گزرے آٹھ دنوں میں ایسے کئی معاملات ہوئے ہیں جن سے سوشل میڈیا کا ماحول گرمایا ہوا ہے۔ صارفین میں ناراضگی بھی دیکھی جا رہی ہے، اور برہمی بھی، وہ افسوس بھی کررہے ہیں اور جانبداری پر شکوہ کناں بھی ہیں۔
EPAPER
Updated: December 15, 2024, 4:11 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai
گزرے آٹھ دنوں میں ایسے کئی معاملات ہوئے ہیں جن سے سوشل میڈیا کا ماحول گرمایا ہوا ہے۔ صارفین میں ناراضگی بھی دیکھی جا رہی ہے، اور برہمی بھی، وہ افسوس بھی کررہے ہیں اور جانبداری پر شکوہ کناں بھی ہیں۔
گزرے آٹھ دنوں میں ایسے کئی معاملات ہوئے ہیں جن سے سوشل میڈیا کا ماحول گرمایا ہوا ہے۔ صارفین میں ناراضگی بھی دیکھی جا رہی ہے، اور برہمی بھی، وہ افسوس بھی کررہے ہیں اور جانبداری پر شکوہ کناں بھی ہیں۔ یوٹیوبرشیام سنگھ میٖرا نے لکھا کہ ’’سنبھل میں جو کچھ آج ہوا ہے، بے قصوروں کی جو جانیں گئی ہیں، اس کیلئے صرف بی جےپی ذمہ دارہے۔ اپنے سیاسی فائدے کیلئے لگاتار سماج کو توڑا جا رہا ہے۔ بی جے پی کی پیاس نہیں بجھ رہی ہے۔ اور نہ جانے کتنے قتل اور تشدد کے بعد اسے سکون ملے گا۔ پتہ نہیں عام لوگوں کو یہ بات کب سمجھ میں آئے گی؟‘‘اس معاملے پر رکن پارلیمان عمران مسعود کا ’جرنو مرر‘ کو دیا گیا بیان وائرل ہوگیا ہےجس میں بیچارگی اور برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’’ گھر میں رہے گا تو دنگائی گھس کر ماریں گے، باہر نکلے گا تو پولیس مارے گی، کیا کریں مسلمان؟ کیا حال کردیا ہے دیش میں ہمارا؟کیا ہورہا ہے؟ بہرائچ میں سڑک پر نہیں آئے تو گھر میں گھس کر مارا، اس کے بعد پورا بازار جلادیا، پولیس نے گولیاں ماردیں، (سنبھل) سروے پورا ہوگیا۔ کچھ نہیں ہواتو انہوں نے ساتھ میں آدمی بھیجے، نعرے بازی کی، جیسے ہی آدمی آمنے سامنے آئے، اُن کو اُدھر کیا اور اِدھر گولی ماری۔ ہوکیا رہا ہے بھئی؟ کوئی تو دیکھے گا۔ میں ہاتھ جوڑ کر سب سے گزارش کرتا ہوں، اللہ، خدا، بھگوان، ایشور کیلئے اس دیش کو مت جلاؤ، نفرت کی آگ میں سب جھلس جائیں گے، نفرت سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ‘‘سنبھل میں پولیس کارروائی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ’’جس طرح کی جارحیت ہوئی ہے وہاں پر، ہماری جان کی کوئی قیمت نہیں ہے؟کوئی بھی جائے گا، ماتھے پر گولی مارے گا، سینے پر گولی مارے گا....آپ کو روکناہی تھا تو لاٹھی چارج کرتے، ڈنڈے بجاتے، ہوائی فائر کرتے، پیروں پر مارتے لیکن سر اور سینے پر گولیاں چلائی گئیں۔ ‘‘ پرتیک پٹیل نے لکھا کہ ’’سنبھل کی مسجد کی طرح اگر مندروں کابھی سروے بھی ہونے لگا تو بہت سارے بودھ وِہار نکلیں گے۔ اسلئے یہ سب چھوڑئیے، بے روزگار نوجوانوں کو بے روزگاری سے نکالئے۔ دیش کی جنتا کو مہنگائی سے نکالئے۔ مسجد کے اندر سے مندر نکالنا بندکیجئے۔ اگر مندر کم لگتے ہیں تو نئے بنادیجئے۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے:سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ : ’’مہاراشٹر کے یہ انتخابی نتائج سمجھ سے پرے ہیں‘‘
ظلم اور نا انصافی کے بڑھتے معاملات کے سبب عامرعزیز کی نظم بعنوان ’’سب یادرکھا جائے گا‘‘ایک بار پھر سوشل میڈیا کے گلیاروں میں گردش میں ہے۔ یہ نظم عامر نے سی اے اے این آرسی مخالف مظاہروں کے ایام میں کہی تھی۔ جیتو برڈک نے سنبھل یوپی کا ہیش ٹیگ استعمال کرکے یہ نظم شیئر کی اور لکھا کہ ’’وقت نکال کر عامر عزیز کی یہ نظم سنئے۔ اگرمتفق ہوں تو ری پوسٹ کیجئے۔ ‘‘
اپنے اشتعال انگیز ’پروچنوں ‘ سے شہرت بٹورنے والے باگیشور (دھام) بابانے ایکس پر ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے کہ ’’میرے ساتھ شپتھ کھاؤ، جب تک ہندو راشٹر نہیں بن جاتا۔ تب تک تم میرا ساتھ دوگے۔ ‘‘اس آئین منافی موقف کی بیشتر صارفین نے مذمت کی۔ اجئے شکلا نے لکھا کہ’’جنہیں جمہوریت اور آئین کا علم نہیں، وہی ایسی بچکانی بات کرسکتا ہے۔ تنوع میں اتحاد والے ملک کو دھرم کے نام پر آگ میں جھونکنے کی یہ کوشش قابل مذمت ہے۔ پاکھنڈ کو چھوڑکر جس دن آپ تعلیم، صحت، روزگار کی بات اور کرپشن مٹانے کی بات کروگے اس دن آپ کا ساتھ دیں گے۔ ‘‘صحافی شاداب معیزی نے سوال قائم کیا کہ’’ذرا سوچئے، اس طرح بھارت کی سرزمیں پر کوئی مسلمان، مسلم ملک بنانے کی قسم کھاتا تو کیا ہوتا؟کوئی سکھ ملک، بودھ ملک کی قسم لیتا تو کیا ہوتا؟میڈیا، پولیس، سرکاری ایجنسی، سرکار کیا کرتے؟ سنودھان؟‘‘
فیکٹ چیک ویب سائٹ’آلٹ نیوز‘ کے شریک بانی محمد زبیر اس ہفتے ٹرینڈنگ میں ہیں۔ انہوں نے یتی نرسنہا نند کا ایک اشتعال انگیز بیان ایکس پر شیئر کیا اور پولیس سے کارروائی کا مطالبہ کیا۔ طرفہ تماشا دیکھئے کہ نفرت کے خلاف آواز اٹھانے پرانہیں کے خلاف غازی آباد پولیس نے کیس درج کرلیا۔ سوشل میڈیا پر زبیر کی حمایت میں ایک بڑی تعداد نے آواز اٹھائی ہے۔ ونئے کمار نے زبیرکی تصویر کیساتھ لکھا کہ’’ میں محمد زبیر کیساتھ ہوں، جو جھوٹ کو بے نقاب کرکے ملک کی سالمیت، اتحاد کیلئے بلاتکان کام کررہے ہیں۔ ‘‘ ڈاکٹر میدوسا نے لکھا کہ ’’میں نے پہلے بھی کہا ہے اور پھر دہراتی ہوں کہ زبیر عہد جدید کے مجاہد آزادی ہیں۔ ہمارے آباء و اجداد ہوتے تو ان پر ناز کرتے۔ ‘‘ نہرو نامی صارف نے لکھا ہے کہ’’کل حکومت ہند، بنگلہ دیش پر تنقید کررہی تھی کہ وہ اپنے شہری پر غداری کا کیس لگارہی ہے۔ آج یوپی پولیس نے محمد زبیر کے خلاف سیڈیشن کیس درج کرلیا۔ یہ تو صدی کی سب سے بڑی منافقت ہے۔ ‘‘
پی ٹی آئی کے احتجاج کے سبب پڑوسی ملک میں بھی ہنگامی حالات ہیں۔ پی ٹی آئی اپنے لیڈر عمران خان کی رہائی کیلئے سڑکوں پر اتر آئی ہے۔ اسے بڑے پیمانے پر عوامی حمایت بھی مل رہی ہے۔ سنیچر کو یہ افواہ اڑگئی کہ جیل میں بند عمران خان کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔ اس کا اثر تھا کہ ایکس پر ہیش ٹیگ’’خان کی زندگی خطرے میں ‘‘ٹرینڈنگ کرنے لگا۔ فیصل خان نے لکھا کہ ’’آواز اٹھائیں، آواز اٹھانا جنازے اٹھانے سے بہتر ہے‘‘ محمد خالد نے لکھا کہ ’’جب تک خواب زندہ ہیں، امید زندہ ہے، عمران خان زندہ ہے۔ مایوسی کفر ہے، امید رکھیں شہیدوں کا لہو انقلاب لائے گا۔ ‘‘ہدایت خان نامی صارف نے لکھا کہ ’’آپ پی ٹی آئی والوں کو مارسکتے ہیں، آپ ان کو دباسکتے ہیں، آپ ان کو بھگاسکتے ہیں، مگر یادرکھنا آپ ان کو ہرا نہیں سکتے۔ ‘‘
چلئے جاتے جاتے کچھ ہلکا پھلکا مذاق ہوجائے۔ مہاراشٹر الیکشن میں ’مہایوتی‘ جیت تو گئی لیکن اب تک وہ زمام اقتدار سونپنے پر کشمکش کا شکار ہے۔ بذلہ سنج اس پر ’میمس‘ کے شگوفے چھوڑ رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک پوسٹ ’پاکٹ تدنیا‘ نامی ہینڈل سے کی گئی، جس میں اجیت پوار کی تصویر پر ’مستقل نائب وزیراعلیٰ‘ لکھا ہے اور عقب کی کرسی پر ’وزیراعلیٰ‘ درج ہے جو خالی ہے۔ دیپک سنگھ نے چمپئی سورین اور ایکناتھ شندے کی تصویر کیساتھ لکھا کہ’’بس اُنیس بیس کا فرق ہے‘‘ تصویر میں ان دونوں لیڈران کے نام میں بھی پھیر بدل کی گئی ہے اور انہیں ’چمپئی شندے‘ اور ’ایکناتھ سورین‘ لکھا گیا ہے۔