• Tue, 22 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اگنی پتھ اسکیم کی مدد سے شہریوں کو آر ایس ایس مسلح کرنا چاہتا ہے

Updated: October 21, 2024, 4:29 PM IST | Subhash Gatade | Mumbai

اگنی ویر کے نام پر فوج میں چار سال کے کنٹریکٹ پر بھرتی کی اسکیم نے کافی تنازعات کو جنم دیا ہے۔ اس کی وجہ سے بی جے پی کو لوک سبھا انتخابات میں کچھ سیٹوں کا نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔

Agniveer was opposed at the national level but the government remained stubborn. Photo: INN
اگنی ویر کی مخالفت ملک گیر سطح پر کی گئی لیکن حکومت اپنی ضد پر اڑی رہی۔ تصویر : آئی این این

اگنی ویر کے نام پر فوج میں چار سال کے کنٹریکٹ پر بھرتی کی اسکیم نے کافی تنازعات کو جنم دیا ہے۔ اس کی وجہ سے بی جے پی کو لوک سبھا انتخابات میں کچھ سیٹوں کا نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔ اس کے باوجود راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اس اسکیم کی حمایت کر رہا ہے۔ حال ہی میں، ایک تنظیم کے زیر اہتمام ایک لیکچر میں، آر ایس ایس سےمتعلق میگزین’آرگنائزر‘ کے ایڈیٹر پرفل کیتکر سے پوچھا گیا کہ کیا ہندوستان میں بھی شہریوں کو اسرائیل جیسے چیلنجوں کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے؟انہوں نے کہا کہ اس مقصد کیلئے اگنی پتھ اسکیم شروع کی گئی ہے، اس اسکیم کے تحت عوام کو فوج کیلئے تیار کیا جا رہا ہے۔ پرفل کیتکر کا بیان اگنی پتھ اسکیم کیلئے پیش کئے گئے سرکاری دلائل سے بالکل مختلف اور ایک نیا نکتہ پیش کرتا ہے۔ 
 اگنی پتھ اسکیم کے حق میں ایک بات کہی جاتی رہی ہے کہ یہ فوج کو زیادہ جوان بنائے گی اور حکومت کیلئے پیسوں کی بچت کرے گی۔ اس اسکیم کے تحت حکومت کیلئے یہ ممکن ہوگا کہ وہ اپنی باقاعدہ فورس میں سے ایک حصے کی چھٹی کرسکے گی اور اس طرح وہ پنشن اور دیگر مراعات کے تحت دی جانے والی رقم کو بچا سکے گی۔ یہ حکومت کیلئے منافع بخش صورتحال ہوگی کیونکہ دفاعی امور کیلئے ہر سال۵؍ لاکھ کروڑ روپے کے بجٹ میں سے اسے اس مد میں نصف سے زائد یعنی۲ء۶؍ لاکھ کروڑ روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیتکر ایسا کیوں کہہ رہے ہیں کہ اندرونی بحران کے دوران اسرائیل جیسی فوجی تربیت حاصل کرنے والے اگنی ویروں کی مدد لی جائے گی؟یقیناً یہ ایک متنازع فہم ہے۔ اسرائیل اپنے ہی فلسطینی شہریوں کے ساتھ دوسرے درجے کا سلوک کر رہا ہے۔ اس پر بین الاقوامی عدالت میں ’نسل کشی جیسی تباہی پھیلانے‘ کا الزام لگایا گیا ہے، لیکن سنگھ کے سینئر عہدیداران اس کی تعریف کر رہے ہیں۔ 
  یہ اور بات ہے کہ کئی اہم تجزیہ نگار’ اگنی پتھ‘ اسکیم کے حوالے سے اس طرح کی باتیں پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ یہ کس طرح سے ہندوستانی سماج کو عسکریت پسند بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ ایچ ڈی کمارا سوامی نے ایک بار اس منصوبے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ہندوستانی فوج کو ’آر ایس ایس‘ کے کنٹرول میں لانے کا منصوبہ ہے۔ پرفل کیتکر نےجو انکشاف کیا ہے، اس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ بہت سارے سبکدوش فوجی افسران اور دفاعی ماہرین کے ذریعہ اس اسکیم پر سوالات اٹھانے کے باوجود اس اسکیم کو جاری رکھنے میں حکومت کا رویہ ضدی اور اڑیل کیوں ہے؟ یقیناًیہ بلا وجہ نہیں ہے۔ اس کے پیچھے ہندوتوا بالادستی کے نظریے سے چلنے والی موجودہ حکومت کا ایک وسیع تر ایجنڈا کام کر رہا ہے۔ اپنے آغاز ہی سے، سنگھ لوگوں کو مسلح کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ انہیں ’ دوسرےمذہب‘ کے خلاف مؤثر طریقے سے استعمال کیا جا سکے۔ ۳۰ء کی دہائی سے آر ایس ایس کی صفوں میں ہندوؤں کی عسکریت پسندی کی باتیں اُٹھ رہی تھیں۔ 

یہ بھی پڑھئے:ہریانہ اور جموں کشمیر: اسکورکارڈ کی برابری کے باوجود دونوں ہی ریاستوں میں کانگریس کی شکست ہوئی ہے

ہیڈگیوار اور بابا راؤ ساورکر وغیرہ کے ساتھ مل کر راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی بنیاد رکھنے والےہندو مہاسبھا کے اُن کے سینئر ساتھی اور سرپرست بی ایس مونجے نے اپنے دورہ اٹلی کے موقع پر مسولینی سے ملاقات کی تھی۔ اس کے بعد وہاں سے واپسی پر انہوں نے ’بھونسلے سینک اسکول‘ قائم کیا تھا۔ ہندو مہاسبھا نے ہندو نوجوانوں کو برطانوی فوج میں بھرتی کرنے کی باقاعدہ ایک مہم اُس وقت شروع کی تھی جب دوسری جنگ عظیم میں برطانوی افواج سرگرم تھیں۔ اس مہم کا نعرہ ہی تھا کہ ’فوج کو ہندو بنانا اور قوم کو فوجی بنانا‘۔ 
 نریندر مودی کے دور اقتدار کے آخری عشرے کے دوران، سماج کو عسکری بنانے کے ارادوں کے بارے میں بار بار باتیں ہوتی رہی ہیں۔ سنگھ کے سپریمو موہن بھاگوت نے۲۰۱۸ء میں مظفر پور( بہار) میں اپنی میٹنگ میں اعلان کیا تھا کہ ان کےکارکنوں میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ صرف تین دنوں میں اپنی فوج بنا سکتے ہیں – جسے سرحدوں پر تعینات کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح مرکزی حکومت نے درمیان میں یہ فیصلہ بھی کیا تھا کہ وہ ملک کے ۶۷؍ فیصد سینک اسکولوں کو سنگھ پریوار اور اس سے وابستہ تنظیموں اور بی جے پی لیڈروں کے حوالے کرے گی۔ ہتھیاروں کی تربیت سے لیس بے روزگار نوجوانوں کا یہ ہجوم ہندوتوا کے پھیلاؤ کا ایک آسان ذریعہ بن جائے گا۔ یہ نہ صرف ہندوستان کے تانے بانے کو ایک بڑا چیلنج پیش کرے گا بلکہ ملک کی جمہوری شناخت کے مستقبل کیلئے بھی پریشان کن ہوگا۔ 
 ایک ایسے سماج میں جو بہت زیادہ عسکریت پسند ہے، تنازعات کی صورت میں، اکثریتی قوتیں اقلیتی برادریوں پر تباہی مچا سکتی ہیں۔ آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگنی ویر کی نوکری کرکے ہتھیاروں کی تربیت پانے والے نوجوان سماج میں اتریں گے تو اس کا سماج پربہت زیادہ برا اثر پڑ سکتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK