Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

بچوں کو روزہ رکھنے کی تربیت دیں، بڑے ہوکر وہ اس پر قائم رہیں گے

Updated: March 01, 2025, 5:46 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:’’ہم عاشورہ کے دن روزہ رکھتے اور اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے تھے، اور جب وہ روتے تو ہم ان کے لئے کھلونے بنا کر ان کا دل بہلانے کی کوشش کرتے، یہاں تک کہ افطار کا وقت ہو جاتا۔‘‘ (مسلم)۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

بچپن کی تربیت اور عادات کا انسان کی پوری زندگی پر گہرا اثر پڑتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جو لوگ بڑے ہوکر روزہ نہیں رکھتے یا اس معاملے میں غفلت اور تساہل سے کام لیتے ہیں ، اگر ان کی اس عادت کی وجوہات تلاش کی جائیں تو ایک اہم سبب یہ سامنے آتا ہے کہ ان کے بچپن میں روزہ رکھنے کی تربیت نہیں ہوئی۔ ان کے والدین یا سرپرستوں نے انہیں اس عبادت کی طرف مائل کرنے اور اس کی اہمیت سمجھانے میں کوتاہی کی، جس کے نتیجے میں وہ بڑے ہوکر بھی اس کی عادت نہیں بنا سکے۔ اگر بچپن میں ہی بچوں کو بتدریج روزہ رکھنے کی ترغیب دی جائے، انہیں اس کے فضائل سے آگاہ کیا جائے اور عمر و صحت کو سامنے رکھتے ہوئے روزے رکھوا کر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے، تو وہ بڑے ہوکر بھی اس کا التزام کرتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ والدین اور سرپرست بچپن سے ہی اس حوالے سے خصوصی توجہ دیں تاکہ ان کے بچے بالغ ہوکر دین کے بنیادی احکام پر عمل کرنے والے بنیں۔ 
 بچوں کو عبادات کی عادت ڈالنے اور دینی فرائض کا پابند بنانے کے حوالے سے ایک اہم حدیث ملتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو (نہ پڑھنے پر) ان کی اصلاح کے لیے سختی کرو، اور ان کے سونے کے بستروں کو الگ کر دو۔ ‘‘ (ابو داؤد) یہ حدیث اگرچہ نماز کے بارے میں ہے لیکن اس سے عمومی اصول یہ معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کو دینی فرائض کی عادت ڈالنے کے لئے بچپن سے ہی تربیت دینی چاہئے۔ روزے کے بارے میں بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے بچوں کو روزے کی مشق کرواتے تھے۔ جیساکہ حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :’’ہم عاشورہ کے دن روزہ رکھتے اور اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے تھے، اور جب وہ روتے تو ہم ان کے لئے کھلونے بنا کر ان کا دل بہلانے کی کوشش کرتے، یہاں تک کہ افطار کا وقت ہو جاتا۔ ‘‘ (مسلم)

یہ بھی پڑھئے:رمضان ڈائری: دست طلب بڑھاؤ کہ رمضان آ‌گیا

یہ روایت اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام بچپن ہی سے اپنے بچوں کو روزے کی مشق کرواتے تھے تاکہ بڑے ہوکر وہ اس کی عادت بنا سکیں۔ اس لئے والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو تدریجاً روزے کی ترغیب دیں اور ان کی تربیت کا خاص خیال رکھیں۔ اسلام میں نماز، روزہ اور دیگر شرعی احکام کی فرضیت اور ان کی پابندی کا دار و مدار عقل و بلوغت پر ہے۔ یعنی جب تک کوئی شخص عاقل اور بالغ نہ ہو، اس پر شرعی احکام لازم نہیں ہوتے، لیکن جیسے ہی وہ بالغ ہو جاتا ہے، اس پر دین کے تمام فرائض کی پابندی واجب ہو جاتی ہے۔ بلوغت کا تعین مخصوص علامات سے ہوتا ہے، اور اگر کوئی علامت ظاہر ہو جائے تو وہ شخص شرعی طور پر بالغ سمجھا جاتا ہے۔ یہ علامات لڑکوں اور لڑکیوں میں مختلف ہو سکتی ہیں۔ اگر کسی لڑکے یا لڑکی میں بلوغت کی کوئی علامت ظاہر نہ ہو، تو اسلامی شریعت میں ایک مقررہ عمر کو بلوغت کی حد مانا گیا ہے۔ قمری (ہجری) سال کے حساب سے جب کسی لڑکے یا لڑکی کی عمر پندرہ سال مکمل ہو جاتی ہے، تو وہ شرعی طور پر بالغ قرار دیئے جاتے ہیں ، چاہے ان میں کوئی علامت ظاہر ہوئی ہو یا نہیں۔ اس کے بعد وہ دین کے تمام فرائض کے مکلف ہو جاتے ہیں ، جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ (اگر صاحب نصاب ہوں ) اور دیگر شرعی ذمہ داریاں۔ لہٰذا والدین اور سرپرستوں کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو بلوغت سے پہلے ہی دینی احکام کا عادی بنائیں ، تاکہ بالغ ہونے کے بعد وہ ان پر بآسانی عمل کر سکیں۔ 
 یہ انتہائی افسوسناک حقیقت ہے کہ کچھ والدین یا سرپرست دین سے اس قدر بے پرواہوتے ہیں کہ وہ نہ صرف خود عبادات میں کوتاہی کرتے ہیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی دین سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ان کے بچے جوش و جذبے سے روزہ رکھنے کا ارادہ کر لیں یا کچھ روزے رکھ بھی لیں ، تو بجائے اس کے کہ وہ ان کی حوصلہ افزائی کریں ، وہ انہیں منع کرنے لگتے ہیں۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ زبردستی ان کا روزہ تڑوا دیتے ہیں ، محض اس بنیاد پر کہ بچے کمزور ہو جائیں گے یا انہیں بھوک برداشت کرنا مشکل ہوگا۔ حالانکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق بچوں کو تدریجاً دینی فرائض کی عادت ڈالنی چاہئے تاکہ وہ بالغ ہوکر ان احکام کو بخوشی اپنا سکیں۔ ایسے والدین کا یہ رویہ نہ صرف بچوں کی دینی تربیت میں رکاوٹ بنتا ہے بلکہ ان کے اندر عبادات کے لئے جو فطری لگاؤ پیدا ہو رہا ہوتا ہے، اسے بھی ختم کر دیتا ہے، جو آگے چل کر انہیں دین سے بالکل غافل بنا سکتا ہے۔ 
 موضوع کی مناسبت سے یہاں اس نکتے کو بیان کرنا بہت مفید ہے کہ بچوں کی دینی اور اخلاقی تربیت کے لئے مختصر تربیتی کیمپ کا نظام نہایت مؤثر اور کارگر ثابت ہوتا ہے۔ ان کیمپوں میں بچوں کو نماز، روزہ، قرآن کریم کی تلاوت، اسلامی آداب اور دیگر بنیادی دینی احکام سے عملی طور پر روشناس کرایا جاتا ہے۔ اس طرح کے ماحول میں رہ کر بچے نہ صرف دین کی بنیادی تعلیمات سیکھتے ہیں بلکہ ان کے دل میں عبادات کا شوق اور اسلامی طرزِ زندگی کو اپنانے کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ مختصر عرصے کے یہ کیمپ والدین اور اساتذہ کے لئے بھی سہولت فراہم کرتے ہیں کہ وہ بچوں کی دینی تربیت کو مؤثر انداز میں منظم کر سکیں۔ اگر ان کیمپوں کو دلچسپ اور عملی سرگرمیوں کے ساتھ ترتیب دیا جائے، تو بچے نہ صرف شوق سے ان میں حصہ لیتے ہیں بلکہ سیکھے گئے اسباق کو اپنی روزمرہ زندگی میں بھی اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لئے والدین اور تعلیمی اداروں کو چاہئے کہ وہ وقتاً فوقتاً ایسے تربیتی کیمپوں کا انعقاد کریں تاکہ بچوں میں دینی شعور اجاگر ہو اور وہ ایک بہترین مسلمان اور نیک سیرت انسان بن سکیں۔ 
 خلاصہ یہ ہے کہ بچوں کو روزہ رکھنے کی عادت ڈالنے کے لئے والدین اور سرپرستوں کو ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ اگر بچپن میں اس طرح روزے کی تربیت دے دی جائے تو وہ بڑے ہوکر شوق سے روزہ رکھیں گے اور اپنے ساتھ والدین کے لئے بھی سعادت دارین کو یقینی بنائیں گے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK