گزشتہ پیر کو شروع ہونے والا پارلیمانی اجلاس ہفتے بھر موضوع بحث رہا۔ کئی معاملے تھے جن پر سوشل میڈیا گلیاروں میں شوروغل مچا۔
EPAPER
Updated: June 30, 2024, 5:04 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai
گزشتہ پیر کو شروع ہونے والا پارلیمانی اجلاس ہفتے بھر موضوع بحث رہا۔ کئی معاملے تھے جن پر سوشل میڈیا گلیاروں میں شوروغل مچا۔
گزشتہ پیر کو شروع ہونے والا پارلیمانی اجلاس ہفتے بھر موضوع بحث رہا۔ کئی معاملے تھے جن پر سوشل میڈیا گلیاروں میں شوروغل مچا۔ اپوزیشن کے اراکین پارلیمان کا آئین کے ’دستی نسخے‘ لے کر ایوان آنا اور جئے سمودھان کے نعرے لگانا بہت سوں کو پسند آیا۔ وزیراعظم کے تمہیدی خطاب پرتعریف وتنقید بھی ہوئی۔ اوم برلا کو اسپیکر بنائے جانے پر اعتراضات کئے گئے۔ راہل گاندھی کے لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈربننے پر نیک تمناؤں کا اظہار کیا گیا۔ اویسی کا حلف برداری کے وقت جئے بھیم جئے میم جئے تلنگانہ جئے فلسطین کہنا نفرتی چنٹوؤں کو راس نہ آیا۔ کچھ مسلم اراکین پارلیمان نے اردو میں حلف اٹھایا تو تنگ نظروں نے اس پر بھی آسمان سرپر اٹھایا۔ مسٹر سنہا نامی بدنام زمانہ زعفرانی ٹرول نے اس پر اعتراض کیا تو لائبہ فردوس نے لکھا کہ’ ’اس (سنہا) کے مطابق بانسری سوراج کا سنسکرت میں حلف لینا ’امیزنگ‘ ہے، لیکن ضیاء الرحمٰن برق کے اردو میں حلف لینے پر اسے پاکستان یاد آتا ہے۔ یہ لوگ جانتے نہیں کہ اردو، ہندوستانی زبان ہے۔ ‘‘
اس بار ’اسپیکرچناؤ‘ پر گھمسان مچا ہوا تھا۔ کیونکہ پارلیمنٹ کی تاریخ میں تیسری بار ایسا ہوا کہ اسپیکر کا چناؤ کرانا پڑا۔ اپوزیشن نے مزاحمت کی لیکن این ڈی اے حکومت نے اوم برلا کو ایک بار پھرچن کر ایوان کی کمان سونپ دی۔ اپوزیشن نے مبارکباد کے ساتھ انہیں پیغام بھی دیا کہ وہ اپنا کام منصفانہ اور باوقار انداز میں کریں۔ برلا پر اس بار بھی مائیک بند کرنے اور اپوزیشن کے ایم پیز کے ساتھ ناروا سلوک کے الزام لگے۔ اس حوالے سے ایکس پر ریتو چودھری نے تبصرہ کیا کہ’’اوم برلا ہندوستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ جانبداراوروقار مجروح کرنے والے لوک سبھا اسپیکر ہیں ‘‘ فلم میکر ونود کاپڑی نے لکھا کہ ’’اوم برلا جیسے لوگ لوک تنتر پر کلنک ہیں ‘‘ تبصرے تو اور بھی ہیں لیکن ہم آگے بڑھتے ہیں۔
ْ پیپر لیٖک کے معاملے کے بعد اب پل اور انفراسٹرکچر ڈھ جانے کے معاملات پر سوشل میڈیا چراغ پا ہے۔ پچھلے ایک ہفتے میں بہار میں چار پل گرچکے ہیں۔ دہلی ایئرپورٹ کے ٹرمنل ون کی چھت گرنے کا معاملہ ابھی ’ٹھنڈا‘ بھی نہ ہوا تھا کہ راج کوٹ ایئرپورٹ پر اسی طرز کاحادثہ ہوگیا۔ صحافی میور جانی نے ایکس پر لکھا کہ’’ کیسے گریں، کس طرح گریں، اور کسی بھی حد تک گریں، اس بات کی ’ماسٹر کی‘ صرف اور صرف بھاجپا کی سرکارکے پاس ہی ہوتی ہے۔ راج کوٹ کے حال ہی میں بنے ہریسر انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے گرنے پرلوگوں نے خوب طنز کیا ہے۔ بس یوں ہی گرتے رہیں، ایک دن تو پاتال پہنچ ہی جائیں گے۔ ‘‘ معروف اداکار دانش حسین نے لکھا کہ ’’ایک اور ایئر پورٹ! ایک اور بہار کا پل، یہ تعصب اور سرمایہ دارنوازی کا شاخسانہ ہے جوہم بھگت رہے ہیں۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ : ’’یہ مذاق چل رہا ہے ہمارے ساتھ ....!‘‘
’بلڈوزرراج‘پھر کھل کھیل رہا ہے۔ مسلمان اسکا شکار تو ہیں ہی، اب اس کی زدمیں وہ بھی آرہے ہیں جو اس کی’جے جے کار‘ کرتے نہیں تھکتے تھے۔ ایسا ہی ایک معاملہ ایکس پر موضوع بحث رہا۔ اَموک نامی صارف نے ایک ویڈیو پوسٹ کیا اور لکھا کہ ’’بلڈوزر سے گھر منہدم کئے جانے پر ایک بی جے پی حامی شخص نے کہادو تین بار ہم تھانے سے لوٹ گئے، ایک بار ہم ایس ایس پی کے یہاں بھی سے لوٹائے گئے...کوئی بھی ہماری بات سننے کو تیار نہیں ہے، آج ہمارے گھر کو تہس نہس کردیا، ہمارا پریوارسڑک پر آگیا ہے آج۔ سچ بتائیں ہم جیسے بی جے پی کے اندھ بھکت کی یہی سزا ہونی چاہئے، جو ہمارے ساتھ ہوا۔ اس سے ہمار ے اندر کی اندھ بھکتی نکلے گی۔ ‘‘
ہجومی تشدد اور نفرت انگیزی کی چنگاری پھر بھڑکنے لگی ہیں۔ انتخابات کے بعد سے اب تک ملک بھر میں کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ اس تناظر میں ارباب اقتدار کی چشم پوشی تو جگ ظاہر ہے لیکن اپوزیشن کی خاموشی پر لوگ سوال قائم کررہے ہیں۔ سیکولر طبقہ کانگریس اور سماجوادی پارٹی جیسی جماعتوں سے امید لگائے بیٹھا ہےلیکن سی پی آئی ایم کے سوا کسی نے بھی اب تک کھل کر لب کشائی نہیں کی ہے۔ بالخصوص راہل گاندھی سے سوشل میڈیا پر مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ کھل کر بولیں۔ صارفین نے راہل کو انہیں کے الفاظ ’ڈرو مت‘ یاد دلائے۔ فلم رائٹر داراب فاروقی نے ایک مختصر طنزیہ کھلا خط لکھا کہ’ ’پیارے راہل گاندھی جی ! ۴؍جون سے اب تک بھارت میں ۶؍ مسلمانوں کا ہجومی تشدد میں قتل کردیا گیا۔ میں تب سے متضاد خبریں سن رہا ہوں ؛ کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ گنتی کے ایک درجن پہنچنے پر آپ بولیں گے۔ کچھ لوگوں کا جواز یہ ہے کہ۱۰؍ ایک خوبصورت ہندسہ ہے اور بات کرنے کیلئے مثالی موقع ہے۔ کچھ لوگوں کا جواز ہے کہ ۲۰؍ ایک بڑا اور مضبوط ہندسہ معلوم ہوتا ہے۔ ایک نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ کسی آندولن کو شروع کرنے کیلئے ۵۰؍ کمال کا نمبر ہے۔ میں پتہ کرنا چاہ رہا ہوں، آپ نے کون سا نمبر طے کیا ہے۔ یہاں ہم سبھی کیلئے یہ نمبر کا کھیل بڑا پیچیدہ اور مزیدار ہوگیا ہے۔ براہ مہربانی بتانے کی زحمت اٹھائیں۔ شکریہ! فقط ایک شہری۔ ‘‘
قارئین کرام!آپ ضرور یہ سوچ رہے ہوں گے کہ آج ہم نے یہ کیسا قضیہ چھیڑ رکھا ہے؟ ہمارا قلم صرف سنجیدہ اور بھاری بھرکم موضوعات پر ہی خامہ فرسائی پر آمادہ ہے۔ چلئے یہ شکایت بھی دور کر دیتے ہیں۔ دراصل بات سے بات نکلتی گئی تو ’سنجیدگی‘ نے اپنے پر پرزے پھیلادئیے۔ لیجئے ہم نے ’شگفتگی‘ و ’بذلہ سنجی‘ کو چُمکار کر بلا لیا۔ افغان ٹیم سیمی فائنل تو ہارگئی لیکن ان کے اس مرحلے تک پہنچنے نے ہر طرف ہنگامہ مچادیا تھا۔ افغان کھلاڑی گلبدین کا بنگلہ دیش کے خلاف چوٹ کا ناٹک خوب موضوع بحث رہا۔ اس حوالے سے میمز اور شگوفوں کی بھرمار رہی۔ ٹیم انڈیا کا کنگاروؤں کو پٹخنی دینا بھی اہل سوشل میڈیا کو پسند آیا۔ لوگوں نے اسے ونڈے ورلڈ کپ کا ’بدلہ‘ قرار دیا۔
خیر، اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے فائنل میں کون سی ٹیم مقدر کی سکندر بنتی ہے۔ وہ ٹیم جو کبھی آئی سی سی کا فائنل نہیں کھیل سکی یا وہ ٹیم جس کا مقدر ۲۰۱۳ء سے ہر بار فائنل یا سیمی فائنل میں روٹھ جاتا ہے۔ جس وقت آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے اس کا فیصلہ ہوچکا ہوگا۔ ا س وقت جب ہم یہ سب کچھ سپرد کالم کررہے ہیں، یہی امید لگائے ہیں بیٹھے ہیں کہ ہماری ٹیم چمپئن بن جائے۔