معاشرے میں اجتماعی تعلقات کی بنیاد باہمی حسن ظن پر ہونی چاہئے، جب تک کسی کے خلاف کوئی ثبوت نہ ہو وہ بے گناہ ہے۔
EPAPER
Updated: March 17, 2025, 2:07 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai
معاشرے میں اجتماعی تعلقات کی بنیاد باہمی حسن ظن پر ہونی چاہئے، جب تک کسی کے خلاف کوئی ثبوت نہ ہو وہ بے گناہ ہے۔
آج :سترہویں تراویح ۱۸؍واں پارہ : قَدْ أَفْلَحَ
اٹھارہویں پارے کا آغاز سورۂ المؤمنون سے ہوتا ہے، اس کی ابتدائی آیات میں اہل ایمان کے سات اوصاف بیان کئے گئے اور جو لوگ ان سات اوصاف سے متصف ہیں ان کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ ’’بلاشبہ ان مسلمانوں نے فلاح پائی جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں، اور جو لغو باتوں سے دور رہنے والے ہیں، اور جو زکوٰۃ دینے والے ہیں، اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور جو اپنی امانتوں کا اور اپنے وعدوں کا خیال رکھنے والے ہیں، اور جو اپنی نمازوں کی پابندی کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں فردوس کے وارث جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔
بعد کی آیات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور انسان کی تخلیق میں اس کی بے مثال صناعی کا بیان ہے۔ اگر کوئی ان باتوں پر غور کرلے تو وہ ایمان کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیار ہی نہیں کرسکتا۔ فرمایا ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے بنایا، پھر ہم نے اس کو نطفے سے بنایا، تخلیق کے دوسرے مراحل کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد فرمایا: اللہ کی کتنی بڑی شان ہے، وہ تمام صنّاعوں سے بڑھ کر ہے، پھر فرمایا: پھر تم اس کے بعد مرنے والے ہو، پھر تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے، زمین وآسمان کی تخلیق، پانی کا نزول، میوؤں اور پھلوں کے باغات، حیوانات کی تخلیق جن کا تم دودھ بھی پیتے ہو اور جن کا گوشت بھی کھاتے ہو اور جن پر سواری بھی کرتے ہو، اور سواری کے لئے کشتیاں بھی استعمال کرتے ہو، یہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی ہی کاری گری کا شاہکار ہیں۔
اس تفصیل کے بعد حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ ہے، پھر عا دوثمود کا، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ نہایت اختصار کے ساتھ ہے، پھر اہل ایمان اور اہل کفر کا ذکر ہے۔ اہل ایمان کے متعلق تو فرمایا کہ جو لوگ اپنے رب کی ہیبت سے ڈرتے رہتے ہیں اور اپنے رب کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور جو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے اور جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس وقت ان کے دل میں یہ خوف ہوتا ہے کہ وہ اپنے رب کے پاس جانے والے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو بھلائی کے کاموں میں سبقت کررہے ہیں اور جلدی کررہے ہیں، دوسری طرف کفار ہیں کہ ان کے دل اس طرح کے کاموں سے غافل ہیں اور ان کے علاوہ دوسرے کاموں میں منہمک ہیں، یہاں تک کہ جب ہم ان کے آسودہ حال لوگوں کو اپنی گرفت میں لیں گے تو یہ چلانے لگیں گے، (اس وقت ہم کہیں گے) آج مت چلا ّؤ اب تمہاری کسی طرح کی مدد نہیں کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھئے:ابراہیمؑ، داؤدؑ، سلیمانؑ، ایوبؑ اور یونسؑ کے واقعات اور قیامت کا ذکر سنئے
رکوع کے آخر تک اسی طرح کے مضامین بیان کئے گئے ہیں، پھر سابقہ مضمون کی طرف واپسی ہوئی اور انعامات ِخداوندی کا ذکر ہوا کہ اسی نے تمہارے لئے کان، آنکھیں اور دل بنائے لیکن تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔ سورہ کے آخر ی رکوع میں ارشاد فرمایا کہ جب صور پھونکا جائے گا ان کے درمیان کوئی رشتہ نہ رہ جائے گا اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے، جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی کامیاب ہوں گے اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈال دیا ہے، وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیش رہنے والے ہیں۔ چند آیات کے بعد فرمایا اللہ ان سے پوچھیں گے تم زمین میں کتنے سال رہے، وہ کہیں گے ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہے، شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجئے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا تھوڑی ہی دیر ٹھہرے ہو، کاش تم نے جان لیا ہوتا (کہ دنیا کی زندگی مختصر ہے) کیا تم اس گمان میں مبتلا تھے کہ تم کو بے کار پیدا کیا گیا ہے اور تمہیں واپس نہیں جانا ہے۔
سورۂ المؤمنون کے بعد سورۂ نور ہے، یہ بہت اہم احکام پر مشتمل سورہ ہے۔ سب سے پہلے تو زنا کی سزا کا بیان ہے، دوسری تعزیری سزا تہمت لگانے والوں کے لئے متعین کی گئی کہ جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں پھر چار گواہ لے کر نہیں آتے ان کو سو سو کوڑے مارو اور ان کی گواہی کبھی قبول مت کرنا، یہ لوگ فاسق ہیں، تیسرا حکم یہ بیان کیا گیا کہ جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگائیں اور ان کے پاس ان کے سوا کوئی دوسرا گواہ نہ ہو تو ان میں سے ایک شخص کی شہادت یہ ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھاکر یہ گواہی دے کہ وہ سچا ہے اور پانچویں مرتبہ قسم کھا کر یہ کہے کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹا ہو، اور عورت سے سزا ٹال دی جائے گی اگر وہ چار مرتبہ قسم کھاکر یہ کہے کہ وہ (الزام لگانے والا شوہر) جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ قسم کھا کر یہ کہے کہ مجھ پر اللہ کا غضب پڑے اگر وہ سچا ہو۔ اس کے بعد ایک اہم واقعے کا ذکر ہے جو سیرت و تاریخ کی کتابوں میں واقعہ ٔ افک کے نام سے مشہور ہے۔
یہ واقعہ بہ طور اختصار اس طرح ہے کہ غزوۂ بنی المصطلق اور غزوۂ مریسیع سے فراغت کے بعد جب قافلے کی روانگی کا اعلان ہوا تو حضرت عائشہ الصدیقہ ؓ ضروریات سے فراغت کیلئے باہر تشریف لے گئیں، وہاں آپ کے گلے کا ہار گم ہوگیا، اس کے ڈھونڈنے میں کچھ وقت لگا، اتنے میں قافلہ روانہ ہوگیا جس ہودج میں آپ سوار تھیں یہ سمجھ کر کہ اسے اونٹ پر رکھ دیا گیا اور آپ اس میں بیٹھ چکی ہیں۔ جب حضرت عائشہ ؓواپس تشریف لائیں تو قافلہ جا چکا تھا، آپؓ نے دانش مندی سے کام لیا اور چادر اوڑھ کر اسی جگہ بیٹھ گئیں جہاں سے قافلہ روانہ ہوا تھا، پھر آپ کی آنکھ لگ گئی، کچھ دیر کے بعد حضرت صفوانؓ جن کو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خدمت کیلئے مامور کیا تھا کہ وہ قافلے کے کوچ کرنے کے بعد واپس آکر دیکھیں اور اگر کوئی سامان وغیرہ رہ گیا ہو تو اسے اٹھالیں، واپس آئے تو دیکھا کہ کوئی چادر اوڑھے سو رہا ہے، ان کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ حضرت عائشہؓ قافلے سے بچھڑ گئی ہوں گی۔ قریب پہنچے تو انہوں نے حضرت عائشہ ؓ کو پہچان لیا، کیوں کہ نزول حجاب سے پہلے انہوں نے حضرت عائشہؓ کو دیکھ رکھا تھا، یہ دیکھ کر انہوں نے انا للہ پڑھی، آواز سے حضرت عائشہؓ کی آنکھ کھل گئی انہوں نے چہرہ ڈھانپ لیا، حضرت صفوان ؓ نے خاموشی کے ساتھ اونٹ بٹھا یا، جس پر آپ سوار ہوگئیں اور مدینے سے پہلے پہلے لشکر کے پڑاؤ میں داخل ہوگئیں۔ منافقین نے حضرت عائشہ ؓ کو حضرت صفوانؓ کے ساتھ اونٹ پر سوار دیکھا تو الزامات لگانے شروع کردیئے، بعض سادہ لوح مسلمان بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے، مدینہ منورہ میں یہ افواہ ایک مہینے تک اڑتی رہی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سخت اذیت میں مبتلا رہے، حضرت عائشہؓ بھی روتی رہیں اور ان کے والدین بھی سخت ترین صدمے سے دو چار رہے۔
اسی دوران ایک دن جب آپؐ حضرت ابوبکرؓ کے گھر تشریف لائے، تو آپؐ پر وہ کیفیت طاری ہوگئی جو وحی کے نزول کے وقت ہوا کرتی تھی۔ کچھ دیر کے بعد آپؐ کی وہ کیفیت ختم ہوگئی، آپؐ اس وقت بے حد خوش تھے، آپؐ نے ہنستے ہوئے جو پہلی بات ارشاد فرمائی وہ یہ تھی مبارک ہو عائشہؓ اللہ نے تمہاری برأت کردی ہے اس کے بعد آپؐ نے سورۂ نور کی یہ دس آیتیں سنائیں کہ ’’جن لوگوں نے تہمت لگائی ہے، وہ تمہارے ہی اندر کا ایک ٹولہ ہے تم اس کو اپنے حق میں برا نہ سمجھو، بلکہ یہ تمہارے لئے خیر ہی ہے جس نے اس میں جتنا حصہ لیا اس نے اتنا ہی گناہ سمیٹا۔ ‘‘
اس سورہ میں حضرت عائشہ الصدیقہؓ کی برأت کے ساتھ ساتھ یہ ہدایت بھی کی گئی کہ آنکھیں بند کرکے تہمتوں پر یقین مت کیا کرو، نہ انہیں پھیلاتے پھرو، بلکہ ان کو دباؤ اور ان کا سدّ باب کرو، جو لوگ بے ہودہ خبریں اور بری افواہیں پھیلائیں اور مسلم معاشرہ میں فواحش ومنکرات کو رواج دیں وہ سزا کے مستحق ہیں۔ یہ بھی ہدایت کی گئی کہ مسلم معاشرے میں اجتماعی تعلقات کی بنیاد باہمی حسن ظن پر ہونی چاہئے، جب تک کسی کے خلاف کوئی ثبوت نہ ہو وہ بے گناہ ہے۔ سورہ نور میں کچھ اور اخلاقی ہدایات سے بھی نوازا گیا، مثلاً یہ کہ ایک دوسروں کے گھروں میں بے تکلف نہ گھسو، مرد اور عورتیں سب نگاہیں نیچی رکھیں، عورتیں اپنے گھروں کے اندر بھی سینہ اور سر ڈھانپ کر رکھیں، البتہ شوہروں کے سامنے کوئی حرج نہیں، ان کو یہ بھی حکم دیا گیا کہ باہر نکلیں تو اپنی زیب و زینت چھپا کر نکلیں ، غیر شادی شدہ افراد کا نکاح کیا جانا چاہئے، ، خانگی ملازموں اور نابالغ بچوں کیلئے یہ قاعدہ بھی مقرر کیا گیا کہ وہ خلوت کے اوقات یعنی صبح، دوپہر اور رات کے وقت گھر کے کسی مرد یا عورت کے کمرے میں اچانک نہ گھس جایا کریں، اولاد تک اجازت لے کر داخل ہو، بوڑھی عورتیں گھروں میں سروں سے ڈوپٹہ اتا رسکتی ہیں مگر بن سنور کر خود کو دکھاتی نہ پھریں، بلکہ وہ بھی سر ڈھانپے رہیں تو زیادہ بہتر ہے، قریبی عزیزوں اور بے تکلف دوستوں کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے گھروں میں بلا اجازت کھاپی بھی سکتے ہیں۔ پوری سورہ اسی طرح کے معاشرتی احکام پر مشتمل ہے۔
اس کے بعد سورۂ فرقان شروع ہوئی۔ اس میں ان شبہات واعتراضات پر کلام کیا گیا ہے جو قرآن کریم پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر اور آپ کی تعلیمات پر کفار مکہ کی طرف سے پیش کئے جاتے تھے، ہر اعتراض کا دنداں شکن جواب دیا گیا ہے اور بتلایا گیا ہے کہ حق سے منہ موڑوگے تو برے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔