عزیز قارئین! پچھلے کالم کی آخری سطروں میں ہنڈن برگ کا ذکر ہوا تھا۔ چلئے بات وہیں سے شروع کرتے ہیں۔ کیونکہ سوشل میڈیا میں اسکے انکشاف پر ہفتے بھربڑا ہنگامہ رہا۔
EPAPER
Updated: August 18, 2024, 5:56 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai
عزیز قارئین! پچھلے کالم کی آخری سطروں میں ہنڈن برگ کا ذکر ہوا تھا۔ چلئے بات وہیں سے شروع کرتے ہیں۔ کیونکہ سوشل میڈیا میں اسکے انکشاف پر ہفتے بھربڑا ہنگامہ رہا۔
عزیز قارئین! پچھلے کالم کی آخری سطروں میں ہنڈن برگ کا ذکر ہوا تھا۔ چلئے بات وہیں سے شروع کرتے ہیں۔ کیونکہ سوشل میڈیا میں اسکے انکشاف پر ہفتے بھربڑا ہنگامہ رہا۔ جہاں اس پر تشویش، اندیشے، تحفظات کا اظہار کیاگیا وہیں ’مِیمس‘ (سوشل میڈیا کے تصویری چٹکلوں )کے ذریعے بھی ہنسی مذاق میں طعن و تشنیع کی گئی۔ امریکی ادارے نے اپنی تازہ رپورٹ میں اڈانی کے ساتھ ساتھ سیبی سربراہ مادھوی پوری بُچ پر بھی سنگین الزامات لگائے ہیں۔
اس ضمن میں شیلیندر سنگھ راجاوت نے ہنڈن برگ ریسرچ کی پوسٹ کو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ’’اگر یہ سچ ہے تو پھر ہم بدعنوانی میں جکڑے ملک میں جی رہے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنے بڑے عہدیدارکی جانچ ٹھیک ٹھاک ڈھنگ سے نہیں کی گئی؟ یہ تو ہماری محنت کی کمائی پر ڈاکہ ہے۔ سیبی کو شفاف ہونا چاہئے۔ یہ الزامات ہندوستان کے وقار پر بدنما داغ ہیں، میں تو چاہتا ہوں کہ یہ سب الزامات غلط ثابت ہوں۔ ‘‘منیش بٹاویا نے رپورٹ پر سوال قائم کیا کہ ’’اس بار وہ ریگولیٹر کے پیچھے پڑے ہیں، مقصد ڈر کا ماحول بنانا اور بازار کو گرانا ہے، یہ تو بھیڑیاآیا بھیڑآیا والی کہانی جیسا ہے۔ ‘‘قمر وحید نقوی نے تبصرہ کیا کہ ’’یہ سنگین الزام ہے، آپ کو یاد ہوگا کہ اڈانی معاملے میں ہنڈن برگ کے الزامات پر سیبی کی لیپاپوتی والی جانچ کے خلاف کچھ لوگ سپریم کورٹ گئے تھے، لیکن عدالت نے یہ کہہ کر ان کا مطالبہ ٹھکرادیا تھا کہ سیبی کی جانچ بھروسے مند اور مکمل ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے کیا ہوتا ہے؟‘‘ ڈاکٹر انیرودھ مالپانی ایم ڈی نے لکھا کہ’’اڈانی سے متعلق سچ تبھی باہر آئیگا جب حکومت بدلے گی، آپ کو کیا لگتا ہے؟‘‘
یہ بھی پڑھئے: سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ : دو ماؤں کے شفقت بھرے بیانات نے لوگوں کا دل جیت لیا
چلیں کچھ بدلے نہ بدلے ہم موضوع سخن بدل دیتے ہیں۔ آپ نے پڑھا ہی ہوگا کہ جموں کشمیرمیں چار روز قبل دہشت گردوں کے ساتھ سیکوریٹی فورسیز کی جھڑپ ہوئی اس دوران ایک نجی نیوزچینل کی رپورٹروہاں جا پہنچی۔ اس نے سیکوریٹی اہلکاروں کی گاڑی سے لٹک کر ’گراؤنڈزیرو رپورٹنگ‘ کا تماشہ کیا۔ سیکوریٹی اور راہنمایانہ ہدایات کی دھجیاں اڑنے پر سوشل میڈیا صارفین نے برہمی کا اظہار کیا۔ ابھیشیک نامی صارف نے لکھا کہ’’ملک میں اب ہر چیز مذاق بنتی جا رہی ہے۔ دہشت گردوں سے مڈبھیڑ کے لائیو میڈیا کوریج کی اجازت کس نے دی؟ اور جموں کشمیر پولیس کے جوان اس رپورٹر کو کیوں ساتھ لے جارہے ہیں ؟ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ ‘‘ نشی کانت ترویدی نے تبصرہ کیا کہ ’’ٹی آر پی کیلئے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں رپورٹر، ایسی رپورٹنگ کہیں نہ کہیں ہمارے ملک کی سیکوریٹی اور جوانوں کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ قومی سلامتی کو ترجیح دینا میڈیا کی بھی ذمہ داری ہونی چاہئے۔ ‘‘ پربھاکر وینوانکا نے سوال قائم کیا کہ ’’جموں کشمیر پولیس نے اس رپورٹر کو اجازت کیسے دی؟ یہ کیا تماشہ چل رہا ہے؟‘‘کانگریس لیڈر سپریہ شرینیت نے اس ویڈیو پر تبصرہ کیا کہ’’جموں کشمیر میں پچھلے ۶۷؍ دنوں میں ۱۷؍ دہشت گردانہ حملے ہوئے، جن میں ۱۸؍جوان شہید اور ۲۶؍جوان زخمی ہوئے، لیکن اس دیش کو سرکس بنانے والوں کو یہاں بھی یہ نوٹنکی کروانی ہے، قومی سلامتی ڈراما نہیں ہے، ان چیزوں سے شبیہ نہیں بچ پائے گی صاحب، ہمارے جوانوں کی شہادت کا جوابدہ کون ہے؟‘‘
رپورٹنگ سے جڑا ایک اور موضوع بحث معاملہ بھی پڑھ لیجئے۔ صحافی راجیو رنجن سنگھ سے تو آپ واقف ہی ہیں، ہاں وہی ’’ماحول کیا ہے؟‘‘والے پترکار، تو بات ہے ۱۵؍ اگست کی، وہ دہلی کی سڑکیں ناپتے ہوئے لوگوں سے تاثرات لے رہے تھے۔ اس دوران انہوں نے دو مختلف افراد سے ترنگے اور یوم آزادی کے حوالے سے بات چیت کی۔ اس ’بائٹ‘ کا ایک حصہ ملاحظہ فرمائیے، جو ہر سمجھدار ہندوستانی کا ماتھا ٹھنکانے کو کافی ہے۔ ایک بائیک سوارنے آزادی پر بات کرتے ہوئے، مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا کہ’’کچھ لوگ ترنگے کی اہمیت نہیں سمجھتے، وہی جو ہندوستان کا کھاتے ہیں اور پاکستان کا (گن گان) گاتے ہیں، ان کو تو بھگادینا چاہئے‘‘اس نے مزید ہرزہ سرائی کی۔ راجیو رنجن نے اس کے بعد دوسرے شخص کی طرف مائیک بڑھایا۔ دوسرے نے پہلے کی طرف دیکھ کر ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا کہ ’’معاف کیجئے آپ کو انسانیت کی بنیادی سمجھ نہیں آئی ہے۔ کوئی (پاکستان کا گُن) گاتا نہیں ہے، یہ آپ کے من میں بھرا جارہا ہے، اسے سمجھئے‘‘اوّل الذکر کے بیان پر بیشتر نے اظہار تاسف کیا۔ کاوش عزیز نے اس نفرتی سوچ رکھنے والے شخص کو ’چھپری‘ قراردیا اور اس گفتگو کو پوسٹ کیا کہ: ”چھپری:سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا...... رپورٹر: یہ کس نے لکھا ہے؟ چھپری:بھگت سنگھ ...ممم... رابندر ناتھ ٹیگور...ممم...بنکم چندر چٹرجی... رپورٹر: پھر سے یاد کرلوکس نے لکھا ہے؟۔ چھپری: یہ دیش بہت آگے جاتا، **** کی وجہ سے پیچھے رہ گیا۔ ‘‘
کولکاتا کے آرجی کر اسپتال کے انسانیت سوز معاملے پر سوشل میڈیا صارفین نے غم و غصےکا اظہار کیا۔ عام آدمی سے لے کر سیلبریٹیز تک نے آواز اٹھائی۔ آیوشمان کھرانا نے ’کاش میں لڑکا ہوتی‘اور منور فاروقی نے ’بیٹی ہوئی ہے‘ کے زیرعنوان ’کویتا (نظم)‘ کے ذریعےاس لرزہ خیز واردات پر اپنے تاثرات بیان کئے جسے صارفین کی بڑی تعداد نے شیئرکیا۔ ’’کولکاتا ہارر، کولکاتا ڈاکٹر، کولکاتا ڈاکٹر کیس‘‘جیسے ہیش ٹیگز ٹرینڈنگ رہے۔ کچھ نے ’نربھیا۲‘کا ہیش ٹیگ چلایا۔ اس پر ڈاکٹر میڈوسا نامی صارف نے برہمی کا اظہار کیاکہ ’’یہ نربھیا۲؍نہیں ہے۔ یہ کوئی فلم کا دوسرا حصہ نہیں ہے۔ وہ گوشت پوست کی انسان تھی۔ وہ کوئی تجریدی خیال نہیں تھی۔ اسے، اس کے اصل نام سے یاد کیجئے۔ اس کا نام اس طرح نہ مٹائیے جس طرح ان (حیوانوں ) نے اسے مٹادیا۔ شیام سنگھ میرا نے لکھا کہ ’’کولکاتا کا معاملہ ۹؍اگست کو ہوا، ۱۰؍ کو بنگال پولیس نے ملزم کو گرفتارکیا، ۱۲؍ کو خود ممتا بنرجی نے متاثرہ خاندان سے ملیں۔ پورے بائیں بازو نے اس معاملے کی مذمت کی۔ ادھر یوپی اور بہار میں عصمت دری کی اتنی ہی بھیانک وارداتیں ہوئیں مگر یہاں کے وزرائے اعلیٰ کے بیان تک نہیں آئے۔ میڈیا نے ایک شو تک نہیں کیا۔ ‘‘
کسی زمانے میں ساحر نے فریاد کی تھی، آج کے حالات میں وہی فریاد یاد آگئی ’’مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی .......‘‘