جنگل کیا ہے یہ آپ اس مضمون میں پڑھیں گے۔ یہ سیاست کی ضرورت ہے۔ عوام کو شیر و شکر دیکھ کر جنگل اُگانے اور مسلط کرنے کی تیاری سیاست کا پرانا منشور ہے۔ سیاست نے ہمیشہ بانٹا ہے۔ عوام کو متنبہ رہنا چاہئے۔
EPAPER
Updated: December 14, 2024, 1:20 PM IST | Shahid Latif | Mumbai
جنگل کیا ہے یہ آپ اس مضمون میں پڑھیں گے۔ یہ سیاست کی ضرورت ہے۔ عوام کو شیر و شکر دیکھ کر جنگل اُگانے اور مسلط کرنے کی تیاری سیاست کا پرانا منشور ہے۔ سیاست نے ہمیشہ بانٹا ہے۔ عوام کو متنبہ رہنا چاہئے۔
گزشتہ ہفتے دو روزہ دورہ پر مَیں احمد آباد میں تھا۔ یونیسکو نے ۲۰۱۷ء میں اس شہر کو، دُنیا کے اُن شہروں میں شامل کیا ہے جہاں غیر معمولی اہمیت کے آثار قدیمہ اب بھی دعوت نظارہ دیتے ہیں ۔ کم و بیش چھ سو سال پہلے سلطان احمد شاہ (۱۳۸۹ء تا ۱۴۴۲ء) کے قائم کردہ اس شہر میں ایسا بہت کچھ ہے جو اس کی تاریخی حیثیت کو قابل رشک بناتا ہے۔ورلڈ ہیریٹیج سٹی کا اعزاز پانے کیلئے احمد آباد کے ساتھ ممبئی اور دہلی بھی بیقرار تھے مگر قرعہ ٔفال سابرمتی کے مشرقی ساحل پر آباد اِس شہر کے نام نکلا ۔ اسے اتفاق ہی کہا جاسکتا ہے کہ ۲۰۰۲ء کے بعد سرزمین گجرات پر قدم رنجہ ہونے کا میرا یہ پہلا موقع تھا اس لئے آثار قدیمہ سے زیادہ مجھے یہ دیکھنے اور سمجھنے سے دلچسپی تھی کہ ۲۰۰۲ء کے وہ بھیانک واقعات اہل گجرات کی معاشرت پر کس حد تک اثر انداز ہوئے ہیں جو عالمی اخبارات کی سرخیوں تک پہنچ گئے تھے اور جن کے سبب ملک کے اجتماعی ضمیر کو ٹھیس لگتی رہی تھی۔
مگر احمد آباد ویسا ہی ملا جیسا ۲۰۰۲ء کے پہلے تھا۔ چونکہ کاروباری شہر ہے اس لئے کاروبار ہی کو اہمیت و اولیت حاصل ہے، کسی بھی طرح کے بھید بھاؤ کو نہیں ۔ مسلمان تاجروں کی دکانوں پر غیر مسلم گاہک دکھائی دیئے اور غیر مسلم تاجروں کی دکانوں پر مسلم گاہکوں کی چہل پہل نظر آئی۔ دراڑ جیسی دراڑ، بظاہر، کہیں نہیں تھی۔ کم از کم، اس چشم گناہ گار نے تو ایسا کچھ نہیں دیکھا۔ اُردو کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس شہر کو اگر ضیاء الدین دیسائی، وار ث علوی، مظہر الحق علوی، محمد علوی اور عمر کی ۹۲؍ بہار دیکھنے والے پروفیسر محی الدین بامبے والا جیسی شخصیات نے شہرت بخشی تو یہیں جینت پرمار بھی اُردو کی گنگا جمنی حیثیت کی شہادت دیتے رہے اور اب بھی قلم کاغذ کو اپنی پہچان بنائے ہوئے ہیں ۔ مختصر بحر کی ایک غزل میں اُنہوں نے شاید اپنے ہی شہر کے بارے میں کہا تھا:
وہی ندی ہے کنارہ ہے وہی/ لہر پر ہنس کا جوڑا ہے وہی
وہی گلیاں ہیں وہی رستے ہیں / یار اُس شہر کا نقشہ ہے وہی
جینت کو بھی احمد آبادیوں کے باہمی رابطوں اور قدیم تہذیبی و معاشرتی رشتوں پر پختہ یقین ہے اسی لئے اُن کا یہ مشورہ کافی معنی خیز ہے کہ’’ اکثر نئے لباس میں آتی ہے چاندنی/ جنگل ہٹا کے دیکھ ذرا میرے ہم نشیں ‘‘۔ اِس مشورہ پر مَیں نے بھی احمد آباد کو ’’جنگل‘‘ ہٹا کر دیکھنے کی کوشش کی تو چاندنی ہی دکھائی دی۔
یہی چاندنی وطن عزیز کا شناخت نامہ ہے۔ کسی بھی شہر کا رُخ کرلیجئے، اُن شہروں کا بھی جو ماضی میں لہولہان ہوچکے ہیں ، یہ چاندنی چہار سو دکھائی دے گی، اس کا نہ تو اغوا کیا جاسکتا ہے نہ ہی اسے یرغمال بنایا جاسکتا ہے، یہ جس رنگ میں ہے جس روپ میں ہے ہر خاص و عام کو عزیز ہے، سیاست اس کا رنگ بدلنے کی کوشش کرے یا نام بدلنے کی، اس کی فطرت اور خصوصیت کو نہیں بدل سکتی ہے جو برقرار رہتی آئی ہے اور ہمیشہ برقرار رہے گی۔ اِس سرزمین کی مٹی میں ’’ڈھائی اکشر پریم کا‘‘ اس طرح رچا بسا ہوا ہے کہ اچانک جنگل اُگ آئے اور منظرنامہ ڈراؤنا ہوجائے تب بھی کچھ عرصہ بعد سب کچھ ٹھیک ہوجاتا ہے۔ اگلے وقتوں کے لوگ صحیح کہتے تھے کہ لاٹھی مارنے سے پانی جدا نہیں ہوتا۔ چند ہی ثانیوں میں وہ دوبارہ اپنی اصلی حالت پر آجاتا ہے۔ سیاست کی پیدا کردہ مشکلات اپنی جگہ ہیں اور وہ رہیں گی۔ مگر، اس پر غالب ہے احمد آباد کا وہ جذبہ جس کی تاریخ چھ سو سال سے زیادہ پرانی ہے۔ ان چھ صدیوں میں بے شمار نسلیں آئیں اور گئیں ، سابرمتی کا پانی وہی ہے کہ جو تھا ، احمد آباد کی فضا وہی ہے جو تھی اور احمد آبادیوں کا جذبہ وہی جو تھا۔ دراصل یہ پورے ہندوستان کا جذبہ ہے اور اگر سیاست کی پیدا کردہ مشکلات سے نبرد آزما ہونا ہے اور فتح و ظفر حاصل کرنا ہے تو یہ جذبہ اس کیلئے نسخہ ٔ کیمیا ہے۔ اس جذبے کی جتنی زیادہ تبلیغ ہوگی اور اسے جتنا زیادہ عام کیا جائیگا، تفرقہ پسند سیاست کو اُتنی ہی ہزیمت اُٹھانی پڑے گی۔
گزشتہ سال ’’نفرت کے بازار میں محبت کی دکان‘‘ کا نعرہ کافی گونجا تھا۔ اس نعرے کو حیرت انگیز شہرت اس لئے ملی کہ اس میں اُسی جذبے کو فروغ دینے کی کوشش شامل تھی۔ اس نعرے کی قدر کی گئی اور کی جانی چاہئے تھی کہ اس میں جگر ؔ کا وہ پیغام تھا جو آج بھی زبان زد خاص و عام ہے کہ ’’میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے‘‘ مگر یہ مضمون نگار ذاتی طور پر محسوس کرتا ہے کہ محبت کا پیغام سیاسی نعروں کی زینت بن کر نہیں رہ سکتا، اسے دلوں میں موجزن کرنے کیلئے اشتراک باہمی کی ضرورت ہے۔ اس ملک کی ’’دو آنکھیں ‘‘ جب جب اور جتنی بار ایک دوسرے سے مل کر چار ہوں گی تب تب اور اُتنی بار تفرقہ پسند سیاست کو ٹھینگا دکھائیں گی۔ اسی شہر کی ایک روایت جو چھ سو سال پرانی ہے، آج بھی تفرقہ پسند سیاست کیلئے چیلنج بنی ہوئی ہے۔ روایت یہ ہے کہ سلطان احمد شاہ کے مقبرے پر لنگر آج بھی بلا تفریق مذہب و ملت تقسیم ہوتا ہے جسے ’’صوفی کھانا‘‘ بھی کہتے ہیں ۔ بادشاہ کا حکم تھا کہ اُس کی رعایا میں کوئی بھوکا نہ سوئے۔
یہ بھی پڑھئے : مشاعروں کی نظامت باعث ِ ندامت ہوتی جارہی ہے
وقت بدل گیا، زما نہ بدل گیا، حالات بدل گئے، اقتدار بدل گیا اور بدلتا رہا مگر لنگر کی تقسیم کا سلسلہ جاری ہے، شاید ا سلئے کہ بادشاہ جانتا تھا کہ بھوک ہر دور کے انسان کا پیچھا کرے گی اور ہر دور میں ایسے لوگ بہرحال موجود رہیں گے جو دو وقت کی روٹی کا انتظام نہیں کرپائینگے۔ یہ لنگر انہی لوگوں کیلئے ہے۔احمد شاہ کی خصوصیات میں سے ایک تھی اُن کی انصاف پروری۔ اِس مضمون نگار کو یہ واقعہ نیٹ پر پڑھنے کو ملا کہ بادشاہ کے داماد کے ہاتھوں ایک غریب کا قتل ہوا۔ قاضی نے متوفی کے تعلقات کو غیر معمولی جرمانے کی ادائیگی پر راضی پایا۔ ادائیگی ہوئی تو شہزادہ کو رہا کر دیا گیا۔ سلطان احمد شاہ نے اپنے داماد کی رہائی کی سماعت کی اور یہ موقف قائم کیا کہ جرمانے کی سزا کوئی سزا نہیں ہے۔ اُس نے ایک غریب شخص کے قتل کے جرم میں اپنے داماد کو پھانسی دینے کا حکم دے دیا۔ موجودہ دور کو ایسے واقعات کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ اسی میں نئی صلاحیتوں کیلئے موقع ہے، ٹیکنالوجی کی اس دُنیا میں پیغام رسانی کچھ مشکل نہیں رہ گئی ہے۔