دہلی اسمبلی انتخاب کے نتائج نے سوشل میڈیا گلیاروں کو گرمادیا ہے۔ تاثرات اور ردعمل کا سیل رواں جاری ہے۔
EPAPER
Updated: February 15, 2025, 2:36 PM IST | Mumbai
دہلی اسمبلی انتخاب کے نتائج نے سوشل میڈیا گلیاروں کو گرمادیا ہے۔ تاثرات اور ردعمل کا سیل رواں جاری ہے۔
دہلی اسمبلی انتخاب کے نتائج نے سوشل میڈیا گلیاروں کو گرمادیا ہے۔ تاثرات اور ردعمل کا سیل رواں جاری ہے۔ بھاجپا سمرتھک تو خوشی سے پھولے نہیں سمارہے۔ ایک جانب وہ اپنی چہیتی پارٹی کے۲۷؍ سالہ بن باس ختم ہونے سے بے حد مسرور ہیں وہیں دوسری جانب آپ حامی بے یقینی و صدمے سے دوچار ہیں۔ انہیں گمان تھا کہ ’ہنوز دلی دور است‘ لیکن دہلی دیکھتے ہی دیکھتے ان کی پارٹی کے ہاتھ سے چھن گئی جبکہ کانگریس حامی اپنی’اولڈ گرینڈ پارٹی‘ کے کچھ نہ کر پانے سے بھی مطمئن ہیں۔ وہ کیجریوال اینڈ کمپنی کی خواری سے دل کو بہلا رہے ہیں۔
انتخابی نتیجے پر نونیت مشرا نامی صارف نے ایکس پر لکھا کہ ’’جس عوامی ادراک کے سرمائے سے کیجریوال دہلی کی سیاست میں چھائے، اسے ہی اپنی بیجا جاہ طلبی میں گنوابیٹھے۔ مفت پانی،بجلی سے دو الیکشن جیتے تھے۔ جنتا کو اس کے عوض بدتر انفراسٹرکچر کی قیمت چکانی پڑی۔کیجریوال کے پاس کچھ نیا نہیں تھا۔ ادھر بی جے پی نے پرانی اسکیموں کے ساتھ نئی اسکیموں کا اعلان کرکے نہلے پہ دہلا دے مارا۔ یہ سچ ہے کہ ووٹ شیئر دیکھیں تو نزدیکی مقابلہ رہا لیکن سیٹوں میں دگنے سے زیادہ کا فرق رہا۔‘‘آپ کی ہار پر ڈاکٹر مونیکا سنگھ نے لکھا کہ’’دہلی میں آپ، کم از کم ۲۰؍ سیٹیں کانگریس کی وجہ سے ہار گئی۔ اب کیجریوال کو شاید سمجھ میں آجائے کہ ایسے ہی آپ کی وجہ سے کانگریس ہریانہ میں ہاری تھی۔‘‘ایسا ہی خیال دبے لفظوں میں اوما شنکر سنگھ نے بیان کیا کہ ’’سیاسی فلسفہ سبھی کیلئے ایک سا ہونا چاہئے۔ آپ کہیں ووٹ کٹوا بنیں گے تو دوسری جگہ کوئی آپ کو ہاتھ دکھاکر آپ کیلئے ووٹ کٹوا بن سکتا ہے۔ پھر درد کیسا، شکایت کیسی؟‘‘محمد آصف خان نے طنزاً لکھا کہ ’’کیجریوال اینڈ کمپنی نےخودکو ہندتواکا پوسٹر بوائز دکھانے کا ہر ممکن جتن کیا لیکن پھر بھی ہارگئے۔ جب لوگوں کے پاس بڑا ریچارج کا متبادل ہو تو وہ چھوٹے ریچارج پر کیوں اکتفا کریں گے؟‘‘
یہ بھی پڑھئے: ملک کے عدالتی نظام میں اصلاحات کی فوری ضرورت
دہلی کے فری لانس صحافی مہتاب عالم نے اس صورتحال پر یوں طنز کیا کہ’’جو لوگ کانگریس پر آپ کی ہار کا ٹھیکرا پھوڑرہے ہیں،یا پھوڑنا چاہ رہے ہیں، ان سے پوچھنا تھا کہ کیا کانگریس نے آپ کو جتانے کا ٹھیکہ لے رکھا تھا؟ ایک بات واضح ہے: جب جنتا کو اسی دام میں اوریجنل مال مل رہا ہوتو کوئی سیکنڈ ہینڈ کاپی کیوں خریدے؟ باقی گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ آج ہار گئے تو کیا ہوا۲۰۲۹ءمیں کیجریوال جی کو پردھان منتری بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ منے کہہ رہے ہیں۔‘‘
قابل ذکر ہے کہ آپ کی ہار پر وہ بھی خوش ہیں جو کبھی ’آپ کے‘ ہوا کرتے تھے۔ میمز ایکسپرٹ نے ادھر بھی توجہ دلائی۔ پولیٹیکل کیڑا نامی اکاونٹ سے ایسا ہی ایک مِیم شیئر کیا گیا جس میں اوپر مودی اور شاہ مسکرارہے ہیں اور نیچے کمار وشواس، سواتی مالیوال اور انا ہزارے نظر آرہے ہیں۔ لکھا تھا ہم خوش تھے لیکن پر ہم سے زیادہ خوش تین اور لوگ تھے۔سوربھ ترپاٹھی نے کانگریس پر تنقید کی کہ’’مستقل مزاجی کوئی کانگریس سے سیکھے، لگاتار تین الیکشن میں صفر لانا آسان کام نہیں ہے۔ خیر وہ اپنے بڑے مقصد میں کامیاب ہوگئے ہیں، آپ کو اقتدار سے ہٹانے میں۔‘‘
سابق کانگریس لیڈر سنجے جھا رقمطراز ہیں کہ" دہلی میں مسلسل تیسری بار صفر پر رہنا بھلایا نہیں جاسکتا۔ اس سے قبل تک(کانگریس نے) شیلادکشت جی کی قیادت میں تین بڑی کامیابیاں حاصل کی تھیں۔ دراصل انہوں نے دہلی کی کایا پلٹ کی۔ وہ محض اسلئے ہاری تھیں کہ اس وقت یوپی اے کے متعلق منفی بیانیہ چلایا گیا تھا۔ کانگریس ان کی وراثت کو سنبھال نہیں سکی۔ فٹ بال میں جس طرح خراب سیزن جانے پر کوچ کو ملازمت گنوانی پڑتی ہے، اسی طرح اس شرمناک ہار پر بھی اقدام کیا جانا چاہئے۔ علاوہ ازیں اس ہار نے کانگریس کارکنان اور حامیوں کی ہمت پست کی ہے۔ ایسی ہار جمہوریت کو بچانے اور آئینی فرض کو نبھانے کی اپوزیشن کی لڑائی کو بھی کمزور کرتی ہے۔ کیا کانگریس میں کوئی میری یہ بات سن رہا ہے؟‘‘
داراب فاروقی نے اپوزیشن کو یوں لتاڑا کہ’’ اپوزیشن اسی طرح ہر الیکشن ہارے گاکیونکہ وہ سب پر انگلی اٹھائیں گے لیکن اپنے گریبان میں نہیں جھانکیں گے. ہریانہ کے بعد سے سنگھیوں نے اپنی حکمت عملی اور حربہ تبدیل کر لیا ہے۔ اپوزیشن کو یہ سب دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ حیران کن بات ہے کہ اپوزیشن کے چوٹی کے لیڈران کے پاس اس کا کوئی توڑ نہیں۔‘‘
الیکشن گہماگہمی میں کچھ باتیں تو کہنی رہ گئیں۔ ان میں مبینہ غیر قانونی ہندوستانی تارکین وطن کے امریکہ بدری کا معاملہ اورٹرمپ کی بیان بازیاں قابل ذکر ہیں۔ جن پر سوشل میڈیا صارفین نے تبصرے بازیاں کیں لیکن دو معاملات بیان کئے دیتے ہیں۔ پچھلے دنوں ممبئی کے کھارگھر میں تبلیغی اجتماع ہوا جس کی ویڈیوز وائرل ہوئیں۔ یہاں مسلم بھائیوں کو پانی اور ناشتہ فراہم کرتے ہندو بھائی نظر آئے۔ ایک جگہ ایک سردار جی ہاتھ جوڑے مسلم بھائیوں کو سلام نمسکار کرتے دکھائی دئیے۔ ادھر کمبھ میلے میں بھگدڑ کے بعد مسلمان پریشان حال ہندو َزائرین کی دادرسی کو دوڑ پڑے۔ ٹھٹرادینے والی ٹھنڈ سے بچانے اور بھوکوں کو کھانا کھانے کیلئے کہیں مسجد کے صحن کھولے گئے، کہیں مسلمانوں نے اپنے گھروں کے در وا کئے۔ ایسے وقت میں جب نفرت کے سوداگر بات بے بات فرقہ واریت کا زہر گھول رہے ہوں ایسے مناظر دل کو سکون دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین نے ان ویڈیوز کو خوب پسند کیا اور شیئر کیا۔ بہرحال یہ سطریں لکھتے ہوئے ہمیں دیا نند کامبلے کی یہ ایکس پوسٹ نظر آئی جو اسی بھائی چارے کی ترجمان معلوم ہوئی۔ انہوں نے یہ منظوم پیغام شیئر کیا کہ’’ مندر میں دانہ چگ کر چڑیا/مسجد میں پانی پیتی ہے/میں نے سنا ہے کہ رادھا کی چنری / کوئی سلمہ بیگم سیتی ہیں/ایک رفیع تھا محفل میں/رگھوپتی راگھو گاتا تھا/ایک پریم چند جو بچوں کو/عیدگاہ سناتا تھا۔‘‘
چلئے ہم کالم کو جعفرملیح آبادی کے اس شعر پر تمام کررہے ہیں:
دلوں میں حب وطن ہے اگر تو ایک رہو
نکھارنا یہ چمن ہے اگر تو ایک رہو۔