نیوزی لینڈ نے دوسرے ٹیسٹ میچ میں بھی ٹیم انڈیا کو پٹخنی دے دی۔
EPAPER
Updated: October 28, 2024, 5:49 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai
نیوزی لینڈ نے دوسرے ٹیسٹ میچ میں بھی ٹیم انڈیا کو پٹخنی دے دی۔
نیوزی لینڈ نے دوسرے ٹیسٹ میچ میں بھی ٹیم انڈیا کو پٹخنی دے دی۔ اس کی مضبوط بیٹنگ لائن اپ کوقدرے کمزور سمجھے جانیوالے اسپن اٹیک نے تاش کے پتوں کی طرح بکھیردیا۔حالانکہ سیریز کا ایک میچ ابھی باقی ہے،لیکن بنگلور اور پونے کے میچوں میں ٹیم نے کئی منفی ریکارڈ بنالئے ہیں۔ پہلے ٹیسٹ میں اس کی پہلی پاری ۴۶؍رنوں پر سمٹ گئی تھی جو اس کا اپنے وطن میںاننگز کا کم ترین ٹیسٹ اسکور تھا۔دوسرا میچ بھی گنواکر اس نے ایک الگ ریکارڈ بنالیا ہے۔ بارہ سال میںپہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ٹیم انڈیا اپنی سرزمین پر ٹیسٹ سیریز ہارگئی۔ٹیم کے مداح اس کارکردگی سے ناراض ہیں۔ کپتان روہت سمیت سبھی کھلاڑیوں کیخلاف ناراضگی کا اظہار کیا جارہا ہے لیکن سب سے زیادہ ٹرولنگ کوچ گوتم گمبھیر کی ہورہی ہے۔
گگن نامی صارف نے لکھا کہ’’ بھائی نے (کوچ کا عہدہ سنبھالتے ہی) اپنا سپورٹ اسٹاف منتخب کیا، اپنی پسند کے دو معاون کوچ رکھے، ظہیر خان کے بجائے غیرملکی بالنگ کوچ کو ترجیح دی،اتنا ہی نہیں بھائی نے موٹی تنخواہ بھی لی، سب کچھ اپنی پسند کا کیا،لیکن بھائی کی کوچنگ میںٹیم انڈیا اپنی اب تک کی سب سے خراب کرکٹ کھیل رہی ہے۔‘‘جوڈ اِنسین نامی صارف نے گمبھیر کی تصویر شیئر کرتے ہوئے تنقید کی کہ’’یہ بندہ اصل مسئلہ ہے۔ یہ کے کے آر کا مینٹور تھا،لیکن لائم لائٹ اسی کو ملا۔ لکھنؤ سپرجائنٹس کے کوچ کی حیثیت سے اس کی کارکردگی خراب تھی۔ اسے دہلی کیپٹلز سے نکالا گیا، لیکن پی آر کی بدولت اس کی تصویر ماسٹرمائنڈ کوچ کی بنائی گئی۔ اب انڈین کرکٹ ٹیم اسی کے باعث تنزلی سے دوچار ہے۔ گوتم گھمبیر کو ہٹاؤ۔‘‘ ایم ایسڈیئن ریٹرنس نامی اکاؤنٹ سے پوسٹ کیا گیا کہ’’گرو گمبھیر کا دور: (۱) سری لنکا سے ستائیس سال بعد یک روزہ سیریز ہارے۔ (۲) بارہ سال بعد ہوم سیریز میںشکست ہوئی۔ (۳) چنا سوامی میں (پہلے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں) ۴۶؍ رنوں پر آل آؤٹ ہوئے۔(۴)گھر میں کھیلے جارہے دونوں ٹیسٹ میچوں میں مخالف ٹیم کو ۱۰۰۔۱۰۰؍ رن سے زائد کی برتری مل گئی۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ : ’’صلاحیت میدان مانگتی ہے بینچ نہیں‘‘
جنگ پچھلے کئی دنوں سے ’ہاٹ ٹاپک‘ بنی ہوئی ہے۔ سنیچر کو علی الصباح اسرائیل نے ایران پر فضائی حملہ کیا۔ جس کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر ایک بار پھر اندیشے و خطرات کا اظہار کیا جانے لگاہے۔ ویشالی ارورہ نے دھماکوں کی دو تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ’’کیا یہ ایران کے تہران شہر کا منظر ہے؟ کیا یہ تیسری جنگ عظیم کا نقطہ آغاز ہے؟ آپ کس کے ساتھ ہیں؟‘‘قابل ذکر ہے کہ اسرائیلی ٹرولز نے کچھ پرانے ویڈیو شیئر کرکے بلند بانگ دعوے کئے کہ ایران کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے جس کی تردید ایرانی ذرائع نے بھی کی اور متعدد صارفین نے بھی اس ’فیک نیوز‘ کی قلعی کھول دی۔
رضوان ملک نے طنزاً لکھا کہ ’’اسرائیلی بمباری کے وقت بجائے زیر زمین پناہ گاہوں میں چھپنے کے، ایرانی شہری اپنی چھتوں پر کھڑے ہوکر اسرائیل کے نام نہاد بڑے حملے کا تمسخر اڑاتے دکھائی دئیے۔‘‘آکاش نے لکھا کہ ’’بدلے کے نام پر اسرائیل نے ایران کو دور سے ہی انتباہ دے دیا،اصل میں ایران سے ٹکرانے میں اسرائیل تھوڑا محتاط ہے،کیونکہ ایران ایک نیوکلیائی طاقت کا حامل ملک ہے۔ اس کے پاس انٹرکانٹیینٹل بیلسٹک میزائیل بھی ہیں۔ اسرائیل اتنا ناسمجھ نہیں کہ جذبات میں بہہ کر جوکھم اٹھائے۔‘‘فلسطین پر جاری اسرائیلی حملوں کے متعلق امریکی صحافی اوبگینی ادیمولاکی یہ بات بھی خوب پسند کی جارہی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’اگر آپ یوکرین پر روسی قبضے کے مخالف ہیں تو آپ کو فلسطین پر اسرائیلی قبضے کی بھی مخالفت کرنی چاہئے۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے ہیں تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ آپ نسل پرست ہیں۔‘‘
جنگ کی بات ہوگئی اب فساد کے متعلق بھی پڑھ لیں۔ بہرائچ فساد کے متعلق’دینک بھاسکر‘ کی ایک تفتیشی رپورٹ سوشل میڈیا کے گلیاروں میں موضوع بحث ہے۔ اس رپورٹ کو شیئر کرتے ہوئے میانک سکینہ نامی صارف نے لکھا کہ ’’فسادیوں نے دینک بھاسکر کے خفیہ کیمرے پر قبول کیا کہ انتظامیہ نے انہیں دو گھنٹے کا وقت دیا تھا تاکہ وہ فساد کی آگ میں بہرائچ مہاراج گنج کو پوری طرح سے جلا سکیں۔ اب ایک سوال ہے، فساد بھڑکانے میں کس سیاسی پارٹی کو فائدہ ہوتا ہے؟‘‘عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمان سنجے سنگھ نے ایکس پوسٹ میں لکھا کہ’’بی جے پی آپ کے بچوں کے ہاتھوں میں روزگار نہیں صرف بم اور بربادی ہی دے سکتی ہے۔ دھیان سے دیکھئے دینک بھاسکر کی یہ تفتیشی رپورٹ،کیسے منظم سازش کے تحت بی جے پی نے بہرائچ فساد کروایا۔ جن پولیس والوں نے فساد روکنے کی کوشش کی ان کو معطل کردیا گیا، ان کو غدار کہا گیا۔‘‘گودی میڈیا کی پروپگنڈہ مشین سے اب ایک اور نئی نفرت انگیز اصطلاح باہر آئی ہے۔ اس بارجہاد کو ’مہندی‘ سے جوڑدیا گیا ہے۔دہلی میں ’کرواچوتھ‘ کے پیش نظر ہندو بہنیں،مہندی لگوارہی تھیں۔ مہندی آرٹسٹوں میں کچھ مسلمان خواتین تھیں جس پر زعفرانی ٹولہ نے بلاوجہ کا بکھیڑا کھڑاکیا۔ اس پر زی نیوز کے چار الگ الگ پروگراموں میں ’نیوز اینکر‘ دھڑلے سے’مہندی جہاد‘ کا بے سرا راگ الاپتے نظر آئے۔ اس پر راشٹریہ علماء کونسل کے ایکس اکاؤنٹ سے لکھا گیا کہ ’’محلے کے ٹپوری اور چھپری بھی ایسی زبان استعمال نہیں کرتے ہیں ، جسی زبان ہماری نام نہاد مین اسٹریم میڈیا کرتی ہے۔ اسلامو فوبیا کے ساتھ ہی تشدد اور نفرت کو بڑھاوادینے والی اس زبان پر فوری طور پر لگام لگنی چاہئے۔‘‘امتیاز و تفریق سے یاد آیا کہ یوپی میں ایک پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے شخص کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا گیا۔سوامی پرساد موریہ نے اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے لکھا کہ ’’اتر پردیش ، جھانسی کے سیپاری بازار تھانہ کی حدود میں ایک دلت کا سر اسلئے منڈوایا گیا کیونکہ اس نے مزدوری کا کام کرنے سے منع کردیا۔ اتنا ہی نہیں، اسے مارا پیٹا بھی، پیڑ پر الٹا لٹکایا گیا، پھر سر مونڈ کر گاؤں میں گمایا بھی۔ یہی جاتی واد کا زہر ہے۔ یہی ہے شودروں کے ساتھ بھیدبھاؤ۔ یہی ہے منودار کا ننگا ناچ۔ دیکھنا ہے کہ پولیس دبنگوں کے خلاف قانونی کارروائی کرتی ہے یا لیپا پوتی؟‘‘