• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ : ’’آئیے وہ ہندوستان بنائیں جہاں کوئی فرق نہ ہو‘‘

Updated: July 10, 2024, 4:23 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai

منوج جھا نے ایک کلام سنایا جس کا عنوان تھا’ ورنہ مارے جاؤگے‘ انہوں نےیہ کہتے ہوئے پڑھا کہ ’’یہ پورے دیش کی عکاسی ہے اور ہم سب کیلئے آئینہ۔‘‘

Team India won the T20 World Cup. Photo: INN
ٹیم انڈیا نےٹی۲۰؍ ورلڈ کپ جیت لیا۔ تصویر : آئی این این

عزیزقارئین! آداب!! لیجئے سوشل میڈیا کے گلیاروں کی جَن اور مَن کی باتیں ہم پھر سمیٹ لائے ہیں۔ ہمارے لئے یہ کام ہر بار ذرا مشکل ہی ہوتا ہے کیونکہ سوشل میڈیا پر تو موضوعات کی کمی نہیں ہوتی۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ یہ وہ آتش فشاں ہے، جو ہمیشہ ’زندہ‘ رہتا ہے۔ اس کا دہانہ ٹرینڈز کا لاوا مسلسل اگلتا رہتا ہے۔ چلئے، تمہید کا ساتھ چھوڑتے ہیں اور عرض مدعا سے قدم سے قدم ملاتے ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ ہم ایکس، فیس بک، انسٹاگرام، وہاٹس ایپ، یوٹیوب ہر جگہ کا چکر کاٹ آئے ہیں، ہر طرف ٹی۲۰؍ ورلڈ کپ فائنل کی ہی دھوم نظر آئی۔ پچھلے آٹھ دنوں سے ٹیم انڈیا کی فتح کا جشن یہاں منایا جارہا ہے۔ رِیلز، شارٹس، ویڈیوز، پوسٹس ہر ایک میں ٹیم انڈیا اور اس کے دُھرندروں کا گن گان ہورہا ہے۔ بمراہ کی متاثر کن گیندبازی، سوریہ کی ناقابل یقین کیچ، وراٹ کی بروقت بیش قیمتی اننگ، کپتان روہت کی ٹرافی جیتنے کی دھن، ان تمام کی خوب تعریفیں ہورہی ہیں۔ سوشل میڈیا کے تبصروں کا لب لباب یہ ہے کہ اس فتح کا انتظار ٹیم کو تو تھا ہی، مداح بھی بے قرار تھے کیونکہ بڑے میچز کی ہار کے کئی گھاؤ تھے، جن کی ٹیسیں رہ رہ کر اٹھتی تھیں۔ اب کہیں جاکر مداوا ہوا اور اس فتح نے ’آئی سی سی ایونٹس کی ہار کے زخموں پر‘ مرہم رکھ دیا۔ ممبئی نے تو ایسا جشن منایا کہ دنیا حیران ہوگئی۔ ٹیم انڈیا کے استقبال کیلئے کرکٹ مداح امڈتے ہوئے سیلاب کی طرح وانکھیڈے اسٹیڈیم اور مرین لائنس پہنچے۔ افغانستان کے اسٹار بلے باز رحمان اللہ گرباز نے سروں کا یہ ٹھاٹھیں مارتا سمندر دیکھا تو لکھا کہ’’یہ میسی کا ارجنٹینا نہیں، روہت کا ممبئی ہے۔ ‘‘ عالم یہ تھا کہ مداح اپنے کرکٹروں کی ایک جھلک پانے کو درختوں پر چڑھ گئے۔ ایسے مناظر دیکھ کر لوگ گنگنا بھی اٹھے کہ’’ایسی دیوانگی دیکھی نہیں کہیں۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ : ’’یوں ہی گرتے رہیں، ایک دن تو پاتال پہنچ ہی جائیں گے‘‘

کرکٹ کے بعد آجکل اننت امبانی کی شادی بھی ہاٹ ٹاپک بنی ہوئی ہے۔ نام چینوں کا شادی کی تقریبات میں آنا، فلمسٹاروں کا تھرکنا ناچنا، سب کچھ موضوع گفتگو ہے۔ اس پر ایک دلچسپ تبصرہ پڑھئے۔ جیکی یادو لکھتے ہیں کہ’’ آئی پی ایل آنے کو تھا تب اننت امبانی کی شادی کے پروگرام چل رہے تھے، یہ شروع ہوگیا تب بھی شادی کے پروگرام چل رہے تھے۔ پھر یہ ختم ہوا، چناؤ آگئے، چناؤ ختم ہوئے، ورلڈ کپ آگیا، وہ بھی ختم ہوا، اب اولمپک آگئے اور اننت امبانی کی شادی کی تقریبات اب بھی چل رہی ہیں۔ یہ شادی ملک کی تاریخ، جغرافیہ، کیمسٹری، فزکس، سب میں یاد رکھی جائے گی۔ ‘‘یاد رکھنے سے ایک سوال یاد آیا، کیا آپ جانتے ہیں کہ بہار میں پچھلے پندرہ دنوں میں کتنے پل گرے؟ چلئے ہم ہی بتادیتے ہیں۔ اب تک دس پل ڈھہ چکے ہیں۔ حالانکہ کچھ خبریں تو درجن بھر پلوں کے گرجانے کا بھی دعویٰ کررہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اس پر کافی ہنگامہ آرائی ہے۔ رمن یادو نے ان معاملات پر طنز کرتے ہوئے لکھا کہ ’’بہار میں آپ کا سواگت ہے، سنبھل کر، آگے پل گرنے کی سمبھاؤنائیں ہیں۔ ‘‘ پردیپ موریہ نے لکھا’’بہار میں بَہار با، پل گرتا لگاتار با۔ ‘‘ اسی طرح کے درجنوں ردعمل دیکھنے کو ملے جن میں بدعنوانی اور ناقص تعمیرات پر ناراضگی ظاہر کی گئی اور سرکار سے سخت سوال پوچھے گئے ہیں۔ سوال کا ذکر آیا ہے تو پارلیمنٹ کے مانسون سیشن کی بھی بات ہوجائے۔ اپوزیشن نے دونوں ایوانوں میں نیٹ، منی پور، ہجومی تشدد اور دیگر سلگتے موضوعات پر سرکار کو گھیرا۔ لوگوں نے راہل گاندھی، اسد الدین اویسی، منوج کمار جھا، مہوا موئترا، جان بریٹاس، چندر شیکھر آزاد راون اور عمران پرتاپ گڑھی سمیت کئی اراکین پارلیمان کی تقریروں کے حصے شیئر کئے۔ بالخصوص راہل گاندھی کے جارحانہ تیوروں کی خوب پزیرائی کی گئی۔ مسلمانوں نے راہل کی زبان سے لوک سبھا میں ’مسلمان‘ لفظ سنا تو اطمینان کا اظہار کیا کیونکہ وہ پچھلے دو ہفتوں سے اپوزیشن بالخصوص راہل سے مطالبہ کررہے تھے کہ ’الپ سنکھیک نہیں مسلمان بولو‘۔ مولانا سجاد نعمانی سمیت کئی علماء نے بھی اس ضمن میں اپوزیشن کو اپنا ’کرتویہ‘ یاد دلایا۔ شاید اسی کا اثر تھا کہ راہل نے مسلمانوں، دلتوں، سکھوں، عیسائیوں پر ہونیوالے مظالم اور تشدد کا ذکر کیا اور حکومت سے ’ٹارگیٹیڈ ہیٹ‘ پر قدغن لگانے کا مطالبہ کیا۔ راجیہ سبھا میں آرجے ڈی کے رکن پارلیمان پروفیسر منوج کمار جھا نے مسلمانوں کے خلاف جاری ہجومی تشدد پر حکومت کی توجہ دلائی۔ ان کا خطاب بڑا جذباتی تھا، جھا نے راہی معصوم رضا کی ایک نظم پڑھی، پھر شاعر عدنان کا کلام سنایا جس کا عنوان انہوں نے بتایا کہ’’ ورنہ مارے جاؤگے۔ ‘‘ انہوں نےیہ کہتے ہوئے پڑھا کہ ’’یہ پورے دیش کی عکاسی ہے اور ہم سب کیلئے آئینہ۔ ‘‘ پھر انہوں نے وہ کلام سنایا کہ’’مت بھولو کہ تم مسلمان ہو/ بس لوگوں کو چھلاوہ دیتے رہو /کہ تم مسلمان نہیں ہو/ورنہ مارے جاؤگے/راہ چلتے خیال رکھو /کہ کہیں تمہاری قمیص سے مسلمان ہونے کی بو تو نہیں آرہی /خیال رکھو کسی سے بحث کرتے ہوئے، کچھ بولتے ہوئے، کچھ کرتے ہوئے/یہا‌ں تک کہ ہنستے اور روتے ہوئے بھی/ تم مسلمان تو نہیں لگ رہے ہو/ورنہ مارے جاؤگے/یہ بات ہمیشہ یاد رکھو / کہ تم ایک مسلمان ہو/اور تم مروگے نہیں ایک دن مارے جاؤگے۔ ‘‘انہوں نے اپنی بات ان الفاظ پر ختم کی کہ’’ وویک ہینتا(بھلے برے کی تمیز سے عاری) اور ترک ہینتا(غیررجعت پسند) کے سماج کو دھوست (تباہ) کیجئے، آئیے وہ ہندوستان بنائیں جہاں کوئی فرق نہ ہو، گلے لگا سکیں۔ یہ نہ ہوکہ چناوی منچ پر کچھ اور زمین پر کچھ، جئے ہند۔ ‘‘
 جاتے جاتے ایک وائرل ویڈیو کا ذکر ہوجائے، یہ پاکستان کا ہے، جہاں چار کوڑا کرکٹ چننے والی اپنی دھن میں چلے جارہے تھے۔ کسی نے ان کی فکروں سے آزاد چال کا ویڈیو بنایا اور ٹک ٹاک پر ڈال دیا۔ لیجئے یہ ویڈیو وائرل ہوگیا۔ لوگوں نے اس چال کی نقل اتارنی شروع کردی۔ کچھ کھوجی انفلوینسرز ان قسمت کے ماروں تک پہنچ گئے۔ کسی نے مالی مدد دی تو کسی نے ان کی مبینہ نشہ خوری کو چھڑانے کا تہیہ کیا۔ اب کیا حقیقت کیا فسانہ، واللہ اعلم۔ خدا کرے کہ ان تنگ دامنوں کا کچھ بھلا ہوجائے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK