Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

شب قدر کی عظمت انسانی فہم و ادراک سے ماورا ہے

Updated: March 26, 2025, 10:32 AM IST | Sayyed Qutub | Mumabi

یہ رات نوعِ انسانی کی زندگی کی ہزارہا راتوں سے بہتر ہے! ہزاروں مہینے اور ہزارہا سال گزر جاتے ہیںاور حیاتِ انسانی پر اُن کے اثرات اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں پڑتے جتنے اِس مبارک اور سعید رات نے انسانی زندگی پر ڈالے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

سورۃ القدر میں اُس موعودرات کا تذکرہ ہے جس کا پوری کائنات نے فرحت و انبساط اور دعا و ابتہال کے ساتھ استقبال اور ریکارڈ کیا۔ یہ ملائِ اعلیٰ اور زمین کے مابین ربط و اتصال کی رات تھی۔ یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر نزولِ قرآن کے آغاز کی رات تھی۔ یہ اُس عظیم واقعے کی رات تھی، جس کی طرح کا کوئی واقعہ عظمت و اہمیت، حقائق کی طرف رہنمائی اور حیاتِ انسانی پر اپنے اثرات کے لحاظ سے زمین نے مشاہدہ نہ کیا تھا۔ ایسا واقعہ جس کی عظمت کو انسانی ادراک پوری طرح پا نہیں سکتا!
’’ بے شک ہم نے اُسے شب ِ قدر میں نازل کیا ہے! اور تم کیا جانو! شب ِقدر کیا ہے! شب ِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔‘‘(القدر : ۱-۳)قرآنی آیات، جو اس واقعے کو بیان کرتی ہیں، گویا نور سے جگمگ جگمگ کر رہی ہیں! وہ اللہ کے نور کو جو پُرسکون، خوش منظر، محبت سے بھرپور اور کائنات میں جاری و ساری ہے اور جو قرآن میں پھیلا ہوا ہے، ہر سُو بکھیر رہی ہیں!  ’’بے شک ہم نے اُسے ’شب ِ قدر‘ میں نازل کیا ہے!‘‘
اللہ کے نور کے ساتھ فرشتوں اور روح الامین کے نور اور پوری رات زمین اور ملائِ اعلیٰ کے مابین اُن کی آمدورفت سے بھی یہ آیات معمور ہیں:’’ فرشتے اور روح الامین اس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم کو لے کر اُترتے ہیں۔‘‘ 
اسی کے ساتھ یہ آیات صبح کے نور کو، جو نورِ وحی اور نورِ ملائکہ سے ہم آہنگ ہے اور سلامتی کی روح کو جو پوری کائنات کی ارواح میں جاری و ساری ہے، پیش کرتی ہیں: ’’سرتا سر امن وسلامتی (کی رات!) یہ صبح کے طلوع ہونے تک۔‘‘ (القدر:۵)
جس رات کا اِس سورہ میں ذکر ہے، یہ وہی رات ہے جس کا ذکر سورئہ دخان میں اِس طرح ہے:
’’ بے شک ہم نے اِس (قرآن) کو ایک بابرکت رات میں اُتارا ہے۔ یقیناً ہم (قرآن کے ذریعے) لوگوں کو خبردار کرنے والے ہیں۔ اس رات میں تمام حکیمانہ امور ہمارے حکم سے طے ہوتے ہیں۔ بے شک ہم ہی رسول بھیجنے والے ہیں۔ یہ تمھارے رب کی رحمت کے باعث ہے۔ یقینا وہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘ (الدخان :۳-۶)
یہ معروف ہے کہ شب ِ قدر رمضان ہی کی ایک رات ہے، جیساکہ سورئہ بقرہ میں ہے:
’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا جو انسانوں کے لیے ہدایت ہے اور جس میں ہدایت کے واضح دلائل اور حق و باطل میں فرق کرنے والی واضح تعلیمات ہیں۔‘‘ (البقرہ :۱۸۵) 
یعنی رمضان المبارک کی اِس رات میں قرآن مجید کے نزول کی ابتدا ہوئی تاکہ آپ اُس کی تعلیمات لوگوں تک پہنچائیں۔ ابنِ اسحاق کی روایت ہے کہ سب سے پہلے سورئہ علق کی ابتدائی آیات کی وحی رمضان المبارک کے مہینے میں ہوئی، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی عبادت کے لئے غارِ حرا میں خلوت گزیں تھے۔
 اس رات کا نام لَیْلَۃُ الْقَدْرِ کیوں ہے؟
 ’قدر‘ کا ایک مفہوم ہے: ’منصوبہ بندی اور   تدبیرِ امر‘۔ دوسرا مفہوم ہے ’قدروقیمت اور مقام‘ اور دونوں ہی مفہوم اس عظیم واقعے، قرآن، وحی اور رسالت کے سلسلے میں صحیح ہیں۔ کائنات میں اس سے زیادہ عظیم کوئی واقعہ نہیں، نہ اس سے زیادہ کوئی واقعہ بندوں کی تقدیر اور تدبیرِ امر سے متعلق ہے۔
’شب ِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے‘ قرآن مجید میںاس طرح کے مواقع پر عدد سے کوئی مخصوص تعداد مراد نہیں ہوتی! اس سے صرف کثرت کا اظہار مقصود ہوتا ہے، یعنی یہ رات نوعِ انسانی کی زندگی کی ہزارہا راتوں سے بہتر ہے! ہزاروں مہینے اور ہزارہا سال گزر جاتے ہیںاور حیاتِ انسانی پر اُن کے اثرات اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں پڑتے جتنے اِس مبارک اور سعید رات نے  انسانی زندگی پر ڈالے۔
اِس رات کی عظمت کی حقیقت انسانی فہم و ادراک سے ماورا ہے۔ ’’اور تم کیا جانو! شب ِ قدر کیا ہے‘‘۔ اس رات کے سلسلے میں جو افسانوی داستانیں عوام میں پھیلی ہوئی ہیں، اس کی عظمت کا اُن سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ اس لئے عظیم ہے کہ اسے قرآن کے،جس میں عقیدہ، فکر، قانون اور زندگی کے وہ تمام اصول و آداب ہیں جن سے زمین اور انسانی ضمیر کی سلامتی وابستہ ہے، نزول کے آغاز کے لئے منتخب کیا گیا۔ یہ اس لئے بھی عظیم ہے کہ اس میں ملائکہ بالخصوص جبریل علیہ السلام اپنے رب کے اِذن کے ساتھ قرآن لے کر زمین پر نازل ہوئے۔ اور پھر یہ فرشتے کائنات کے اس جشنِ نوروز کے موقع پر زمین و آسمان کے مابین پھیل گئے۔ [یہ] سورہ اِن امور کی عجیب و غریب انداز میں تصویر کشی کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: آج رائلز اور نائٹ رائیڈرس کے درمیان گھمسان

آج جب ہم ان طویل صدیوں کے پیچھے سے اِس بزرگ اور سعید رات کی طرف دیکھتے ہیں اور اس عجیب جشنِ نوروز کا تصور کرتے ہیں جس کا مشاہدہ اُس رات زمین نے کیا اور اُس رات میں جس امر کی تکمیل ہوئی، اس کی حقیقت پر غور کرتے ہیں اور زمانے کے مختلف مراحل، زمین کے واقعات اور قلوب و اذہان کے تصورات و افکار پر اس کے دور رس اثرات کو دیکھتے ہیں تو ہم واقعتاً ایک عظیم امر کا مشاہدہ کرتے ہیں اور قرآن مجید نے ’’اور تم کیا جانو! شب ِ قدر کیا ہے!‘‘ کہہ کر اُس رات کی عظمت کی طرف جو اشارہ کیا ہے، اُسے ہم تھوڑا سا سمجھ پاتے ہیں۔اِس رات میں تمام حکیمانہ امور کا فیصلہ ہوا۔ اس رات میں قدریں، بنیادیں اور پیمانے وضع ہوئے۔ اس میں افراد کی قسمتوں سے بڑھ کر قوموں، نسلوں اور حکومتوں کی قسمتوں کا فیصلہ ہوا بلکہ اس سے بھی زیادہ عظیم امر، حقائق، طور طریق اور قلوب کی قدریں طے ہوئیں۔
نوعِ انسانی اپنی جہالت و بدبختی سے اِس شب کی قدروقیمت، اس واقعہ ’وحی‘ کی حقیقت اور اس معاملے کی عظمت سے غافل ہے، اور اس جہالت و غفلت کے نتیجے میں وہ اللہ کی بہترین نعمتوں سے محروم ہے۔  ہم اہلِ ایمان مامور ہیں کہ اِس یادگار واقعے کو فراموش نہ کریں، نہ اُس سے غافل ہوں۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری ارواح میں اس یاد کو تازہ رکھنے کا بہت آسان طریقہ مقرر فرما دیا تاکہ ہماری ارواح اُس رات سے اور جو کائناتی واقعہ ’ وحیِ آسمانی‘ اس میں رونما ہوا، اس سے ہمیشہ وابستہ رہیں۔ آپ نے ہمیں اس بات پر اُبھارا کہ شب ِ قدر کو ہم ہر سال رمضان کے آخری عشرے کی راتوں میں ڈھونڈیں اور اس رات میں جاگ کر اللہ کی عبادت کریں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK