفر) پر فرشتے بھی نازل کردیں اور ان سے مُردے بھی باتیں کرنے لگیں اور ہم ان کی آنکھوں کے سامنے ہر چیز حاضر کردیں تب بھی وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں، ہاں اگر اللہ چاہے تو اور بات ہے، مگر ان میں سے اکثر لوگ جہالت کی باتیں کرتے ہیں۔ چند آیات کے بعد اہل کفر کی مثال دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کیا وہ شخص جو پہلے مر دہ تھا پھر ہم نے اس کو زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے سہارے وہ لوگوں کے درمیان چلتا پھرتا ہے، اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو تاریکیوں میں اس طرح ڈوبا ہوا ہو کہ ان سے باہر نہ نکل پاتا ہو۔ آگے ارشاد فرمایا: اللہ جس کو ہدایت دینے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کیلئے کھول دیتا ہے اور جس کو گمراہی میں ڈالنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ تنگ کردیتا ہے، اتنا تنگ جیسے آسمان پر چڑھ رہا ہو، اس طرح اللہ پھٹکار ڈال دیتا ہے ان لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے۔ 
 چند آیات کے بعد مشرکین کے کچھ عجیب وغریب عقیدوں کا ذکر ہے، مثلاً یہ کہ وہ لوگ غلے اور پھلوں کی پیداوار کے دو حصے کرلیا کرتے تھے، ایک حصے کو اللہ سے منسوب کرتے اور دوسرے حصے کو بتوں کی طرف منسوب کرتے، اب اگر بتوں کے حصے میں سے کوئی ذرہ بھی اللہ کے حصے میں جا پڑتا تو اسے فوراً الگ کرلیتے اور اگر اس کے بر عکس ہوتا تو اسے بتوں کے حصے میں پڑا رہنے دیتے اور کہتے چلو کوئی حرج نہیں، اللہ تو بے نیاز ہے۔ اسی طرح وہ اس گمان میں بھی مبتلا تھے کہ ان کے معبودوں نے ان کی اولاد کے قتل کو مستحسن بنارکھا ہے یعنی وہ اپنے بچوں کو یہ کہہ کر قتل کردیتے تھے کہ ان کے معبود اس فعل کو اچھا سمجھتے ہیں، کچھ کھیت اور جانور مخصوص کرکے وہ لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ ان کو کوئی نہیں کھا سکتا اِلا ّ یہ کہ ہم چاہیں، کچھ جانوروں پر سواری اور بار برداری نہ کرتے، کچھ جانوروں کو اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کرتے، بعض جانوروں کے متعلق کہتے کہ جو کچھ ان کے پیٹ میں ہے وہ ہمارے مَردوں کے لئے جائز ہے عورتوں کے لئے حرام ہے۔ 
مشرکین مکہ اسی طرح کے الٹے سیدھے غیر معقول عقیدوں میں پڑے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن لوگوں نے اپنی اولاد کو حماقت کی وجہ سے قتل کر ڈالا اور اللہ کے دئیے ہوئے رزق کو اللہ پر بہتان باندھتے ہوئے (خود پر) حرام کرلیا وہ گمراہ تھے، ہدایت یافتہ نہیں تھے۔ اللہ تو وہ ہے جس نے قسم قسم کے باغات پیدا کئے جو ٹٹیوں پر چڑھائے جاتے ہیں اور جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائے جاتے اور کھجور کے درخت پیدا کئے اور کھیتیاں اگائیں جن سے طرح طرح کی غذا حاصل ہوتی ہے۔ زیتون اور انارکے درخت اگائے، جو ایک دوسرے کے مشابہ بھی ہوتے ہیں اور مختلف بھی، ان سب کی پیداوار کھاؤ جب یہ پھل پک جائیں اور جب ان کی فصل کاٹو ان کا حق ادا کرو اور حد سے نہ گزرو، اللہ تعالیٰ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا اور مویشیوں میں سے وہ جانور بھی پیدا کئے جو بار برداری کے کام آتے ہیں اور وہ بھی جو پستہ قامت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں تمہارے لئے پیدا کی ہیں ان میں سے کھاؤ اور شیطان کے نقش قدم کی اتباع نہ کرو، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:سورۂ مائدہ کے فروعی احکام کے بعد سورۂ انعام کے اصولی مضامین سماعت کیجئے

آنے والی آیات میں بھیڑ بکری، اونٹ اور گائے وغیرہ کا ذکر ہے کہ اللہ نے ان میں سے کوئی جانور حرام نہیں کیا، یہ حرمت ان کی من گھڑت ہے۔ حضورؐ سے فرمایا گیا کہ آپ فرمادیجئے جو وحی میرے پاس آتی ہے اس میں تومیں کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو إلاّ یہ کہ وہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون ہو یا سور کا گوشت ہو کہ وہ بالکل ناپاک ہے، یا کوئی جانور شرک کا ذریعہ ہوکہ اللہ کے سوا کسی اور کے لئے نامزد کیا گیا ہو۔ چند آیات کے بعد فرمایا: آپ کہہ دیجئے کہ آؤ میں تمہیں بتلاؤں کہ تمہارے رب نے تم پرکیا حرام کیا ہے؟ (اب آگے ان امور کی تفصیل ہے جن کا کرنا ضروری ہے اور نہ کرنا حرام ہے، ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ) کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو، اپنے بچوں کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی رزق دیں گے اور برائیوں کے قریب مت جاؤ خواہ وہ کھلی برائیاں ہوں یا پوشیدہ اور جس کا خون اللہ نے حرام کردیا ہے اس کو قتل مت کرو مگر حق پر، یہ باتیں ہیں جن کا اللہ نے تم کو حکم دیا ہے شاید تم عقل وبصیرت سے کام لو۔ یتیموں کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو مستحسن ہو، یہاں تک کہ وہ یتیم بالغ ہوجائے اور ناپ تول پورا پورا کیا کرو، ہم کسی کو اس کی طاقت سے بڑھ کر مکلف نہیں بناتے اور جب کوئی بات کہو عدل وانصاف سے کہو اگرچہ معاملہ اپنے رشتہ داروں ہی کا کیوں نہ ہو، یہ وہ امور ہیں جن کی اللہ نے تمہیں تاکید کے ساتھ وصیت کی ہے شاید تم نصیحت قبول کرلو، یہ میرا سیدھا راستہ ہے اس کی اتباع کرو، مختلف راستوں پر مت چلو ورنہ وہ راہیں تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گی۔ 
کچھ آیات تک مشرکین کا ذکر ہے اور پھر قرآن کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں پھر فرمایا گیا کہ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ کہہ دیجئے کہ میرے رب نے مجھے صراط مستقیم کی طرف ہدایت دی ہے، بالکل درست اور ٹھیک دین جو ابراہیمؑ کا طریقہ ہے جس میں ذرا بھی کجی نہیں تھی اور وہ شرک کرنے والوں میں نہیں تھے، آپ (یہ بھی) کہہ دیجئے کہ میری نماز، میری تمام عبادتیں، میرا جینا، میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کیلئے ہے جس کا کوئی شریک نہیں ہے، ان ہی آیات پر اور اسی طرح کے مضامین کے ساتھ سورۂ انعام اختتام پزیر ہوئی اور سورۂ اعراف کا آغاز ہوا۔ 
سورہ اعراف کا آغاز سرکارؐ دو عالم کو اس حکم کے ساتھ ہوا کہ یہ ایک کتاب ہے جو آپ پر اس لئے نازل کی گئی ہے کہ آپ اس کے ذریعے ڈرائیں لہٰذا آپؐ کے دل میں ذرا جھجک نہ ہونی چاہئے اور یہ کتاب ایمان والوں کیلئے نصیحت ہے۔ اس کے بعد مشرکین کو خطاب ہے کہ جو کتاب تم پر تمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے اس کی اتباع کرو اور اپنے رب کو چھوڑ کر دوسرے اولیاء کی پیروی مت کرو مگر تم لوگ نصیحت کم ہی قبول کرتے ہو۔ حالاں کہ کتنی ہی بستیاں ایسی ہیں جن کو ہم نے تہس نہس کردیا ہے ان پر ہمارا عذاب اچانک رات کے وقت ٹوٹ پڑا یا دن میں ایسے وقت آیا جب وہ آرام کررہے تھے اور جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو ان کی زبانوں پر یہ الفاظ تھے کہ بلاشبہ ہم ظالم تھے۔ 
آگے وزنِ اعمال کا ذکر ہے کہ قیامت کے دن وزن برحق ہوگا، جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے اور جن کے پلڑے ہلکے رہیں گے وہ خود کو خسارے میں ڈالنے والے ہوں گے، اس کے بعد انسانیت پر اللہ کے بے شمار احسانات کا تذکرہ ہے کہ تمہارے لئے سامان معیشت پیدا کیا، خود تمہیں پیدا کیا اور تمہاری صورتیں بنائیں، پھر فرشتوں سے کہا کہ وہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کریں۔ 
اس کے بعد حضرت آدمؑ کا قصہ مذکور ہے کہ شیطان نے از راہ حسد وتکبر حضرت آدم کو سجدہ نہیں کیا، بلکہ ان کو بہکایا، ورغلایا اور جنت سے نکلوایا۔ نسل انسانی کو حکم ہوا کہ نیچے جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو، تمہارے لئے ایک مدت تک زمین میں ہی رہنا ہے اور اسی میں سامانِ زیست ہے، تم اسی میں زندہ رہو گے، اسی میں مرو گے اور اسی میں سے نکالے جاؤ گے۔ ان احسانات کے ضمن میں یہ بھی فرمایا کہ اے اولاد آدم ہم نے تمہارے لئے لباس اتارا ہے جو تمہارے ستر کو چھپاتا ہے اور تمہارے لئے زینت کا ذریعہ ہے اور لباسِ تقویٰ بہترین پوشاک ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک ہے تاکہ لوگ اس سے سبق حاصل کریں۔ لباس کا ذکر چلا تو یہ حکم فرمایا کہ اے اولاد آدم تم مسجد میں حاضری کے وقت اپنی زینت کرلیا کرو اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ 
آگے آخرت میں پیش آنے والے کچھ واقعات کا بیان ہے، کافروں کیلئے درد ناک عذاب کی وعید اور اہل ایمان کیلئے جنت کی بشارت ہے، اس دن اہل جنت اور اہل دوزخ کے درمیان جو مکالمہ ہوگا وہ بھی مذکور ہے۔ جنت اور دوزخ کے علاوہ ایک اور جگہ بھی ہوگی جسے قرآن نے اعراف کہا ہے وہاں بھی کچھ لوگ ہونگے، یہ لوگ از روئے مصلحت ِخداوندی نہ جنت کے مستحق ہوں گے اور نہ دوزخ کے، مقام اعراف والے جنتیوں کو دیکھ کر رشک کریں گے اور دوزخیوں کی حالت دیکھ کر پناہ مانگیں گے۔ اس کے بعد تخلیق زمین و آسمان کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا ذکر ہے اور اہل ایمان کو یہ نصیحت ہے کہ تم اپنے رب سے آہ وزاری کے ساتھ چپکے چپکے دعائیں مانگو، اللہ تعالیٰ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے۔ پھر یہ فرمایا کہ زمین میں فساد برپا مت کرو جبکہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے اور اللہ ہی کو پکارو امید اور خوف کے ساتھ، یقیناً اس کی رحمت نیک لوگوں سے زیادہ قریب ہے۔ 
اس پارے کے آخر میں حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح اور حضرت لوط علیہم السلام کی قوموں کی سرکشی کا بیان بھی ہے اور ان کے نتیجے میں ملنے والی عبرت ناک سزاؤں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK