عدالتیں جیساکہ نام سے ظاہرہے،عدل کیلئے ہوتی ہیں مگر ان ہی عدالتوں کو اگر تخریبی ذہن کےحامل افراداپنے مقصد کے حصول کیلئے استعمال کرنے لگیں اور بادی النظر میں کامیاب بھی نظر آئیں تو یہ خطرناک اور فوری توجہ کا متقاضی ہے۔
EPAPER
Updated: December 15, 2024, 5:08 PM IST | Asim Jalal | Mumbai
عدالتیں جیساکہ نام سے ظاہرہے،عدل کیلئے ہوتی ہیں مگر ان ہی عدالتوں کو اگر تخریبی ذہن کےحامل افراداپنے مقصد کے حصول کیلئے استعمال کرنے لگیں اور بادی النظر میں کامیاب بھی نظر آئیں تو یہ خطرناک اور فوری توجہ کا متقاضی ہے۔
سنبھل جامع مسجد کا سروے اوراس کے نتیجےمیں پھوٹ پڑنے والے تشدد کا ذمہ دار کون ہے؟ ۵؍ مسلم نوجوانوں کے قتل کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟کون ہے جس کی وجہ سے سنبھل کی پُرامن فضا کو مکدر کرنےکی سازش کامیاب ہوئی؟ کس نے اس بات کی راہ ہموار کی کہ سنبھل کی جامع مسجد ہی نہیں بلکہ عالمی شہری یافتہ ملک کی ۸۰۰؍ سال قدیم درگاہ ِ اجمیریؒ پر بھی دعویٰ پیش کردیاگیا اور مقامی عدالت نے اس کے ’سروے‘ کے مطالبے کو نہ صرف قابل اعتنا سمجھا بلکہ اس ضمن میں مرکزی وزارت داخلہ، درگاہ کمیٹی اور محکمہ آثار قدیمہ کو نوٹس بھی جاری کر دیا۔ یہ وہ سوال ہیں جن کے جواب تلاش کرنا مشکل نہیں ہے۔
یہ کتنا حیرت انگیزہے کہ ایک فریق سنبھل کی مقامی عدالت میں ایک پٹیشن داخل کرتا ہے کہ ۱۵۲۶ء میں بابر کے حکم پر اس کے ایک اہلکار کے ذریعہ تعمیر کرائی گئی مسجد اصل میں ہری ہر مندر ہے اوراس کی جانچ کیلئے مسجد کا سروے ہونا چاہئےاور عدالت فریق مخالف کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیئے بغیر یکطرفہ سماعت کرکے سروے کا حکم جاری کردیتی ہے، کورٹ کمشنر کی تقرری عمل میں آجاتی ہے اور چندگھنٹوں میں کورٹ کمشنر کے ساتھ ایک ٹیم مسجد پہنچ کر سروے بھی کر ڈالتی ہے۔ اس کی وجہ سے علاقے کا ماحول خراب ہونا فطری تھا۔ اچانک پڑنے والی اس افتاد سے مقامی مسلمان ابھی سنبھل بھی نہیں پائے تھے کہ ۲۴؍ نومبر کوپھر علی الصباح عین فجر کی نماز کے وقت پھر سروے ٹیم بغیر کسی پیشگی اطلاع کے شاہی جامع مسجد پہنچ جاتی ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ گزشتہ سروے کے وقت ماحول بگڑتے بگڑتے رہ گیاتھا اور سروے کی اطلاع ملتے ہی مسجد کو کھودینے کے اندیشوں کی بنا پر ایک بھیڑ مسجد کےباہر امڈ آئی تھی، مقامی انتظامیہ دوبارہ سروے کے وقت بھی فریق مخالف کو اعتماد میں لینےکی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ سروے ٹیم اچانک مسجد پہنچتی ہے۔ وہ ٹیم جسے کورٹ کے مقرر کردہ ایڈوکیٹ کمشنر اور دیگر سرکاری اہلکاروں پر مشتمل ہونا چاہئے تھا، عرضی گزار کے ساتھ وہاں پہنچتی ہے، اس پرطرہ یہ کہ جے شری رام کے نعرے بھی بلند کئے جاتے ہیں ۔ اول تو ایسے حساس موقع پر عرضی گزار کو وہاں ہوناہی نہیں چاہئے تھا اور اگر وہ موجود تھے تب بھی انہیں اشتعال انگیزی کی علامت بن چکے نعروں سے روکاجاناچاہئے تھا مگر اس کے ساتھ موجود پولیس ٹیم خاموش تماشائی نظر آتی ہے۔ اس کی بنیاد پر اگر یہ نتیجہ اخذ کر لیاجائے کہ سنبھل میں جو کچھ ہوا وہ سوچی سمجھی سازش کےتحت ہوا، پہلے سروے کے دوران چونکہ حالات بگڑتے بگڑتے رہ گئے تھے اس لئے دوسری بار اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ اب کی بار حالات بگڑتے بگڑتے رہ نہ جائیں بلکہ ضرور بہ ضرور بگڑ جائیں اور ایسا ہی ہوا۔ نتیجے میں ۵؍ہنستی کھیلتی زندگیاں ختم ہوگئیں، کئی خاندان تباہ ہوگئے، پورے ملک میں مسلمانوں میں احساس مظلومیت اور احساس بے بسی کی کیفیت پیداہوئی ۔ انتظامی سطح پر اس کےبعد بھی جس طرح کا رویہ اختیا رکیاگیا وہ ’’پرائے پن ‘‘ کا مظہر کم اور انتقامی زیادہ نظر آتاہے۔ انتظامیہ تشدد کے حوالے سےکارروائی اور گرفتاریوں کی دھمکیاں تو دے رہی ہے مگر ۵؍ افراد کی موت پر ہمدردی تو دور کی بات ہے، افسوس کا ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا گیا۔ سانحہ کو ایک ہفتے سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے۔ تشدد کےبعد اقلیتی فرقہ کے افراد کی گرفتاریاں توہوئیں مگر جو لوگ اشتعال انگیزی اور ماحول کو خراب کرنے کا سبب بنے ان کے تعلق سے مکمل خاموشی ہے۔ اس پر کوئی بحث نہیں کہ یوں اچانک پیشگی اطلاع کے بغیر مسجد کا سروے کرنے کیلئے پہنچنا کیوں ضروری تھا، اس کیلئے عین فجر بعد کا وقت کیوں منتخب کیاگیا، سروے ٹیم کے ساتھ پہنچنے والے افراد جے شری رام کے نعرے کیوں لگا رہے تھے، اس کی کیا ضرورت تھی اور پولیس جو اُن کے ساتھ ان کی حفاظت کیلئے تھی، نے انہیں کیوں نہیں روکا۔
یہ بھی پڑھئے:اڈانی کی بدعنوانی، راہل کے سوال اور عوام کی بے حسی
یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب اتر پردیش میں یوگی کے راج میں شاید ہی کبھی مل پائیں مگر ان سوالات سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟ وی ایچ پی اور بھگوا عناصر ملک کی ۴۰؍ ہزار سے زائد مساجد پر دعویٰ کرتے ہیں تو کیا ان تمام ۴۰؍ ہزار مسجدوں کا سروے کا مطالبہ یکے بعد دیگرے ہوتا رہے گا۔ اجمیر درگاہ پر دعویٰ اور اس دعویٰ سے متعلق پٹیشن کو سماعت کیلئے منظور کرلیا جانا نیز سروے کی مانگ پر وزارت اقلیتی امور، درگاہ کمیٹی اور محکمہ آثار قدیمہ کو نوٹس جاری کیا جانا حالات کی سنگینی کی طرف اشارہ کرتاہے۔ سنبھل میں جو کچھ ہوا وہ نہ ہوتا اگر مقامی عدالت نے سروے کے معاملے میں غیر معمولی اور سمجھ میں نہ آنے والی جلد بازی کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا بلکہ جو عدالتی طریقہ کار ہے، اس کے مطابق مسجد پر کئے گئے دعوے پر فریق مخالف (مسجد کمیٹی )کو بھی اپنا موقف رکھنےکا موقع دیتا جیسا کہ راجستھان کی عدالت نے اجمیر درگاہ کے معاملے میں کیا۔ فکر مندی کا باعث یہ ہے کہ نچلی عدالتوں میں اس طرح کے مقدمات میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ یعنی وہ لوگ جو تخریبی ذہنیت اور ملک کو ماضی کے جھگڑوں میں الجھائے رکھنے کی سازش کا حصہ ہیں، ذیلی عدالتوں کو اس مقصد کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ افسوس کہ مذکورہ عدالتیں پلیس آف ورشپ ایکٹ ۱۹۹۱ء کو نظر انداز کرتے ہوئے دھڑلے سے سروے کا حکم صادر کردیتی ہیں۔ سپریم کورٹ چاہتا تو بیک جنبش قلم اس سلسلے کو روک سکتا تھا اورا ب بھی روک سکتاہے مگر گیان واپی کے سروے کا معاملہ جب سپریم کورٹ پہنچا اور پلیس آف ورشپ ایکٹ کا حوالہ دیا گیا تو اُس وقت کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چُڈ نے سروے پر روک لگانے سے انکار کرتے ہوئے اپنے زبانی مشاہدہ میں جو کچھ کہااس نے مزید مذہبی مقامات کے سروے کی راہ ہموار کردی۔
۱۹۹۱ء میں پارلیمنٹ میں پلیس آف ورشپ ایکٹ کو پاس کرانے کا بنیادی مقصد ہی یہ تھا کہ بابری مسجد کے بعد ایسے گڑے مردے اکھاڑنے اورنئے تنازعات کھڑےکرکے ملک کی فضا کو فرقہ وارانہ منافرت کی نذر کرنے سے روکا جا سکے۔ مذکورہ قانون واضح طور پر کہتا ہے کہ آزادی کے دن یعنی ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کو جس عبادت گاہ کی جو مذہبی حیثیت تھی، اسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ اس قانون سازی کی وجہ تسمیہ چونکہ بابری مسجد تنازع تھااس لئے اسے اس سے مستثنیٰ رکھاگیا۔ کسی ثبوت کے بغیر سپریم کورٹ نےجب بابری مسجد کیس میں مندر کے حق میں متنازع فیصلہ سنایا تو اس میں اس نے پلیس آف ورشپ ایکٹ کی یہ کہتے ہوئے توثیق بھی کی کہ اس قانون کا مقصد ’’تمام مذاہب کے ساتھ مساوات اور سیکولرازم جو آئین کی بنیادی خصوصیات میں سے ایک ہے، کی بالادستی کوقائم رکھنے کی ریاست(مرکزی حکومت) کی ذمہ داری کی تکمیل‘‘ ہے۔ ۵؍ رکنی آئینی بنچ جس میں جسٹس چندر چڈ بھی شامل تھے اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ہی فیصلہ لکھا ہے، مزید کہتی ہے کہ پلیس آف ورشپ ایکٹ اس پیغام کی عکاسی کرتا ہے کہ ’’تاریخ اورتاریخی غلطیوں کو حال اور مستقبل پر جبر کیلئے بطور ہتھیار استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ‘‘
بابری مسجد کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو حالانکہ ملک کے نظام انصاف پر بدنما داغ تصور کیا جاتا ہے مگر فیصلے کے اس پہلو سے یہ اُمید ضرور وابستہ کی گئی تھی کہ اس نے آئندہ کے تنازعات کا سدباب کردیا ہے مگر افسوس کہ جسٹس ڈی وائی چندر چڈ جو اس فیصلے کا حصہ تھے، جب چیف جسٹس بنے اور گیان واپی مسجد کے سروے کا معاملہ ان کی بنچ کے سامنے پیش ہوا تو انہوں نے اپنے ہی فیصلے کی روح کے منافی جاتے ہوئے نہ صرف سروے پر روک لگانے سے نہ انکار کردیا بلکہ اپنے زبانی مشاہدہ میں یہ کہہ کر ذیلی عدالتوں کو کھلی چھوٹ دیدی کہ مذکورہ ایکٹ ’’کسی ڈھانچے کی مذہبی حیثیت کا پتہ لگانے سے نہیں روکتا۔ ‘‘ یعنی ملک میں پلیس آف ورشپ ایکٹ کے نافذ ہوتے ہوئےگیان واپی معاملے کو اٹھا کر جس آگ کو بھڑکانے کی کوشش کی گئی تھی، اسے پہلے ہی مرحلے میں ٹھنڈا کردینے کے بجائے سپریم کورٹ کے فیصلے نے نئی چنگاریوں کو ہوا دینے کی راہ ہموار کردی۔ یہی وجہ ہے کہ جب سنبھل میں ۵؍ مسلم نوجوانوں کی موت ہوئی تو سوشل میڈیا پر ایک بڑے طبقے نے اس کیلئے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندر چُڈ کو مورد الزام ٹھہرایا۔ عدالتوں کی رپورٹنگ کرنےوالی معروف ویب سائٹ ’’لائیو لاء‘‘ کے منیجنگ ایڈیٹر منو سبسٹین نشاندہی کرتے ہیں کہ اسی جواز کو پہلے ذیلی عدالت نے پھر الہ آباد ہائی کورٹ نے استعمال کیا اور کہا کہ مساجد پر مندر ہونےکے دعوے کرنے والے مقدمات کو پلیس آف ورشپ ایکٹ کی بنیاد پر روکا نہیں جاسکتا۔ ہائی کورٹ نے آگے بڑھ کر یہ بھی کہہ دیا کہ ’’چونکہ مذہبی حیثیت متنازع تھی اس لئے یہ طے کیا جانا ضروری ہے کہ ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کو مذکورہ ڈھانچہ مسجد تھایا مندر۔ ‘‘ یہی جواز دے کرمتھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد کے خلاف داخل کی گئی پٹیشن کو سماعت کیلئے منظور کیاگیا اور سنبھل کی جامع مسجد اور اجمیر کی درگاہ کے تعلق سے بھی یہی جواز پیش کیا جائےگا۔ یعنی ایک پنڈورہ باکس ہے جو کھل گیا ہے اور ملک یکے بعددیگرے ان تنازعات میں گھرتا چلا جائےگا۔ اس مسئلے کا حل اس وقت سپریم کورٹ کے پاس ہی ہے جس کے سامنے پلیس آف ورشپ ایکٹ کی آئینی حیثیت زیر التواء ہے۔ منو سیبسٹین کے مطابق’’ سنبھل سانحہ کوعدلیہ کیلئے خطرہ کی گھنٹی سمجھنا چاہئے اور سپریم کورٹ کو ایک حتمی فیصلہ دینا چاہیے کہ پلیس آف ورشپ ایکٹ کو مذہبی حیثیت کے تعین کے بہانے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کورٹ کی جانب سے یہ فیصلہ کن وضاحت ہونی چاہئے کہ کسی عبادتگاہ کی مذہبی حیثیت وہی ہوگی جو پہلی نظر میں ایک عام عقل رکھنے والے شخص کو نظر آئے۔ اس طرح عدالت کئی تنازعات کو ختم کرنے میں اہم رول ادا کرے گی۔ سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل ۱۴۲؍ کے تحت اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے یہ غیر معمولی حکم بھی پاس کر سکتی ہے کہ کسی بھی مقام کی مذہبی حیثیت پر سوال اٹھانے والے مقدمات پر ذیلی عدالتیں اس وقت تک سماعت نہیں کرسکتیں جب تک کہ سپریم کورٹ کی اجازت حاصل نہ کرلی جائے۔ ‘‘