• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ :’’۱۰؍ سال میں کتنےامتحانات بنا پیپر لیک کے ہوئے؟‘‘

Updated: June 16, 2024, 1:18 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai

نیٹ امتحان کی دھاندلی پر این ٹی اے پر لگے الزامات کی جانچ خود این ٹی اے کرے گا۔ پھر تو جانچ ’غیر جانبدارانہ‘ ہونے کی بجائے ’لیپاپوتی‘ ہوگی۔

Students are protesting. Photo: INN
طلبہ احتجاج کرتے ہوئے۔ تصویر: آئی این این

سوشل میڈیا کے گلیاروں میں پچھلے ایک ہفتے سے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ موضوع بحث ہے۔ بالخصوص پاکستانی ٹیم اور کھلاڑی کرکٹ مداحوں کے نشانے پر ہیں۔ پاکستانی مداح تو بپھرہی گئے ہیں۔ انہوں نے اپنی ٹیم کو ٹرول کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ ہوا یہ ہے کہ پڑوسیوں کی ٹیم سپر ایٹ مرحلے کی دوڑ سے باہر ہوگئی ہے۔ اسے پہلے نووارد یو ایس اے نے ہرایا اور پھر ٹیم انڈیا کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ کینیڈا سے وہ باآسانی جیت تو گئی لیکن آئرلینڈ کے مقابلے میں بارش نے اس کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اس صورتحال پر شاہ زیب نامی صارف نے ایک تصویر کے ساتھ لکھا کہ ’’عید(الاضحٰی) گھر پر منانے کیلئے پاکستانی ٹیم جھوم اٹھی۔ ‘‘ پاکستانی وکٹ کیپر اعظم خان کا بھی بڑا مذاق بنایا گیا۔ حالانکہ اس جارح مڈل آرڈر بلے باز نے پی ایس ایل کی کارکردگی سے ٹیم میں جگہ تو بنالی لیکن انٹرنیشنل کرکٹ میں کچھ خاص نہیں کرسکے۔ لوگوں نے ان کے بڑھتے وزن اور جسامت پر پبھتیاں کسیں۔ ’ دِنڈا اکیڈمی‘کے ایکس اکاؤنٹ نے تبصرہ کیا کہ ’’ اعظم خان ٹیم کے ساتھ پاکستان نہیں لوٹ رہے، کیونکہ فلوریڈا میں نئے ریسٹورنٹس کی ان کی کھوج ابھی باقی ہے۔ ‘‘ اعظم خان کے متعلق ایسے بیسیوں بھدے تبصرے کئے گئے۔ آپ میں سے جنہیں علم نہ ہو انہیں بتادیتے ہیں کہ یہ سابق کرکٹر معین خان کے فرزند ہیں۔ وہی معین جو اپنی چست کیپنگ اور وکٹوں کے پیچھے سے ’شاباش شکی، شاباش مشی‘ جیسی آوازوں کے ساتھ گیند بازوں کا حوصلہ بڑھاتے تھے۔ خیر، اعظم ہی کیا پوری ٹیم مداحوں کے عتاب کا شکار ہے۔ ہندوستان سے ملی ہار پر آصف جٹ نامی صاحب نے ویڈیو بناکر کہا کہ ’’پاکستانیو! کرکٹ کھیل کر کیا کروگے، واپس آجاؤ، ہمارا قومی کھیل تو ہاکی ہے۔ ‘‘ 

یہ بھی پڑھئے: سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ : ’’وقت سے پہلے خوش یا دکھی نہیں ہونا چاہئے....‘‘

ماسیر انٹرٹینمنٹ نامی اکاؤنٹ سے فیس بک پر ایک مزاحیہ ویڈیو شیئر کیا گیا، جسے اے آئی کی مددسے ردوبدل کرکے اس میں بابراعظم کاچہرہ اور آواز جوڑدیا گیا جو رپورٹر سے کہتا ہے کہ’’ اس وقت ابھی ہم کچھ بتانہیں سکتے کیونکہ ہم ڈسپریشن (ڈپریشن) میں ہیں۔ ‘‘ احتشام الحق نے ایکس پر لکھا کہ یو ایس اے کے جز وقتی کرکٹر اور کل وقتی انجینئرس کوالیفائی کرگئے اور پاکستان کے پارٹ ٹائم کرکٹر اور فل ٹائم ماڈلس وطن لوٹ رہے ہیں۔ ‘‘ پاکستانی کرکٹ شوز پر تو بابر اینڈ کمپنی کی دھجیاں ہی اڑادی گئیں۔ ان کے اسٹرائک ریٹ، ایوریج اور کارکردگی کا ایسا حساب کتاب کیا گیا کہ مانو کرکٹ کی تاریخ میں ان سے کوئی گناہ عظیم سرزد ہوگیا ہے۔ ایسے شوز کے کلپس بھی پاکستانی مداح شیئر کرکے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑ رہے ہیں۔ 
 ایسا نہیں ہے کہ صرف کھیل ہی سوشل میڈیا پر ٹرینڈنگ رہا۔ سیاست اب بھی موضوع بحث ہے۔ مرکز میں این ڈی اے نے حکومت سازی کرلی، نئی حکومت نے کام کاج بھی سنبھال لیا ہے، لیکن توڑ جوڑ کی قیاس آرائیاں اب بھی گرم ہیں۔ انکت میانک نے لکھا کہ’’سینئر این ڈی اے حلیف راج بھر کھل کر بی جے پی اور مودی کی مخالفت کررہے، این ڈی اے تاش کے پتوں کی طرح ڈھہ جائے گی، یہ مائناریٹی حکومت گرجائے گی۔ ‘‘ این سی پی اجیت پوار کے لیڈر چھگن بھجبل کا ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے رضوان احمد نامی صارف نے لکھا کہ ’’این ڈی اے کے حلیف حکومت کے خلاف کھل کر بول رہے ہیں، لگتا ہے مرکزی حکومت کچھ ہی دنوں کی مہمان ہے...‘‘ایک طرف حکومت مخالفین اپوزیشن لیڈران کے بیانات اور حلیف پارٹیوں کے باغیانہ تیوروں سے چٹکیاں کاٹ رہے ہیں وہیں حکومت نواز بھی پیچھے نہیں ہیں۔ اس طرح کے دعوؤں اور قیاس آرائیوں کا تمسخر اڑاتے ہوئے سورج کمار بودھ نے لکھا کہ’’پنیہ پرسون باجپئی کا گدگدی پروگرام جاری ہے۔ چناؤ کے بعد یہ مہاشئے ہرروز این ڈی اے کی سرکار گراگر انڈیا الائنس کی سرکار بنا دیتے ہیں۔ اب پانچ سال ایسے ہی گدگدی پروگرام چلتا رہے گا۔ ‘‘
 ہفتے بھر سے نیٹ پر بھی گھمسان مچا ہوا ہے۔ اس پر عوامی حلقوں سے تحفظات کا اظہار ہورہا ہے۔ ایکس پر ارون سبھاش یادو نے لکھا کہ اب نیٹ، بالکل بھی نیٹ اینڈ کلین نہیں ہے، لاکھوں بچوں کے درجنوں سوال اب بھی برقرار ہیں۔ سپریم کورٹ کو نیٹ میں ہونے والی(مبینہ) بدعنوانیوں کی سی بی آئی جانچ کروانی چاہئے۔ ‘‘ چیتن ورما نے لکھا کہ ’’نیٹ جیسے امتحان کے پیپر لیک ہوں گے تو ایسے کیسے کام چلے گا۔ جو بچے تیاری کررہے ہیں ان کا کیا ہوگا؟ سرکار ٹھوس قدم اٹھائے... ‘‘سمن نے نیٹ معاملے پر این ٹی اے چیئرمین کے ذریعہ جانچ کرائے جانے کی خبر کا تراشہ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ’ ’نیٹ امتحان کی دھاندلی پر این ٹی اے پر لگے الزامات کی جانچ خود این ٹی اے کرے گا۔ پھر تو جانچ ’غیرجانبدارانہ‘ہونے کی بجائے ’لیپاپوتی‘ ہوگی۔ ۲۳؍ لاکھ بچوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہے اور این ٹی اے کو مذاق لگ رہا ہے؟.....‘‘ سویتا کماری نے لکھا کہ ’’کل ہمارے وزیر تعلیم کہہ رہے تھے کہ نیٹ یوجی امتحان میں پیپر لیک کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ آج کہہ رہے ہیں کہ خامی پائی گئی تو این ٹی اے سے جوابدہی ہوگی۔ منتری جی بتائیں کہ پچھلے۱۰؍ سال میں کتنے مقابلہ جاتی امتحانات بنا پیپر لیک کے ہوئے؟ اور ان پر کیا کارروائی ہوئی؟ ‘‘کیپٹن سوریہ سین یادو(پائلٹ سوریہ سین) نے لکھا کہ ’’اگر سرکار اور این ٹی اے کادعویٰ ہے کہ نیٹ کا پیپر لیک نہیں ہوا تھا تو صرف ایک کام کریں۔ ۵۶۰؍ یا اس سے زیادہ مارکس پانے والے طلبہ کی ایک لسٹ بنائیں جس میں ان کے اور طلبہ کے اصل پتے ہوں، اور وہ عام کردیں، ملک کو پتہ چل جائے گا کہ کچھ ’’اسپیشل طلبہ‘‘ اپنے گھر سے پانچ سو، ہزار کلومیٹر دور کسی خاص ایگزام سینٹر پر ہی امتحان دینے کیوں گئے تھے؟ بس اتنا کافی ہے۔ ‘‘
 قارئین کرام، یہاں تک آتے آتے ہمارے پاس بھی اب مزید جگہ نہیں بچی ہے، اسلئے ہم بھی کہنے پر مجبور ہیں کہ بس آج کیلئے اتنا کافی ہے۔ والسلام۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK