جھوٹ کے پیر بھلے نہ ہوں، لیکن سوشل میڈیا نے اسے پر ضرور دے دئیے ہیں۔ اسی لئے آئے دن نت نیا جھوٹ بے پر کی طرح اڑتا ہوا ہواؤں میں زہرگھولتارہتا ہے۔
EPAPER
Updated: August 25, 2024, 4:49 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai
جھوٹ کے پیر بھلے نہ ہوں، لیکن سوشل میڈیا نے اسے پر ضرور دے دئیے ہیں۔ اسی لئے آئے دن نت نیا جھوٹ بے پر کی طرح اڑتا ہوا ہواؤں میں زہرگھولتارہتا ہے۔
جھوٹ کے پیر بھلے نہ ہوں، لیکن سوشل میڈیا نے اسے پر ضرور دے دئیے ہیں۔ اسی لئے آئے دن نت نیا جھوٹ بے پر کی طرح اڑتا ہوا ہواؤں میں زہرگھولتارہتا ہے۔ بنگلہ دیش بحران کی مثال لیجئے۔ نفرتی چنٹوؤں نے وہاں کی خبروں کو توڑمروڑ کر خوب جھوٹ پھیلایا۔ رہی سہی کسر گودی میڈیا نے پوری کردی۔ ایسا ہی ایک معاملہ سنئے۔ توفیق اسلام نامی انجینئر کے ساتھ کچھ لوگوں نے بدتمیزی کی۔ اسے نفرتی چنٹوؤں نے فرقہ وارانہ رنگ دے دیا۔ جھوٹ پھیلایا گیا کہ ہندوپروفیسر کے ساتھ بدتمیزی کی گئی۔ زعفرانی ٹرولز نے اس فیک نیوز کو خوب پھیلایا۔ حد تو یہ ہوئی کہ دوہندی نیوز چینل اس جھوٹی خبر کولے اڑے۔ ’آلٹ نیوز‘ نے ’فیکٹ چیک‘ کے ذریعہ اس جھوٹ کی قلعی اتاردی مگر نفرت کے سوداگروں کو اپنی اور اپنے آقاؤں کی دکان جو چمکانی ہے۔ ایسی ہی ان گنت جھوٹی خبریں سوشل میڈیا پر پھیلائی گئیں۔ جن کی کئی ملکی غیرملکی خبررساں ویب سائٹس نے تردید کی۔
’ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ‘ کی ایسی ایک رپورٹ میں تجزیہ نگار نے لکھا ہے کہ’’فیکٹ چیکرز کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کے اقلیتی سماج کے تشدد کا نشانہ بننے کے بیشتر دعوے یا تو بڑھاچڑھاکر پیش کئے گئے یا پھر غلط تھے۔ اس کا مقصد اسلاموفوبیا کو ہوا دینا تھا۔ کچھ ہندوتشدد کا شکار بنے، لیکن ان کے ہدف تشدد بننے کی وجہ ان کی مذہبی شناخت نہ ہوکر سیاسی وابستگی تھی۔ مظاہرین نے عوامی لیگ کے لیڈران، کارکنان اور ان کے ہمنواؤں کو نشانہ بنایاجن میں سبھی مذہب کے لوگ شامل تھے۔ ‘‘
آئیے ہفتے کے دوسرے اہم موضوع ’بلڈوز راج‘کی بات کرتے ہیں۔ ہوا یہ ہے کہ چھترپور(ایم پی) میں رام گیری کے گستاخانہ بیان کے خلاف مظاہرہ کیا گیا۔ پولیس نے الزام لگایا کہ اس دوران مظاہرین نے پولیس اسٹیشن پر پتھراؤ کیا۔ موہن یادو سرکار نے یہ سنتے ہی آناً فاناً مبینہ کلیدی ملزم کے گھر اور املاک کو منہدم کرنے کا فرمان جاری کردیا۔ یوپی کی طرز پرایم پی میں بھی انتظامیہ کی من مانی کارروائی کی خبر جیسے ہی عام ہوئی سوشل میڈیا پر بحث چھڑگئی۔ لوگوں نے اس پرشدید برہمی اور ناراضگی ظاہر کی اور سپریم کورٹ سے ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔ گو تم بھاٹیانے اس سلسلے میں لکھا کہ ’’مجھے حیرت ہے کہ بلڈوزر راج پر سپریم کورٹ نے اب تک ازخود نوٹس کیوں نہیں لیا؟... ایسا کیوں ہوا ؟ کیا کورٹ کو لگتا ہے کہ وہ بلڈوزر راج کو روک پانے کی طاقت نہیں رکھتا؟یا پھر وہ بھی قانون شکنی کے الزام پر انہدامی اقدام سے متفق ہے؟‘‘
یہ بھی پڑھئے:سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ : ’’یہ کیا تماشا چل رہا ہے؟‘‘
کانگریس کے میڈیا پینالسٹ سریندر راجپوت نے لکھا کہ ’’جو لوگ حاجی شہزاد کے اس ٹوٹے مکان اور ٹوٹی کاروں پر خوش ہورہے ہیں وہ یادرکھیں بلڈوزر سرکارکے اس ایکشن پر خوش ہونے والوں ایک دن تمہارا مکان اورکار بھی اس کی زد میں آئیں گے، تب بھی ہنسنا، رونا مت۔ ‘‘صحافی کاشف کاکوی نے لکھا کہ ’’یہ کھلی نفرت ہے، انصاف نہیں !ایم پی سرکار نے چھترپور میں کانگریس لیڈر نوشاد علی کے گھر کو غیرقانونی قرار دے کر زمین دوز کردیا۔ ساتھ ہی وہاں کھڑی تین کاروں کو بھی تباہ کردیا۔ ‘‘ذاکر علی تیاگی نے لکھا کہ ’’مدھیہ پردیش میں کانگریس لیڈر کے گھر اور گاڑیوں پر چلے بلڈوزر پر کانگریس کے مسلم لیڈروں نے پارٹی کے چپی سادھنے پر اسے کٹہرے میں کھڑا کرنا شروع کردیا ہے، ان لیڈروں نے پارٹی سے سوال کیا ہے کہ راہل گاندھی کہتے ہیں کہ ڈرومت پھر مسلمانوں کے معاملوں پر چپی کیوں ؟ کانگریس کو عام مسلمانوں کے نہ سہی اپنی پارٹی کے ان لیڈروں کے سوالوں کے جواب تو دینے چاہئیں، ان کے سوالات پرتو غور کرنا چاہئے۔ ملکارجن کھرگے، پرینکا گاندھی پارٹی کے مسلم لیڈروں میں آپ کی خاموشی کی وجہ سے آپ کے تئیں ناراضگی بڑھتی جارہی ہے۔ اپنےان مشیروں سے صلاح لیجئے، جنہیں لگتا ہے کہ مسلمانوں کی لاشوں پر بولنے سے ہندو ووٹ کھسک جائے گا۔ ‘‘
شایدانہی تنقیدوں کا اثر ہے کہ پرینکا گاندھی نے ایکس پرآواز اٹھائی۔ انہوں نے لکھا کہ ’’اگر کوئی کسی جرم کا ملزم ہے تو اس کا جرم اور سزا عدالت طے کرسکتی ہے لیکن الزام لگتے ہی ملزم کے اہل خانہ کو سزا دینا، ان کے سر سے چھت چھین لینا، قانون پر عملدرآمد نہ کرنا، عدالت کی خلاف ورزی کرنا، الزام لگتے ہی ملزم کا گھر منہدم کردینا، انصاف نہیں ہے۔ یہ جارحیت اور ناانصافی ہے۔ قانون بنانے والے، قانون کے رکھوالے اور قانون توڑنے والے میں فرق ہونا چاہئے۔ سرکاریں اپرداھی کی طرح برتاؤ نہیں کرسکتیں۔ قانون، آئین، جمہوریت اور انسانیت پر عمل آوری مہذب سماج میں حکومت کی کم از کم شرط ہے۔ جو راج دھرم نہیں نبھاسکتا، وہ نہ تو سماج کا بھلا کرسکتا ہے اورنہ دیش کا۔ بلڈوزر راج ناقابل قبول ہے، یہ بند ہوناچاہئے۔ ‘‘
کوشک راج نے لکھا کہ ’’اگر اپوزیشن اس بلڈوز راج کے خلاف چندر شیکھر آزاد راون کی طرح بولنا نہیں شروع کرے گا، کوئی بخشا نہیں جائے گا۔ ‘‘انصارعمران ایس آر نے سینئر صحافی پریم کمار کا بیان شیئرکیا جس میں لکھا ہے کہ’’سپریم کورٹ کی آنکھیں پتھراگئی ہیں ؟جمہوریت کے ستون کو کیا دیمک چٹ کر گئے ہیں ؟ نہ کیس، نہ شنوائی، فیصلہ آن دی اسپاٹ، کروڑوں کی عمارت بلڈوز منہدم کررہا ہے، لگتا ہے انصاف سے بڑا ہوگیا ہے بلڈوزر۔ کیا ملزم کا مسلمان ہونا ہی سب سے بڑا گناہ ہے؟‘‘
اب تو ایسا لگتا ہے کہ فلم حقیقت اور حقیقت فلم ہوگئی ہے۔ پنچایت ویب سیریز کے تیسرے سیزن کا ایک منظر حقیقی زندگی میں نظر آیا۔ بات یہ ہے کہ چھتیس گڑھ میں ۱۵؍ اگست کی ایک تقریب میں ایس پی صاحب نے پرچم کشائی کے بعد کبوتر کو ہوا میں اچھالا۔ وہ غریب اڑنے کے بجائے سیدھا زمین پرآگرا۔ شاید ایس پی صاحب کی بھی گرفت’پنچایت‘ کے ودھایک جی کی طرح سخت ہوگئی۔ اس معاملے پر محمد زبیر نے لکھا کہ ’’پھُلیراکے سکھ شانتی اور سمردھی کیلئے گو کبوتر گو۔ ‘‘وائرل بھائی نے لکھا کہ ’’کبوتر پر نہ اڑنے کیلئے مقدمہ چلنا چاہئے، ایس پی صاحب سے بھی نہ اڑنے پر کبوتر بدمعاش معلوم پڑتا ہے۔ اسے سزا ملنی چاہئے۔ ‘‘ ونئے سنگھ نے لکھا کہ ’’اسے کہتے ہیں پولیس کا خوف‘‘نیرج نے لکھا کہ’ ’ایس پی صاحب پیچھے مڑکر شاید (کبوتروالے) بم بہادر کو ڈانٹنے جارہے تھے۔ ‘‘