سورہ انعام میں حضرت ابراہیم ؑ کے واقعے کا تذکرہ ہے جنہوں نے رات کی تاریکی میں ستاروں کو دیکھا، چاند کو دیکھا کہ وہ تو صبح ہوتے ہی چھپ جاتے ہیں، سورج کو دیکھا کہ وہ رات ہوتے ہی غروب ہوجاتا ہے، تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ چاند سورج ستارے جو چھپ جاتے ہیں خدا نہیں ہوسکتے، میں نے تو یکسو‘ ہوکر اپنا رخ اس ہستی کی طرف کرلیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔
آج :چھٹی تراویح ساتواں پارہ :وَإِذَا سَمِعُوا
ساتواں پارہ جس آیت سے شروع ہوتا ہے اس کی ایک خاص شان نزول ہے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن امیہ ضمریؓ کو اپنے مکتوب گرامی کے ساتھ شاہ حبشہ نجاشی کے پاس بھیجا تھا۔ شاہ نے نامہ ٔ مبارک پڑھا اور مسلمانوں سے قرآن کریم سنا نے کی فرمائش کی۔ حضرت جعفرؓ ابن ابی طالب نے سورۂ مریم پڑھ کر سنائی۔ یہ سورہ سن کر نجاشی اور کچھ درباری اس درجہ متاثر ہوئے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے کہ ’’جب وہ لوگ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل کیا گیا ہے تو ان کی آنکھیں حق کی معرفت کے اثر سے آنسوؤں سے تر ہوجاتی ہیں اور وہ کہہ اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم آپ پر ایمان لائے، آپ ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ دیں اور ہمارے پاس اللہ پر اور جو حق ہم تک پہنچا ہے اس پر ایمان نہ لانے کا کوئی عذر بھی موجود نہیں ہے، بس ہم تو یہی امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم کو صلحاء کے ساتھ شامل فرمائے گا۔ ‘‘
چند آیات کے بعد ایک فقہی حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ مہمل قسموں پر تمہاری گرفت نہیں کرےگا، البتہ جو پکی سچی قسمیں تم کھایا کرتے ہو ان پر وہ ضرور تمہارا مواخذہ کرے گا (اگر قسم کھانے کے بعد خلاف ورزی کی) تو ایسی قسم کا کفارہ دس مسکینوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے، جیسا کہ تم اپنے گھر والوں کو کھلایا کرتے ہو یا ان دس محتاجوں کو کپڑا دینا ہے یا ایک غلام آزاد کرنا ہے۔ اگر کسی شخص کے پاس ان چیزوں کی گنجائش نہ ہو تو اس کو تین روزے رکھنے چاہئیں، یہی تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھالو (اس صورت میں جب تم اُسے توڑ دو)۔ اسی لئے فرمایا گیا کہ تم اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو، اللہ تعالیٰ اسی طرح اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو۔ اے ایمان والو! شراب، جوا، بت اور پانسے، یہ سب گندے اور شیطانی کام ہیں، تم ان سے اجتناب کرو، شاید تم کامیاب ہوجاؤ۔
یہ بھی پڑھئے:انبیاء اور رسولوں کا ذکر خیر، اہل کتاب کو نصیحتیں اور بنی اسرائیل کی بدعہدیاں
آگے شکار کے کچھ احکام ہیں خاص طور پر حالت احرام میں خشکی کے جانوروں کی ممانعت اور آبی جانوروں کی اجازت کا ذکر ہے اور حکم عدولی کی صورت میں کفارے کا بیان ہے۔ حضرات صحابۂ کرام ؓ میں دین کی طلب بہت تھی اسی لئے بہت سے صحابہؓ کوئی بات سنتے تو مزید معلومات حاصل کرنے کیلئے کچھ پوچھ لیا کرتے تھے، بسا اوقات کوئی ایسا سوال بھی سامنے آجاتا کہ آپؐ وحی کے انتظار میں خاموش ہوجاتے اور جواب نہ دیتے۔ جب حج کی فرضیت کا حکم نازل ہوا تو حضرت اقرع بن حابسؓ نے عرض کیا کہ کیا حج ہر سال فرض ہے؟ آپؐ یہ سوال سن کر خاموش رہے۔ حضرت اقرع ؓبار بار یہی سوال کرتے رہے، اس پر آپؐ نے فرمایا نہیں۔ پھر فرمایا کہ اگر میں ہاں کہہ دیتا تو فرض ہوجاتا۔ اس واقعے پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اے ایمان والو! تم ایسی چیزوں کی نسبت سوال مت کیا کرو (جن پر قرآن خاموش ہو) کہ اگر وہ تمہارے لئے ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں مشقت میں ڈال دیں (اور تمہیں بری لگیں )، اور اگر تم ان کے بارے میں اس وقت سوال کرو گے جبکہ قرآن نازل کیا جا رہا ہے تو وہ تم پر (نزولِ حکم کے ذریعے) ظاہر (یعنی متعیّن) کر دی جائیں گی (جس سے تمہاری صواب دید ختم ہو جائے گی اور تم ایک ہی حکم کے پابند ہو جاؤ گے)۔ اللہ نے ان (باتوں اور سوالوں ) سے (اب تک) درگزر فرمایا ہے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بردبار ہے۔ تم سے پہلے ایک جماعت نے اسی طرح کے سوالات کئے تھے اور پھر وہ حق بات کے منکر ہوگئے تھے۔
اگلی کچھ آیتوں میں ایک معاشرتی حکم بھی ہے جس پر عمل کرنے سے بہت سے نزاعات کا تصفیہ ہوسکتا ہے، فرمایا: اے ایمان والو! جب تم میں سے کسی کی موت آئے تو وصیت کرتے وقت تمہارے درمیان گواہی (کے لئے) تم میں سے دو عادل شخص ہوں یا تمہارے غیروں میں سے (کوئی) دوسرے دو شخص ہوں اگر تم ملک میں سفر کر رہے ہو پھر (اسی حال میں ) تمہیں موت آپہنچے تو تم ان دونوں کو نماز کے بعد روک لو، اگر تمہیں (ان پر) شک گزرے تو وہ دونوں اللہ کی قسمیں کھائیں کہ ہم اس کے عوض کوئی قیمت حاصل نہیں کریں گے خواہ کوئی (کتنا ہی) قرابت دار ہو اور نہ ہم اللہ کی (مقرر کردہ) گواہی کو چھپائیں گے (اگر چھپائیں تو) ہم اسی وقت گناہگاروں میں ہو جائیں گے۔
یہ اور اس کے بعد کی دو آیتیں ایک مسلمان حضرت بدیلؓ کے قصے کے سلسلے میں نازل ہوئی تھیں جو دو نصرانیوں کے ساتھ تجارت کیلئے شام گئے تھے، وہاں ان کی وفات ہوگئی، وفات سے پہلے انہوں نے جو فہرست اپنے سامان کی مرتب کی اس پر ان دو نصرانیوں کو گواہ بنایا مگر ان دونوں نے خیانت کی جس کے بعد قسم وغیرہ کی نوبت آئی۔
اس کے بعد اس دن کا ذکر ہے جس دن تمام انبیاء اور رسل علیہم السلام کو جمع کرکے پوچھا جائے گا کہ تمہیں (تمہاری امتوں کی طرف سے دعوتِ دین کا) کیا جواب دیا گیا تھا، وہ کہیں گے ہمیں تو معلوم نہیں آپ غیب کی باتوں کو زیادہ جاننے والے ہیں۔ اسی سورہ (مائدہ) میں حضرت عیسیٰؑ کی حیات طیبہ کے بعض اہم پہلو بھی اجاگر فرمائے گئے ہیں، خاص طور پر وہ پہلو جو حواریین کے متعلق ہیں کہ وہ دعوئ ایمان کے باوجود اپنے مطالبات کی فہرست پیش کرتے رہتے تھے۔ قرآن کریم میں ان کے اس مطالبے کا بطور خاص ذکر ہے کہ آسمان سے ہمارے لئے مائدہ (دستر خوان) نازل کیا جائے۔ اُن لوگوں کا بھی ذکر ہے جنہوں نے حضرت عیسیٰؑ پرایمان لانے میں اس حد تک غلو کیا کہ وہ انہیں الوہیت کے درجے تک لے آئے۔ قیامت کے روز حضرت عیسیٰؑ تو یہ کہہ کر بری الذمہ ہوجائیں گے کہ میں نے تو ان سے یہ نہیں کہا تھا کہ مجھے یا میری والدہ کو اللہ کے علاوہ دو اور خدا بناؤ، اگر میں کہتا تو آپ اس کو جان لیتے، آپ میرے دل کا حال جانتے ہیں میں نہیں جانتا، (یہ ان ہی لوگوں کا من گھڑت افسانہ ہے اب) اگر آپ ان کو عذاب دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کردیں تو آپ زبردست ہیں اور دانا ہیں۔ یہ سورہ اس آیت پر ختم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو سچائی نفع دیتی ہے، ان کے لئے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں، یہی بڑی کامیابی ہے۔ آسمانوں، زمین اور تمام مخلوقات کی بادشاہی اللہ کے لئے ہے اور وہ ہرچیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔
یہاں سے سورۂ انعام شروع ہوتی ہے۔ سورۂ مائدہ میں تو فروعی احکام زیادہ تھے، اس سورہ میں اصولی مضامین زیادہ ہیں۔ اس کا آغاز اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا اور اس کی بے مثال قدرت کے بیان سے ہوا، ساتھ ہی ان لوگوں کا بھی ذکر کیا گیا جو حق کی نشانیاں تو دیکھتے ہیں لیکن ان سے منہ موڑ لیتے ہیں، ان کو آگاہ کیا گیا کہ بہت جلد انہیں پتہ چل جائے گا جس چیز کا وہ مذاق اڑاتے ہیں، کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے ہم کتنی ایسی قوموں کو ہلاک کرچکے ہیں جن کو ہم نے ملک میں ایسا اقتدار عطا کیا تھا جو تمہیں نہیں دیا گیا۔ چند آیات کے بعد فرمایا کہ ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی عظمت وجلالت کا بیان ہے، اس کے بعد سلسلۂ کلام ماقبل سے مربوط ہوا اور فرمایا کہ اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹی تہمت باندھے یا اللہ کی آیات جھٹلائے۔ ظالم کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔ آگے دنیا کی بے سرو سامانی کا تذکرہ ہے اور یہ بتلایا گیا ہے کہ دنیوی زندگی (کی عیش و عشرت) کھیل اور تماشے کے سوا کچھ نہیں، اور یقیناً آخرت کا گھر ہی ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں، کیا تم (یہ حقیقت) نہیں سمجھتے۔
چند آیات کے بعد فرمایا کہ ہم نے آپ سے پہلے بہت سی قوموں کے پاس رسول اسی لئے بھیجے تھے کہ وہ خوش خبری دینے والے اورڈرانے والے ہوں، جو لوگ ایمان لے آئے اور جنہوں نے اچھے اعمال کئے نہ ان پر کسی قسم کا خوف ہے اور نہ وہ غم زدہ ہوں گے اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہ اپنی نافرمانیوں کے نتیجے میں سزا ضرور بھگتیں گے۔
اس سورہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے کہا کہ کیا آپ بتوں کو معبود قرار دیتے ہیں، میں تو آپ کو اور آپ کی قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھتا ہوں، اس طرح ہم نے ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کے عجائبات دکھلائے تاکہ وہ کامل یقین کرنے والوں میں سے ہوجائیں، حضرت ابراہیم ؑ نے رات کی تاریکی میں ستاروں کو دیکھا، چاند کو دیکھا کہ وہ تو صبح ہوتے ہی چھپ جاتے ہیں، سورج کو دیکھا کہ وہ رات ہوتے ہی غروب ہوجاتا ہے، تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ چاند سورج ستارے جو چھپ جاتے ہیں خدا نہیں ہوسکتے، میں نے تو یکسو‘ ہوکر اپنا رخ اس ہستی کی طرف کرلیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ آگے فرمایا یہ تھی وہ حجت جو ہم نے ابراہیم ؑکو ان کی قوم پر عطا کی تھی، ہم جسے چاہتے ہیں بلند مرتبہ عطا کردیتے ہیں۔ اس واقعے کے بعد بہت سے انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر ہے اور ان کی ہدایتوں کا بیان ہے۔
ساتویں پارے کے آخر میں فرمایا کہ یہ ہے وہ ہدایت؛ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ قرآن کریم کے متعلق ارشاد فرمایا کہ یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے بڑی مبارک ہے، آپ سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے تاکہ مکہ والوں کو اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو آپ ڈرائیں اور جو لوگ آخرت کو ماننے والے ہیں وہ اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں، اس کے بعد پارے کے اختتام پر عجائبات عالم کا بیان ہے جو اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے نتیجے میں ظاہر ہوئے، پھر فرمایا کہ اب تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانیاں آچکی ہیں، جو بصیرت والا ہے وہ اپنا ہی نفع کرے گا اور جو اندھا ہے وہ خود نقصان اٹھائے گا۔