• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

یوپی اور ہماچل، دومختلف حکومتوں کا ایک طرز کا حکم ؟ کس کیلئے اور کس کیخلاف؟

Updated: September 30, 2024, 5:10 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai

دکانوں اور ہوٹلوںپر مالکان کا نام نمایاں طورپر لکھنے کا حکم دونوں حکومتوںنے جاری کیا ہے، یہ بظاہر کوئی غیر مناسب حکم نہیں ہے لیکن سوال اس کے پس پشت ذہنیت کا ہے!

Even during the Kannur Yatra, the UP government made it mandatory for the fruit sellers to write their names, now the same has been scrapped and the Himachal government seems to be supporting it. Photo: INN
کانوڑ یاترا کے دوران بھی یوپی حکومت نے پھل فروشوں کیلئے نام لکھنا لازمی کیا تھا، اب اسی کو جھاڑ پونچھ کرپھر لایا گیا ہے جس کی تائید ہماچل کی حکومت بھی کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ تصویر : آئی این این

اتر پردیش اورہماچل پردیش میں دو مختلف حکومتیں ہیں۔ ایک ریاست میں وہ جماعت بر سراقتدار ہےجس کا بنیادی ایجنڈا اکثریت پسندی ہےاورجو سیکولرازم پریقین نہیں رکھتی۔ دوسری ریاست میں اس جماعت کی حکمرانی ہےجس کا بنیادی ایجنڈااقلیت پسندی ہےاورجو سیکولرازم میں یقین رکھتی ہے۔ پہلی جماعت عمل سےبھی اپنے ایجنڈے اور نظریے کی تائید کرتی ہےجبکہ دوسری پارٹی اپنے نظریے اور ایجنڈےکی عملی تائید میں کافی حد تک کمزور نظرآتی ہے حالانکہ اس کا دعویٰ اکثر اس کے برعکس ہوتا ہے۔ اتر پردیش میں میں کانوڑ یاترا کے دوران کھانے کے اسٹالوں ، ہوٹلوں اور ڈھابوں پرمالکان کے نام لکھنے کے جو احکامات دئیے گئے تھے، وہ احکامات ایک ایسی حکومت دے سکتی ہےجس کا مقصدہی اقلیت کو نشانہ بنا کر سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہو ا اور جس کی سیاسی دکان ہی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف بیانیہ پرچلتی ہولیکن ایسا کوئی حکم ایسی حکومت کا کوئی وزیرکیوں دے سکتا ہےجس کی سیاسی بنیاد ہی سیکولرازم ہو اور جس کا دعویٰ (کم از کم) اقلیت نوازی کا رہا ہے۔ 
 ہماچل پردیش میں ایسی ہدایت جاری کی گئی ہے۔ ریاست کےتعمیرات عامہ اورشہری ترقیات کے وزیروکرمادتیہ سنگھ نے ریاست میں دکانوں اور ہوٹلوں پرمالکان کی شناخت ظاہر کرنے کیلئے نمایاں طورپر نام لکھنے کا فرمان جاری کیا ہے۔ یہ ایسا ہی حکم ہے جویوپی میں پہلے کانوڑ یاترا کے دوران جاری کیاگیا اور بعد میں اس کی توسیع کرتے ہوئےاس کا اطلاق عام دکانوں ، ہوٹلوں اور ڈھابوں پر بھی کیاگیا۔ یادرہےکہ وکرما دتیہ وہ لیڈر ہیں جو لوک سبھا انتخابات میں کنگنا راناوت کے خلاف میدان میں تھے۔ وہ کنگنا راناوت جنہیں اقلیت، کسان اورنوجوانوں سے متعلق سرکار کی متنازع پالیسیوں کی حمایت پر ہی پارٹی میں شمولیت انعام کے طورپر ملی ہے۔ وہ کنگنا جویہاں تک کہہ چکی ہیں کہ ملک کو آزادی ۲۰۱۴ء میں ملی۔ انہی کے خلاف وکرما دتیہ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ الیکشن کےد وران وکرما دتیہ نے کنگنا راناوت کے خلاف زوردار مہم چلائی تھی لیکن نتائج برعکس آئے۔ 

یہ بھی پڑھئے:آسام کا حراستی مرکز عالمی سطح پر ملک کی رُسوائی کا باعث بن سکتا ہے!

کنگنا کی مخالفت کی شکل میں وکرما دتیہ نے دراصل بی جےپی اور مرکزی حکومت کی ان تمام متنازع پالیسیوں کی مخالفت کی تھی جن کے خلاف پورا اپوزیشن تھا۔ اب لوک سبھا انتخابات میں کنگنا سے شکست کے بعد وکرما دتیہ سنگھ نے یوپی حکومت کی پیروی میں جو ہدایت جاری کی ہے، اس کا مطلب صاف طورپر یہی ہے کہ وہ پس پردہ بی جے پی کی پالیسیوں سے متاثر بھی ہیں، ان کے حامی بھی ہیں اوراپنی ریاست میں ان پالیسیوں کا نفاذ بھی چاہتے ہیں۔ جو کسی متنازع اورغیر منصفانہ بات کا حامی رہے اور وہ اس وقت اس کی حمایت میں کھل کر بولنے کی ہمت نہ جٹاپارہا ہوتووہ ایسے موقع کی تلاش میں ہوتا ہے جس میں وہ کھل کر اپنی رائے ظاہر کر سکے۔ ہماچل میں شملہ اور منڈی کی مسجدوں کے  خلاف ہندوتوا تنظیمیں جو مہم چلا رہی ہیں اور اس میں مسلمان جو شملہ کی مسجدکے کچھ منزلوں کو منہدم کرنے پر رضامند ہوئے ہیں ، اس میں وکرمادتیہ کو اپنی اکثریت نواز ذہنیت کے اظہار کا موقع مل گیا۔ انہیں معلوم ہےکہ یہی موقع ہے جب اس طرح کا کوئی حکم وہ بلا خوف اوربلا دباؤجاری کرسکتے ہیں۔ حالانکہ کانگریس اعلیٰ کمان نے ان کی سرزنش کی اور ان سے وضاحت طلب کی ہے لیکن یہ ثابت ہوگیا کہ ہماچل میں وکرمادتیہ اکثریت نواز ذہن رکھتے ہیں جو کانگریس کے مرکزی تصور کے خلاف ہے۔ بعید نہیں کہ انہوں نے جو حکم جاری کیا ہے اس کی کنگنا راناوت بھی کسی موقع پرحمایت کر دیں۔ رہی بات اتر پردیش کی تو وہاں ایسا کوئی حکم جاری کرنا بی جے پی حکومت کے معمولات میں شامل ہے۔ ذبیحہ خانوں کی بندش سے لے کر مسلمانوں کے کاروبار، املاک اور شناخت مسلسل یوگی حکومت کے نشانے پر ہیں ۔ مسلمانوں کو ایسے امور کا پابند کرنے میں جن میں بظاہر کوئی قباحت نہیں ، وہ طریقہ اپنایا جا رہا ہے جس پر سوالات اٹھنا لازمی ہے۔ اب یہی دیکھئے کہ مہینوں قبل حلال سرٹیفکیٹ کا معاملہ اٹھایا گیا اورایسی مصنوعات کی فروخت پابندی لگا دی گئی جن پر’حلال ‘لکھا ہو، پھر ان اداروں کے خلا ف قانونی چارہ جوئی کی گئی اور ان اداروں کوبھی ہراساں کیاگیا جو یہ سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہوں۔ حالانکہ ’حلال سرٹیفکیٹ ‘میں ایسا کچھ نہیں تھاجوقانون کی  زد میں آتا ہو، جس سے کسی کی دل شکنی ہوتی ہو، کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہو۔ یہ سرٹیفکیٹ مسلمانوں کیلئے تھا اور کچھ مخصوص مصنوعات کیلئے ہی ایسے سرٹیفکیٹ کی ضرورت تھی۔ 
 دکانوں اور ہوٹلوں پر ناموں کی تختی آویزا ں کرنا کوئی غیر مناسب حکم نہیں ہے، لیکن کسی خاص موقع پر ایسے کسی حکم سے پوری ذہنیت سامنے آجاتی ہے۔ پھراس کے مضمرات کیا ہوتے ہیں ؟ اسے بہ آسانی فرقہ وارانہ رخ پر موڑدیاجاتا ہے، اسے سیاسی بحث کا موضوع بنایاجاتا ہے۔ معاشرے میں بے چینی پھیلتی ہے، عوام گروہوں میں منقسم ہوتے ہیں اور کسی موقع پریہ ہجومی تشدد کی شکل میں نا خوشگوار واقعے کا سبب بھی بنتے ہیں بلکہ بنے ہیں ۔ سیاسی اورانتخابی مفاد پر نظر رکھنے والی کوئی پارٹی یا کوئی نام نہاد سیکولر لیڈر ان مضمرات غور کرےگا، اس کی امید کم ہی ہے۔ 
  اگریہ ظاہر ہو جائے کہ ایک ہوٹل ’عمران ‘ کا ہے اورایک ’وشوناتھ ‘ کا تو اس میں کس کا فائدہ اور کس کا نقصان ہے؟مقامی طور پر تو ’عمران ‘ اور وشو ناتھ ‘ایک دوسرے کو پہلے سے جانتے اور پہنچانتے ہیں، ان کے صارفین بھی ان سے واقف ہیں، پھر سب کو ایک دوسرے کے مدمقابل لاکھڑا کرنے والا یہ حکم کس کیلئے ہے اور کس کے خلاف ہے ؟ در اصل، موجودہ حالات میں، ایسا کوئی حکم عوام کے اجتماعی ضمیر کیلئے ہی ناقابل قبول ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK