• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سیتا رام یچوری : پارلیمنٹ ہو یا اس کے باہر، ان کی باتیں سنجیدگی سے سنی جاتی تھیں

Updated: September 16, 2024, 2:43 PM IST | Mukhtar Adeel | Mumbai

۲۰۰۶ء میں بڑے قبرستان میں ہونےوالے بم دھماکوں کے بعد انہوں نے مالیگاؤں کا دورہ کیاتھا اور زعفرانی انتہا پسندی کی مذمت کی تھی۔

Sitaram Yechury. Photo: INN
سیتا رام یچوری۔ تصویر : آئی این این

جواہر لال نہرویونیورسٹی (جے این یو) کو یہ اختصاص حاصل ہے کہ یہاں حصول علم کیلئے آنے والے طلبہ کے درمیان سے باصلاحیت افراد معاشرے میں آئے۔ انہوں نے قومی سیاست میں ایک مقام پایا۔ اُن میں کامریڈ سیتارام یچوری کابھی شمار ہوتا ہے جو ۱۲؍ستمبر کی سہ پہردورانِ علاج انتقال کرگئے۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز جے این یوکے احاطے سے کیا۔ اسٹوڈنٹ یونین کے صدارتی عہدے کیلئے منتخب ہونے کے ساتھ اُس وقت کی وزیراعظم اِندراگاندھی کی ’ایمرجنسی‘ کے خلاف مورچہ سنبھالا۔ قصروزارتِ عظمیٰ کی جانب مارچ کرنے والوں میں وہ ہراول دستے کا حصہ تھے۔ سیکوریٹی فورسیزنےانہیں گرفتار تو کر لیا لیکن اسی کے ساتھ یچوری کے اندرکا سیاسی قائد پوری طرح آزاد ہوگیا۔ ایمرجنسی کے خاتمے نے انہیں قومی سیاست میں نمایاں مقام دیا۔ بنیادی طور سے قرطاس وقلم سے اُن کا مضبوط رشتہ دمِ اخیر تک برقرار رہا۔ فرنٹ لائن میں سیاسی تجزیاتی مضامین لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اُنہیں پڑھنے والے قارئین کی فہرست میں اِندراگاندھی سے لے کرڈاکٹرمن موہن سنگھ تک شامل ہیں۔ 
 ۲۰۰۶ء میں مالیگائوں کے بڑے قبرستان میں ہوئے بم دھماکوں کے بعدیچوری نے یہاں کا دورہ کیاتھا۔ کمیونسٹ پارٹی (ایم )کے مقامی خستہ حال دفتر میں اُن سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے زعفرانی انتہا پسندی کی مذمت اُس وقت کی تھی جب مالیگائوں بلاسٹ کے الزام میں یکطرفہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کا کام جاری تھا۔ تفتیشی اور سُراغ رساں اداروں کی جانبداری اور عدم شفافیت پر دلائل کے انبار لگادیئے۔ شاید اُن کے وسیع مطالعے، مشاہدے اور تجربے سے غیر اُردو میڈیا کے نمائندگان خائف تھے، اِسلئے اُن سے وہ سارے سوالات نہیں کئے جاسکے جو اُس زمانے میں مالیگائوں کا دورہ کرنے والے قومی سیاست دانوں سے کئے جانے کا ہوم ورک پوری منصوبہ بندی کے ساتھ مقامی ’شاکھا‘ میں کروایا جاتا تھا۔ ۲۰۰۸ء کے بم دھماکے کےبعد یچوری نے ہیمنت کرکرے کی تفتیشی کارروائی کو رواں رکھنے کیلئے بائیں محاذ سے رکن پارلیمان کامریڈ برندا کرات کا اُس وقت بھرپور ساتھ دیا جب وہ سادھوی، کرنل اور پروہت کو ۲۰۰۸ءکے بم دھماکے کے الزام میں پکڑکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیاتھا۔

یہ بھی پڑھئے:اندھیرنگری، چوپٹ راجا

اقلیتی فرقے کےساتھ ہوئی زیادتیوں پریچوری اپنے موقف کو ’مسلمانوں کی منہ بھرائی‘بالکل نہیں مانتے تھے بلکہ وہ حق اور انصاف کی طرف داری پریقین رکھ کر سیاسی کام کاج کرنے والوں میں سے تھے۔ انہیں ایک طبقے نے شدت کے ساتھ ہدف تنقید بھی بنایالیکن وہ ٹس سے مَس نہیں ہوئے۔ اُردوکے علاوہ ملیالم، تمل، انگریزی اور رواں ہندی میں تحریر وتقریر پر انہیں عبور تھا، اِسلئے نیشنل میڈیا میں بھی بھگوا نواز ٹولے کو کراراجواب دیا کرتے تھے۔ 
 بقول روِش کمار، یچوری نے گٹھ بندھن کی سیاست میں کلیدی کردار ادا کیا لیکن وہ وزارتی عہدوں او ر اُن کی کشش سے اپنے آپ کو بچائے رکھتے تھے۔ کئی وزرائے اعظم کی کرسیاں یچوری کی سیاسی حکمت عملی کے باعث محفوظ رہ گئیں۔ وہ ان سب باتوں کو اپنے قریبی حلقے میں بتانے سے بھی گریز کرتے تھے۔   واضح رہے کہ یوپی اے (فرسٹ ٹرم )کی حکومت سازی میں بائیں محاذکے پختہ سیاسی موقف نے بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کردیاتھاحالانکہ آنجہانی واجپئی کے یچوری سے دیرینہ مراسم بالکل عیاں تھے۔ ۲۰۲۴ء کے جنرل الیکشن سے قبل انڈیا الائنس کی تشکیل میں اُن کا سیاسی کردار الائنس کی مضبوطی میں مددگار رہا ہے۔ وہ اُن سیاسی قائدین کے ہجوم میں ممتازرہے جومحض اقتدار اور اس کی لذتوں سے لطف اٹھانے کیلئے سیاسی کارزار میں سرگرم ہیں۔ یچوری کسانوں ، مزدوروں ، مہاجروں ، خانہ بدوشوں ، پہاڑی باشندوں، قبائیلیوں، بدحالوں، اقلیتوں، پچھڑوں اور کمزوروں کے قائد تھے۔ انہی کی طرح سادگی سے زندگی گزارتے۔ ان کے درمیان رہ کر ان کے مسائل کوحل کرنے کی ممکنہ کوششوں میں لگے رہتے۔ مارکسوادی نظریات اُن کی شخصیت میں دِکھائی دیتے تھے۔ 
 کامریڈ سیتارام نے آر ایس ایس کے ہندوراشٹرکاقلع قمع اپنے مضامین کے حوالے سے کیا۔ اُن کے نام میں سیتا اور رام دونوں اکٹھا ہو کر’سیتارام ‘ہوئے لیکن انہوں نے کبھی مذہبی انتہاپسندی کوپروان نہیں چڑھایا۔ یونیفارم سول کوڈ سے متعلق کہتے یہ کوڈ غیر یکساں ہے جس سے ہندوستان اور اس کی تکثیریت میں رچے بسے انسانی معاشرے کوسوائے نقصان کے کچھ نہیں ملے گا۔ اُن کے انہی خیالات کی وجہ سے رائٹ وِنگ کے رائٹرس ناپسند کرتے جس کی کبھی پرواہ یچوری نے نہیں کی۔ کبھی وہ بنگال تو کبھی مدراس، کبھی بہارتو کبھی دلّی، مسلسل سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ بحیثیت رُکن مجلس قانون ساز ایوانِ بالا(راجیہ سبھا)سیتارام یچوری نے آخری سوال یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کے ذریعے طلبہ اور محققین کوتقسیم کئے جانے والے وظائف سےمتعلق پوچھا تھاجس کا تحریری جواب ۲۸؍اپریل ۲۰۱۶ءکوجاری کیاگیا۔ یچوری نے ۲۰۱۰ءسے ۲۰۱۶ءکے درمیان وظائف سے استفادہ کرنے والے طلبہ کی تعداد پوچھی تھی جس کا جواب تھا۱۷؍ہزار ۷۴۱؍طلبہ۔ یچوری کے اندرون میں سانس لینے والا طالب علم ایوانِ پارلیمنٹ میں بھی حقوق ومراعات کے تحفظ وبازیابی کی جدوجہد کر رہاتھاجس کا ثبوت بحیثیت رکن پارلیمنٹ اُن کی میعاد کے دوران کا یہ آخری سوال ہے۔ کامریڈیچوری کے چلے جانے سے ہندوستانی سیاست میں بائیں محاذ کا ایک ستون ٹوٹ گیا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK