• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اندھیرنگری، چوپٹ راجا

Updated: September 16, 2024, 2:32 PM IST | Pankaj Srivastava | Mumbai

یوگی کو ’بلڈوزر بابا‘ کا خطاب دیا گیا ہے۔ بی جے پی کے دیگر وزرائے اعلیٰ بھی ’بلڈوزر ماما‘ سے ’بلڈوزر چاچا‘ بننے کی دوڑ میں ہیں۔ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ یہ بلڈوزر کسی کا گھر یاکوئی عمارت گرانے سے پہلے ملک کے’نظام انصاف‘ کوملبہ میں تبدیل کرتےہیں

In Uttar Pradesh, Madhya Pradesh, Rajasthan and Assam, the use of bulldozers has increased considerably. Photo: INN
اترپردیش، مدھیہ پردیش، راجستھان اور آسام میں بلڈوزروں کا استعمال کافی بڑھ گیا ہے۔ تصویر : آئی این این

بھارتیندو ہریش چندر نے اپنا مشہور ڈراما’ `اندھیر نگری‘ ۱۸۸۱ء میں لکھا تھا۔ ۶؍ ابواب پر مشتمل یہ طنزیہ ڈراما ایک مطلق العنان راجا کی کہانی بیان کرتا ہے جو اپنے ہی غیر معقول فیصلوں سے تباہ ہو جاتا ہے۔ یہ راجا کسی جرم کیلئے مجرم کی تلاش میں وقت ضائع نہ کرتے ہوئے پھانسی کے پھندے کی سائز کا کوئی گردن تلاش کر تا تھا۔ جس کی گردن فٹ ہوجاتی تھی، اسے پھانسی پر چڑھا دیا جاتا تھا۔ یہی اس کے’انصاف‘ کا طریقہ تھا۔ بھارتیندو نے اس ڈرامے میں برطانوی راج کے آمرانہ نظام کو نشانہ بنایا تھا، لیکن اب ڈیڑھ صدی کے بعد ہندوستان کا سرکاری نظام بھی کچھ اسی سمت میں جارہا ہے۔ میڈیا جس’بلڈوزر راج‘ کے قصیدے پڑھ رہا ہے وہ کچھ اور نہیں ’اندھیر نگری، چوپٹ راجا‘ ہی ہونے کا ثبوت ہے۔ ’اندھیر نگری‘ میں صرف راجا کی مرضی کو انصاف سمجھا جاتا تھا اور ’بلڈوزر راج‘ میں بھی کوئی عدالت نہیں، راجا کی مرضی کے مطابق ہی فیصلے ہوتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ’اندھیر نگری‘ کا راجا صرف گردن کی موٹائی ہی سے مطلب رکھتا تھا، گردن کی ذات، رنگ اور مذہب سے نہیں ... جبکہ ان’اچھے دنوں ‘ میں گردن کا مسلمان ہونا زیادہ تر معاملات میں ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے ’اچھے دنوں ‘کا اندھیرا ’اندھیر نگری‘ سے زیادہ گہرااور نفرتی ہے۔ 
 ۲۰۱۷ء میں مہنت آدتیہ ناتھ نے جس طرح سے یوپی کے وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف لینے کے بعدبلڈوزر کو ’انصاف‘ کی علامت کے طور پر پیش کیا، اس کی مثال صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں ملنا مشکل ہے۔ جرم کی اطلاع ملتے ہی ان کے بلڈوزر ’انصاف‘ کیلئے نکل پڑتے ہیں۔ یوگی کی تقریروں اور ان کی اشاراتی گفتگو کاجائزہ لینے کے بعد، اس میں کوئی حیرت نہیں ہوتی ہے کہ ۹۰؍ فیصد سے زیادہ معاملات میں، منٹوں میں زمین دوز ہونے والے گھر مسلمانوں ہی کے کیوں ہوتے ہیں ؟

یہ بھی پڑھئے:آسام کا حراستی مرکز عالمی سطح پر ملک کی رُسوائی کا باعث بن سکتا ہے!

یوگی آدتیہ ناتھ ہندوستانی نظام انصاف کو’خوشحال‘ بنانے میں جو کردار ادا کر رہے ہیں، اس کیلئےخوب تالیاں بج رہی ہیں۔ انہیں ’بلڈوزر بابا‘ کا خطاب دیا گیا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ کٹر ہندوتوا کیمپ میں ’ مودی کے بعد کون؟‘جیسے سوالوں کا جواب بن کر ابھر ے ہیں۔ بی جے پی کے دیگر ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ بھی ’بلڈوزر ماما‘ سے ’بلڈوزر چاچا‘ بننے کی دوڑ میں ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ بلڈوزر کسی کا گھر یاکوئی عمارت گرانے سے پہلے ملک کے’نظام انصاف‘ کوملبہ میں تبدیل کرتےہیں۔ اجین کے۱۸؍ سالہ عدنان منصوری پر گزشتہ سال مہاکال جلوس کے دوران تھوکنے کا الزام تھا۔ بی جے پی اور تمام ہندوتوا تنظیموں نے بہت شور مچایا تھا اور میڈیا نے اس کی بھرپور تشہیر کی تھی۔ پولیس نے عدنان کو گرفتار کر لیا اور انتظامیہ نے اس کے گھر پر بلڈوزر چلا دیا۔ ۱۵۰؍ دن جیل میں گزارنے کے بعد، مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے اسے ضمانت دے دی جب شکایت کنندہ اور گواہوں نےتسلیم کرلیا کہ الزامات جھوٹے اور بے بنیاد تھے۔ اسی طرح چند روز قبل مدھیہ پردیش ہی کے چھتر پور میں پیغمبر اسلامؐ پر کئے گئے قابل اعتراض تبصروں کے خلاف نکالے گئے جلوس میں حصہ لینے والے کانگریس لیڈر شہزاد علی کے گھر پر بلڈوزر چلا کر اسے منہدم کر دیا گیا۔ کانگریس نے اسے ایک بڑے موضوع کے طور پر پیش کیا ہے اور راجیہ سبھا رکن عمران پرتاپ گڑھی نے اس معاملے کو سپریم کورٹ تک لے جانے کا اعلان کیا، لیکن اس سے وزیر اعلیٰ موہن یادو کو کوئی فرق نہیں پڑا۔     انہوں نے نہایت گھمنڈ کے ساتھ اعلان کیا کہ’’جو بھی قانون کی خلاف ورزی کرے گا اس سے اسی طرح نمٹا جائے گا۔ ‘‘اس کا مطلب ہے کہ مہنت آدتیہ ناتھ کی طرز پر ڈاکٹر موہن یادو نے بھی’بلڈوزر انصاف‘ کا راستہ اختیار کیا ہے۔ انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جلوس یا پتھراؤ کے پیچھے کون تھا؟ اگر حکومت کو یقین ہے کہ کوئی جرم ہوا ہے، تو بھی وہ ایف آئی آر درج کر کے ملزم کو عدالت سے سزا دلوانے کی حامی نہیں ہے، وہ خود سزا دینا چاہتی ہے۔ اس طرح کی کارروائیوں کے ذریعہ وہ صرف یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ اگر کوئی’شہزاد‘ ان کی حکمرانی کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت کرےگا تو اس کا گھر تباہ کر دیا جائے گا۔ مسلمانوں کے تئیں نفرت کو اپنا سیاسی سرمایہ سمجھنے والے اس طرز حکومت کو تالیاں اور ووٹ دونوں کیوں ملتے ہیں، یہ الگ سماجی تجزیہ کا موضوع ہے۔ 
 انڈین پینل کوڈ میں مختلف جرائم کیلئے مختلف سزاؤں کا التزام ہے۔ ’ہیرا چور‘ اور’ کھیرا چور‘ کو ایک جیسی سزا نہیں دی جاتی۔ اس کے علاوہ، ہندوستانی عدالتی ضابطہ کے کسی صفحہ پرکسی بھی جرم کی سزا کے طور پر بلڈوزر سے مکانات کو مسمار کرنے کا ذکر نہیں ہے۔ حکومت یہ جانتی ہے، اسلئے مبینہ جرم کے فوراً بعد سرکاری کاغذات پر درج کرلیا جاتا ہے کہ ملزم کا مکان غیر قانونی زمین پر بنایا گیا ہے یا اس کا نقشہ پاس نہیں کرایا گیا ہے۔ پھر کوئی نوٹس یا وقت دیئے بغیر مکان گرانے کی کارروائی سے’محظوظ‘ ہوتے ہیں۔ 
 لیکن کوئی گھر کیا صرف ایک شخص کا ہوتا ہے؟ پھر اگر ایک فرد واقعی مجرم ہے تو پورے خاندان کو اس کی سزا کیونکر دی جا سکتی ہے؟ کسی مہذب سماج میں اس طرح کے عمل کیلئے کوئی جگہ نہیں ہو سکتی۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت یا جمہوریت کی ماں ہندوستان کی حالت کو دنیا بغور ریکارڈ کر رہی ہے۔ اس سال فروری میں شائع ہونے والی ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں ایسی۱۲۸؍ کارروائیوں کی فہرست دی گئی ہے جن میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ان کارروائیوں سے۶۱۷؍ افراد متاثر ہوئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکریٹری جنرل اگنیس کالمارڈ نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ’’ہندوستانی حکام کی جانب سے مسلمانوں کی جائیدادوں کی غیر قانونی مسماری، جسے’بلڈوزر انصاف‘ کے نام سےمشتہر کیا جارہا ہے، ظالمانہ اور افسوس ناک ہے۔ اس طرح کی کاررائیاں پوری طرح سے غیر منصفانہ، غیر قانونی اور امتیازی ہیں۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK