• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ : وقف معاملے کو بھی نفرتی چنٹوؤں نے فرقہ وارانہ رنگ دے دیا

Updated: September 15, 2024, 5:55 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai

پچھلے دنوں راہل گاندھی نے امریکہ کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی کا دورہ کیا۔ یہاں انہوں نے انٹرویو میں ہندوستانی امور کے متعلق سنجیدہ و مدلل گفتگو کی۔

Rahul Gandhi. Photo: INN
راہل گاندھی ۔ تصویر : آئی این این

پچھلے دنوں راہل گاندھی نے امریکہ کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی کا دورہ کیا۔ یہاں انہوں نے انٹرویو میں ہندوستانی امور کے متعلق سنجیدہ و مدلل گفتگو کی۔ لیکن نفرتی ٹرولز نے اس انٹرویو کے تحریف شدہ کلپس شیئر کرکے جھوٹ پھیلایا، الزام لگایا کہ راہل نے ہندوستان مخالف بیانات دئیے، سکھوں کی غلط تصویر پیش کی، ریزرویشن مخالف باتیں کہیں، درحقیقت انہوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا تھا۔ بی جے پی دہلی نے ایسا ہی ایک کلپ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ’’ دیکھ رہے ہو بنود، راہل بابا کا اصلی چہرہ، راہل گاندھی نے ایس سی، ایس ٹی اور اوبی سی کیلئے ریزرویشن ختم کرنے کے بارے میں اپنے ارادے واضح کر دئیے ہیں۔ ‘‘آلٹ نیوز نے اس پر اسٹوری کرکے من گھڑت دعوے کو بے نقاب کیا۔ ’نیوز چیکر اِن‘ کے ہینڈل سے لکھا گیا کہ’’راہل گاندھی نے ریزرویشن مخالف کچھ نہیں کہا، انہوں نے تویہ کہا کہ بھارت میں ابھی تک تقریباً ۹۰؍فیصد لوگوں کو نمائندگی نہیں مل پائی ہے۔ ہم ریزرویشن کو ختم کرنے کے بارے میں تبھی سوچیں گے جب بھارت ایک غیرجانبدار جگہ ہوگی، لیکن ابھی یہ غیرجانبدار نہیں ہے۔ ‘‘
 انا پورنا گروپ کے چیئرمین شرینواسن نے ایک پروگرام میں جی ایس ٹی کے متعلق بے اطمینانی ظاہر کی، انہوں نے وزیرمالیات نرملا سیتا رمن کو ’پاؤ(بَن)، ملائی اور ملائی پاؤ‘ کی مثال دے کر ٹیکس پرغور کرنے کی گزارش کی۔ ان کی اس عرضی کا اثر یہ ہوا کہ بعد ازیں وہ اکیلے میں اپنی ’گستاخی‘ پرہاتھ جوڑتے نظر آئے۔ اس معاملے کا ویڈیو بھی نیٹیزنس کے درمیان موضوع بحث رہا۔ چیف جسٹس چندر چڈ کے گھر گنپتی پوجا میں وزیراعظم کی شرکت پر بھی لوگوں نے سوالات قائم کئے۔ ’لال باغچا راجا‘کا وہ ویڈیو بھی وائرل ہوا جس میں ایک جانب وی آئی پی افراد اطمینان سے کھڑے تصاویر بنوارہے ہیں اور عقب میں عام شردھالوؤں کو ’درشن‘ ہوتے ہی دھکا دے کر ہٹایا جا رہا ہے۔ اس پر گبر نامی صارف نے لکھا کہ ’’جب ویرداس نے دو ہندوستان کی بات کہی تھی تو اسے بہت ٹرول کیا گیا تھا۔ ‘‘سوشل میڈیا پراسلاموفوبیا کے معاملات بھی بڑھتے جارہے ہیں۔ نفرت کے سوداگر ہر معاملے کو غلط رخ دے کر مسلمانوں کی شبیہ مسخ کرنے اور ان کے متعلق جھوٹ پھیلانے کا کام دھڑلے سے کررہے ہیں۔ اس ہفتے بھی ایسے کچھ معاملات نظر سے گزرے۔ پہلا معاملہ سنئے۔ وندے بھارت ٹرین کا شیشہ توڑنے والے ایک شخص کا ویڈیو انٹرنیٹ پر گردش میں رہا، دائیں بازو کے ٹرولز نے زہرافشانی کی اوراسے ’جہاد‘ اور ’دہشت گردی‘ کا نام دیا۔ حالانکہ اس معاملے کا تشدد اور حملے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ لیکن ’دی جئے پور ڈائیلاگس‘، ’ممبئی چا ڈان‘جیسے دریدہ دہن ایکس اکاؤنٹس نے نفرت کو ہوا دی اور مسلمان، جہاد کا نام لے کر جھوٹ پھیلایا۔ قابل ذکر ہے کہ منتھیرا مورتھی ایم نامی صارف نے اس جھوٹ کی قلعی کھولی اور بتایا کہ’’شکستہ شیشوں کو بدلنے کیلئے اس طرح ہتھوڑی سے اسے توڑا جاتا ہے۔ ‘‘یہ تردید کرنے والا کوئی عام شخص نہ تھا، مورتھی، ترونیل ویلی جنکشن کے سیکشن انجینئر ہیں۔ ٹرینس آف انڈیا نامی ایکس اکاؤنٹ سے بھی ایک ویڈیو جاری کیا گیا اور وضاحت کی گئی کہ کس طرح ٹرین کے ٹوٹے شیشے کو نکالا جاتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ :’’اس تشدد کو روکنے کیلئےکسی نے مداخلت کیوں نہیں کی؟ ‘‘

وقف ترمیمی بل کے متعلق اعتراضات اور مشورے دینے کا عمل پچھلے پندرہ دنوں سے زور وشور سے جاری ہے۔ مسلمانوں سے متعلق اس معاملے کو بھی نفرتی چنٹوؤں نے فرقہ وارانہ رنگ دے دیا اور ہندوؤں کو ورغلانے کی کوشش کی۔ پرشانت راج مان نے مخالفت میں آنے والے ای میلز کے اعدادوشمار کا اسکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ’’دیکھ لو بھائیو، وقف بورڈ کو بچانے کیلئے مسلم فریق کتنا ای میل بھیج رہے ہیں۔ اور ہمارا ہندو بھائی چادر تان کر سورہا ہے۔ ‘‘ اکھنڈ بھارت سنکلپ نامی اکاؤنٹ سے پوسٹ کی گئی کہ’’وقف ایکٹ میں ترمیم نہ ہوپائے، اس کیلئے مسلم نوجوان گلی، محلے، مسجدوں میں گھوم کر ای میل کروانے کیلئے بیداری مہم چلارہے ہیں۔ ان لوگوں نے وقف بچانے کیلئے ایک کروڑ سے زیادہ کے ای میل بھیج دئیے ہیں، ہم سے ایک پوسٹ تک نہیں ہوگی۔ ‘‘جھوٹ اور نفرت کس قدر سرایت کیا گیا، اسکا اندازہ اس پوسٹ سے بھی لگاسکتے ہیں جس میں ’انکت ایس ایچ ۶۳۱۰۰۷۴۲‘ نامی شخص نے لکھا کہ ’’پاکستان کا رقبہ ۸ء۱۸؍لاکھ مربع کلومیٹر، وقف بورڈ (کی تحویل میں موجود اراضی ) کارقبہ۹ء۴۰؍لاکھ مربع کلومیٹر۔ وقف ایکٹ میں ترمیم نہیں بلکہ ختم ہوناچاہئے؟ ملک مخالف ایجنڈا، یہ ہمارے ملک کیلئے خطرناک ہے۔ ‘‘ آپ کی نظروں سے دہلی فساد کے ۱۰؍ ملزمین کے بری ہونے کی خبر گزری ہی ہوگی۔ کڑکڑ ڈوما کورٹ کے اس فیصلے پر پارتھ ایم این نے تبصرہ کیا کہ ’’دہلی فساد معاملے میں پولیس نے مسلمانوں کو پھنسانے کیلئے جھوٹے الزامات عائد کئے، سوال یہ ہے کہ آخر بے گناہوں کو پھنسانے پر پولیس پر کب کارروائی ہوگی؟‘‘لائبہ فردوس نے ایکس پوسٹ میں لکھا کہ ’’اس ہفتے مسلمانوں کے خلاف نفرت کے یہ معاملات سامنے آئے:
  (۱) اسکول پرنسپل نے مسلم طالب علم کو دہشت گرد کہا اور ذہنی طور پر ہراساں کیا۔ (۲) اتراکھنڈ میں مسلمانوں کے خلاف ایک پوسٹر لگاکر مسلم پروڈکٹ کے بائیکاٹ کی بات کہی گئی۔ (۳) رتلا م میں مسلمانوں کو بدنام کرکے فساد برپا کرنے کی کوشش، سچ بولنے پر آئی پی ایس کا ٹرانسفر(۴) پتھربازی کے الزام میں گجرات میں پولیس نے مسلم لڑکوں کو گرفتار کیا اور لاک اپ میں انہیں بری طرح پیٹا۔ (۵) ایک مسلمان کے گھر خریدنے پر آس پاس کے لوگوں نے احتجاج کیا۔ (۶) ہماچل پردیش میں مسجد کی تعمیر پر احتجاج‘‘
 اس حقیقت سے انکار نہیں کہ نفرتوں کے بازار کتنے ہی گرم ہوں، محبت کی دکاں والے امید نہیں ہارتے۔ پرفل نامی صاحب نے امراکبرانتھونی فلم کاایک منظر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ’’ابھی فرصت کے پل تھے تو پرانی یادیں تازہ کررہا تھا، امراکبر انتھونی کے ساتھ۔ تو خیال آیا کہ پہلے بھی فلمیں بنا کرتی تھیں جو ہندو مسلم سکھ عیسائی کے اتحاد اوربھائی چارے پر مبنی ہوتی تھی، اور پھر بھی سپر ہٹ ہوتی تھی۔ سبھی پیار سے مل جل کر دیکھتے تھے، تب نفرت کہاں تھی؟ ۲۰۱۴ء کے بعد سے کیسے آگئی؟‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK