مراٹھی کے مشہور لوک گیتوں کے اردو ترجمے کی۱۸؍ ویں قسط میں خدا سے عشق کی ترغیب دیتا ہوا گیت جو مراٹھی ادب میں تصوف کا سرمایہ بھی ہے۔
EPAPER
Updated: November 06, 2023, 1:58 PM IST | Pradeep Niphadkar | Mumbai
مراٹھی کے مشہور لوک گیتوں کے اردو ترجمے کی۱۸؍ ویں قسط میں خدا سے عشق کی ترغیب دیتا ہوا گیت جو مراٹھی ادب میں تصوف کا سرمایہ بھی ہے۔
’’کاگا سب تن کھائیو، چن چن کھائیو مانس =دو نینا مت کھائیو، پیا ملن کی آس‘‘، بابا فریدؒ گنج شکر کا یہ دوہہ کسے یاد نہیں ۔غم جدائی یا ہجر کا غم بہت سے لوگوں نے برداشت کیا ہے۔ یہ جدائی کے مارے ہر فرد کے دل کی آواز ہے جبکہ سنت میرا بائی نے کوے کی زبانی اپنی جدائی کا درد جس انداز میں بیان کیا ہے اس سے ہم سبھی واقف ہیں۔ کاگا (کوا ) پر بالی ووڈ میں بہت سے گیت بنائے گئے ہیں ۔ جیسے بیگم اختر کا ’جارے جارے کاگا ،یا شامک داور کا ’چھت پر کالا کوا بیٹھا‘ اور جھوٹ بولے کوا کاٹے کا گیت تو ہم کبھی نہیں بھول سکتے ۔ مہاراشٹر کے دیہی علاقوں میں یہ روایت مانی جاتی ہے کہ اگر آپ کے گھر کی کھڑکی یا چھت پر کوا بیٹھا ہے اور کائیں کائیں کررہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کے یہاں کوئی مہمان آنے والا ہے۔ اسی کاگا پر ہم اس ہفتے ایک مراٹھی گیت دیکھیں گے۔ اسے مراٹھی میں ’ویرانی‘ کہتے ہیں جس کا مطلب ہوتا ہے ہجر اور جدائی کا گیت۔ اس میں شاعر اپنے محبوب سے جدائی کا غم بیان کرتا ہے۔ اسے تصوف کےرنگ میں دیکھا جائے تو یہ خدا سے عشق اورہجر کی داستان ہوتا ہے۔ مراٹھی میں صوفیوں کا فلسفہ اسی طرح کا ہوتا ہے۔ وہ انسانوں کو صرف خدا سے عشق کی ترغیب دیتے ہیں۔
سنت گیانیشور مہاراشٹر کے تیرہویں صدی کے عظیم دانشور اور سنت تھے۔ انہوں نے گیانیشوری کی تخلیق کی تھی۔ سنت گیانیشور نہ صرف مراٹھی بلکہ ملک کے دیگر زبانوں میں بھی نہایت عزت و احترام سے دیکھے جاتے ہیں ۔ ان کا شمار ملک کے عظیم سنتوں اور شاعروں میں ہوتا ہے جس نے تصوف کی شاعری کو نہ صرف استحکام بخشا بلکہ اسے مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے ذریعے انہوں نے معاشرے کی اصلاح بھی کی۔ وہ بہت اچھے شاعر تھے جن کی تخلیقات آج بھی گائی جاتی ہیں ۔ ان کا حمدیہ کلام (پسائیدان) پوری دنیا میں مشہور ہے اور عامر خان اسے اپنے پروگرام میں بھی پیش کرچکے ہیں۔ سنت گیانیشور نے ہمیشہ پوری دنیا کے لئےامن و امان کی دعائیں کیں اور محبت و بھائی چارہ کے فروغ کے لئے کوششیں کیں۔ واضح رہے کہ سنت گیانیشور جس دَور میں اصلاح کا کام کررہے تھے اس وقت ہندوستان میں برادران وطن کےتمام مذہبی صحیفے سنسکرت میں ہوا کرتے تھے اور عام لوگ سنسکرت نہیں جانتے تھے۔ صرف ۱۵؍ سال کی عمر میں اس ہونہار بچے گیانیشور نے مراٹھی کی بول چال کی زبان میں بھگوت گیتا کی تشریح کرکے اور اہل مہاراشٹر میں ان کی اپنی زبان میں مذہبی تبلیغ کرکے ان کے لئے علم کا راستہ کھول دیا تھا۔ انہوں نے صرف ۲۱؍ سال کی عمر میں اس دنیا سے سمادھی لے لی تھی۔
سنت گیانیشور کی کئی تخلیقات کو ہردے ناتھ منگیشکر نے موسیقی سے سجاتے ہوئے لتا منگیشکر کی آواز کا استعمال کیا ہے۔ انہی تخلیقات میں سے ایک تخلیق ہے جو ہم آج اپنے کالم میں دیکھیں گے ۔ اس گیت کو ہردے ناتھ جی نے بیراگی بھیرو راگ میں ترتیب دیا ہے۔آئیے گیت دیکھتے ہیں :
پیل تو گے گائو کوکتا ہے
شکون گے مائے سانگتا ہے
(کاگا تو بول رہا ہے ، با ر بار بول رہا ہے ۔ اس کا مطلب وہ کہہ رہا ہے کہ آج تمہارا محبوب ملنے آرہا ہے۔ یہ پیش گوئی، یہ تجویز کاگا نے پیش کی ہے۔ )
اُڑ اُڑ سے کائو تجھے سونیانے مڈوین پائو یاچا ارتھ کائے؟
پاہونے پنڈھری راوو گھرا کےیے تی
(اے کاگا تم اُڑ جائو۔ میں تمہارے پائوں سونے سے سجادوں گی لیکن یہ تو بتائو کہ میرے پیارے اور میرے دلبر مہمان کب آنے والے ہیں ؟)
یہ بھی پڑھئے: بیٹی کی رخصتی کے موضوع پر پی ساؤڑا رام کا لافانی گیت
دہی بھاتاچی اُنڈی لاوین تجھیا تونڈی
جیوا پڑھئے تیاچی گوڈی سانگ ویگی
(میں دہی اور چاول سے تمہارا منہ بھردوں گی لیکن جو میرے دل کو عزیز ہے وہ میرے ساجن کب آنے والے ہیں ۔ وہ میٹھی خبر مجھے جلدی سے دے دے ۔)
دودھے بھرونی واٹی لاوین تجھے ووٹھی
ستیہ سانگ گوٹھی وٹھو یے ئیل کائی
(اے کاگا ، اگر تجھے دودھ پسند ہے تو میں تجھے وہ بھی دوں گی۔ لیکن سچ سچ بتانا میرے محبوب کب آئیں گے ؟ میں انہیں دیکھنے کے لئے بے چین ہوں ۔)
آمبے یا ڈہاڑی پھلے چمبی رساڑی
آجی چے رے کاڑی شکون سانگے
(کاگا سچ سچ کہنا تم نے آم کھائے ہیں نا ؟پھر مجھ پر واضح کردو کہ میرے محبوب آنے والے ہیں ۔ میرے لئے پیش گوئی کردو کہ میری محبت آنے والی ہے۔ )
گیان دیو مہنے جانی جے کھونے
بھیٹتی پنڈھری رائے شکون سانگے
(سنت گیان دیو کہہ رہے ہیں ۔ پنڈھری کے مالک ، میرے عزیز آج ملنےکےلئے آنے والے ہیں ۔ اس تعلق سے پیش گوئی کی گئی ہے۔)