ہر بار کی طرح اس بار بھی بجٹ کے تئیں عام آدمی پُرامید تھا۔ تاہم یہ بجٹ بھی اس کے بجٹ سے باہرکارہا۔ سوشل میڈیا کے تاثرات یہ گواہی دے رہے ہیں۔
EPAPER
Updated: July 28, 2024, 5:20 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai
ہر بار کی طرح اس بار بھی بجٹ کے تئیں عام آدمی پُرامید تھا۔ تاہم یہ بجٹ بھی اس کے بجٹ سے باہرکارہا۔ سوشل میڈیا کے تاثرات یہ گواہی دے رہے ہیں۔
ہر بار کی طرح اس بار بھی بجٹ کے تئیں عام آدمی پُرامید تھا۔ تاہم یہ بجٹ بھی اس کے بجٹ سے باہرکارہا۔ سوشل میڈیا کے تاثرات یہ گواہی دے رہے ہیں۔ اَش نیرگروور نے لکھا کہ’’بجٹ ۲۰۲۴ء: بیزارکن، بے اثر اور بے معنی:یہ بجٹ پیش کرنے سے تو بہتر ہوتا کہ وہ کہہ دیتے کہ اس بار من سے کچھ نہیں کررہے ہیں، اگرکچھ کرنا ہو گا تو اگلی بار دیکھ لیں گے۔ بہتر یہ ہوتا کہ امبانی کی ایک اور شادی دیکھ لی جاتی، کم سے وقت کا صحیح استعمال تو ہوجاتا۔ ‘‘ابھیلاش نامی شخص نے شیئر بازار میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی ترجمانی کرتے ہوئے فلم ہنگامہ کے مشہور منظر کو شیئر کیا جس میں راجا( راجپال یادو) غم و غصے میں کہہ رہا کہ’’ ہم کو مارو، ہم کو زندہ مت چھوڑو سا......‘‘ابھیلاش نے لکھا کہ ’’شارٹ ٹرم کیپٹل گین ٹیکس ۱۵؍ سے ۲۰؍ فیصد کردیا گیا۔ لانگ ٹرم کیپٹل گین ۱۰؍ سے ۵ء۱۲؍ فیصد ہوگیا، ایس ٹی ٹی شرح ۰۱ء۰؍سے ۰۲ء۰ ہوگئی.....اس اضافے کے سبب سرمایہ کاروں کی یہ حالت ہوگئی ہے۔ ‘‘میشا باجوا چودھری نے بجٹ کے حوالے سے ایک مختصر تاثراتی ویڈیو شیئر کیا اور لکھا کہ ’’بجٹ چیز ہی ایسی ہے، نہ سمجھ میں آتا ہے اور نہ ہی قابو میں ‘‘بجٹ میں بہار اور آندھرا پردیش کواسپیشل فنڈ ملنے پربھی بیسیوں مِیم گردش میں رہے۔ ویلّو نامی صارف نے ایکس پوسٹ میں (سپرہیرو)آنٹ مین اور ایکس مین کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’اس بار کے بجٹ میں بہار اور آندھرا پردیش‘‘ کا حال۔ کرن واگھمارے نے فیس بک پر ایک خاکہ شیئر کیا جس میں ایک ٹیچر (وزیر مالیات) تختہ سیاہ پر ’’اے فار آندھرا اور بی فار بہار‘‘ لکھ رہی ہیں۔ اسکوپ ہُوپ نامی’پیج ‘سے فلم ’سلام بامبے‘ کا ایک منظر شیئر کیا گیا جس میں نانا پاٹیکر سے بچی آکر کہتی ہے ’’بابا میرے ساتھ کھیلو نا‘‘اس مکالمے کی جگہ’’ بجٹ، بجٹ میرے لئے کچھ کرو نا‘‘ ڈال دیا گیا اوراس کے جواب میں نانا اس بچی کو اٹھاکر گیلری کے باہر کچھ لمحوں کیلئے جھنجھوڑکر ڈرادیتے ہیں ۔ بجٹ کے کچھ اعلانات کے متعلق الزام بھی لگایا گیا، انکت میانک نے لکھا کہ’’ راہل گاندھی کی گارنٹی بجٹ میں پیش، وزیر مالیات نرملا سیتارمن نے ایک کروڑ نوجوانوں کو ملک کی ۵۰۰؍ ٹاپ کمپنیوں میں انٹرن شپ دینے کا جو اعلان کیا ہے، یہ اعلان راہل گاندھی کی یوا نیائے اسکیم کا چربہ ہے۔ راہل بھلے ہی اقتدار میں نہ ہوں، لیکن حکم تو وہ چلارہے ہیں۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ : ’’یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے‘‘
کانوڑیاترا اور کانوڑی بھی سوشل میڈیا پرپچھلے ۱۵؍دنوں سے موضوع بحث ہیں۔ کہیں کھانے میں پیاز لہسن پر کانوڑیوں کی ہنگامہ آرائی ہے تو کہیں دھکامکی کے الزام پر یہ تشددو ہنگامہ برپا کررہے ہیں۔ فلم میکر ونود کاپڑی نے غازی آباد میں ہونیوالے ایک پرتشدد معاملے کا ویڈیو شیئرکرتے ہوئے لکھا کہ ’’کانوڑیوں کے آتنک کی نئی تصویر۔ ان غنڈوں کو سڑک پر کسی کو مارنے پیٹنے کی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ ‘‘ اجیت انجم نے ایک دیگر مقام کا ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’کانوڑیوں کا ہنگامہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے، بھولے کا نام لے کر بھولے نام سے پکارے جانے والے فسادی دستے کی ایسی تصویریں ہر روز آرہی ہیں۔ سب کے چہرے پہچانے جارہے ہیں۔ سب کپڑوں سے پہچانے جارہے ہیں لیکن مودی- یوگی کا راج ہے تو پولیس بھی تماش بین بنی ہوئی ہے۔ ‘‘اس سب کے باجود لوگ کانوڑیوں کی مہمان نوازی کررہے ہیں، انہیں کھانا پانی دینے کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر جابجا نظر آرہی ہیں۔ یاد آیاکہ ہری دوار میں تو ایک ڈوبتے ہوئے کانوڑی کو بچانے کیلئے ایس ڈی آر ایف کے عاشق علی نامی ہیڈکانسٹبل نے گنگاندی کی تند لہروں کی پروا نہیں کی۔ سوشل میڈیا پر عاشق علی کی خوب پزیرائی کی گئی۔ وجئے دیو یادو نے لکھا کہ ’’ہندو مسلمان کرکے کیا فائدہ، جب ڈوبتے ہوئے کانوڑئیے کو بچانے کیلئے ’آصف(عاشق)‘کو ہی گنگا میں چھلانگ لگانی پڑی۔ اب سارا پانی بھی مسلمان ہوگیا۔ ہری دوار جہاں ایک کانوڑیا تیزلہروں میں ڈوبتا ہوا جارہا تھا، ایس ڈی آر ایف جوان شبھم اور آصف نے مل کر اس کی جان بچائی۔ ‘‘
اب کچھ باتیں عالمی امور کی کرتے ہیں۔ جوتے اور اسپورٹس لوازمات ساز کمپنی ’اڈیڈاس‘سے تو آپ واقف ہی ہیں ۔ یہ جرمن کمپنی اپنے متنازع اقدامات کے باعث موضوع بحث ہے۔ اس نے فلسطینی نژاد امریکی ماڈل بیلا حدیدکو اپنی اولمپک کی اشتہاری مہم سے ہٹادیا۔ اسکا سبب بیلا کافلسطینیوں سے اظہار یکجہتی اور اسرائیلی مظالم کیخلاف آواز بلند کرنا تھا۔ اڈیڈاس نے یہودی تنظیموں کے دباؤ میں آکر فیصلہ تو کرلیا لیکن دنیا بھر میں اس اقدام کی مخالفت کی گئی۔ معروف برازیلین ناول نگار پاؤلو کوئیلہو نے بنا کچھ لکھے بہت کچھ کہہ دیا۔ انہوں نے ہٹلر کا کارٹون شیئر کیا جس پر اس کی مونچھوں کی جگہ اڈیڈاس کا لوگو بنا ہوا تھا۔ مینل مارکیز نے لکھا کہ ’’اڈیڈاس ہمیشہ سے نازیوں کاطرفدار رہا ہے، اس نے بیلا حدید کو فلسطین کی حمایت کرنے پر پیرس اولمپک کی اپنی تشہیری مہم سے ہٹادیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں عدم اظہار ہی کوتوسینچا جاتا ہے۔ ‘‘نیلم علی نے لکھا کہ ’’بیلا !انسانیت نوازی کے سبب بڑا برانڈ بھلے ہی تمہارے ہاتھوں سے چلاگیا ہو، لیکن تم نے دُگنا پیار اور حمایت پالیا ہے، وقت آگیا ہے کہ اڈیڈاس کیساتھ اسٹاربکس جیسا سلوک کیا جائے۔ ‘‘ہٹلر سے یاد آیا کہ اس ہفتے یاہو کا امریکی پارلیمان میں استقبال ہوا ہے۔ تاہم راشدہ طلیب سمیت بہت سے اراکین نے انہیں نسل کش اور ظالم کی تختیاں دکھائیں۔ کوری بُش نے لکھا کہ’’پی ایم یاہو جنگی مجرم ہیں، یہ بیمار ذہنیت ہے کہ انہیں کانگریس میں عزت دی گئی، تاریخ ہمیشہ انہیں یاد رکھے گی جو ظلم کے ساتھ کھڑے ہوئے اور انہیں بھی جنہوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ ‘‘ جِل اسٹین نے لکھاکہ ’’نیتن یاہوکا کانگریس سے کیا واسطہ، انہیں تو ہیگ (عدالت) میں ہونا چاہئے۔ اس بدبخت کو گرفتار کیا جائے۔ ‘‘برنی سینڈرز نے لکھا کہ ’’نیتن یاہو نہ صرف جنگی مجرم ہیں بلکہ دروغ گو بھی ہیں۔ تمام این جی اوز یہ کہہ رہی ہیں کہ ان کی حکومت امداد کو روک رہی ہے جس سے ہزاروں بچے بھکمری کا شکار ہیں۔ اسرائیلی نیتن یاہو کی اقتدار سے بے دخلی چاہتے ہیں اسلئے وہ پرچار کیلئے امریکی کانگریس آئے ہیں۔ ‘‘ موضوعات تو اوربھی ہیں لیکن اب نہ لکھنے کی سکت ہے اور نہ ہی جگہ۔ خدا حافظ