• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ :’’اس تشدد کو روکنے کیلئےکسی نے مداخلت کیوں نہیں کی؟ ‘‘

Updated: September 04, 2024, 4:43 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai

ٹی آرپی کی بھوکی ٹی وی پترکاریتا، کے ایک سے بڑھ کر ایک نمونے سوشل میڈیا پر سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس کے پترکار کبھی بندروں کی طرح اچھل کود مچاکر رپورٹنگ کرتے ہیں تو کبھی برسات کے جمے پانی میں غوطے لگاتے ہیں۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

ٹی آرپی کی بھوکی ٹی وی پترکاریتا، کے ایک سے بڑھ کر ایک نمونے سوشل میڈیا پر سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس کے پترکار کبھی بندروں کی طرح اچھل کود مچاکر رپورٹنگ کرتے ہیں تو کبھی برسات کے جمے پانی میں غوطے لگاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک تازہ معاملہ بہرائچ کا ہے۔ جہاں ایک بھیڑیئے سے متعلق خبر دکھانے میں ایک نیوز چینل کے پترکار مہودے اتنا جوش میں آئے کہ خود پر جال ڈال کر رپورٹنگ کرنے لگے۔ یہ کلپ ایکس پر وائرل ہوگیا ہے۔ اس مضحکہ خیز کارنامے کو شیئر کرتے ہوئے سگم ترپاٹھی نے لکھا کہ’’گودی میڈیا پترکاوں کیلئے یہی جال اچھا رہے گا۔ ‘‘ وویک یادو نے لکھا کہ’’ نالے کے نولن کے بعد پیش ہے، پترکاریتا جال میں بند ہے، مطلب اب کیا ہی کہا جائے۔ گودی میڈیا نے صحافت کا مذاق بناکر رکھ دیا ہے۔ ‘‘
 مذاق سے ہمیں محترمہ کنگنا جی یاد آگئیں۔ اس ہفتے وہ بھی سوشل میڈیا پر ٹرینڈنگ رہیں۔ وہ اپنی نئی فلم کے پروموشن میں لگی ہوئی ہیں۔ یکے بعد دیگرے ٹی وی انٹرویوز دے رہی ہیں۔ جن کے جوابات سن کر اینکر حیران اور جنتا جناردن پریشان ہیں۔ محمد زبیر نے کنگنا کا للن ٹاپ کو دئیے گئے انٹرویو کا شارٹ کلپ شیئر کیا ہے جس میں وہ دعویٰ کررہی ہیں کہ دیش کے پہلے دلت راشٹرپتی رام ’کووڈ‘ تھے۔ انٹرویوورسوربھ دویدی نے انہیں درست کیا کہ رام ناتھ کووند دوسرے دلت راشٹرپتی ہیں، پہلے صدر جمہوریہ کے آر نارائنن تھے۔ زبیر نے مذاقاً لکھا کہ ’’شکریہ! مس انفارمیشن دور کرنے کیلئے۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے:سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ : ’’یہ کھلی نفرت ہے، انصاف نہیں‘‘

آپ کو یاد ہی ہوگا کہ کنگنا نے کسان آندولن پر بھی زہر افشانی کی تھی، جس پر خود ان کی ہی پارٹی نے پلہ جھاڑلیا ہے۔ گورو سنگھ نے ایکس پر لکھا کہ ’’کنگنا نے انٹرویو میں کسان آندولن پر بے تکا بیان دیا ہے۔ ‘‘ مانک گپتا کے انٹرویو میں کنگنا نے راہل گاندھی کے اپوزیشن لیڈر بننے پر سوال کیا کہ انہوں نے ایسا کیا تیر مارلیا کہ ایل او پی بنادئیے گئے۔ مانک نے کہا کہ اپوزیشن کیلئے پچپن نشستیں درکار ہوتی ہیں، ان کو۹۹؍سیٹیں ملی ہیں۔ ’’کنگنا اس پر آئیں بائیں شائیں ہوگئیں۔ ‘‘ اس پر مسٹر آر گاندھی نے لکھا کہ’’ کنگنا کو فوری طور پر سائیکائٹرسٹ کی ضرورت ہے۔ ‘‘
 عزیز قارئین، اب بجنور کے بھنیڑا نامی گاؤں کی بات کرتے ہیں جہاں پچھلے دنوں ایک استانی کو معطل کردیا گیا۔ عائشہ پروین نامی ٹیچر پر الزام ہے کہ انہوں نے بچوں کو تلک لگاکر اسکول آنے پر ٹوکا۔ انتظامیہ تو جیسے موقع کی تاک میں تھا، معلمہ کو معطل کردیا گیا۔ وہ بیچاری بجھے دل اور بھاری قدموں سے اپنے طلبہ کو روتا بلکتا چھوڑ آئیں۔ اکثریت نے انتظامیہ کے اقدام پر سوالات قائم کئے۔ طلبہ کی اپنی استانی سے محبت و وارفتگی کو بطور جواز دے کر لوگوں نے لکھا کہ بھلا جس استانی سے بچھڑنے پر طلبہ کا یہ حال ہورہا ہوتو وہ کیونکر طلبہ کو روک ٹوک کرتی ہوگی۔ صحافی محمد علم اللہ نے فیس بک پر لکھا کہ ’’ ہم صحافیوں کا کام ہے کہ خبر لکھتے وقت جذبات کو حاوی نہ ہونےدیں مگر آج جب بجنور کی اس استانی کی خبر لکھ رہا تھا تو فون پر میں خود اپنے آنسو ضبط نہیں کر سکا۔ کتنی خوش قسمت استانی ہیں یہ کہ ان کی جدائی پر طلباء ایسے رو رہے ہیں جیسے ان کی ماں جدا ہورہی ہو۔ زعفرانی ہندتوا وادیوں نے استانی پر الزام لگایا تھا کہ انھوں نے اسکول میں کچھ طلبہ کو تلک لگا کر آنے سے منع کیا تھا....‘‘ منصور قاسمی نے اس پوسٹ کے ذیل میں تبصرہ کیا کہ’’ بالفرض اگر تلک لگا کر آنے والے بچوں کو اس معلمہ نے منع بھی کیا تو معطلی کیوں ؟ برقع پہن کر آنے والی لڑکیوں کو منع کرنے والے کسی ٹیچر کو تو آج تک معطل نہیں کیا گیا.....‘‘راجیو پانڈے نے یہ جذباتی ویڈیو ایکس پر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ’’مسلم ٹیچر پر الزام لگا کہ انہوں ہندو طلبہ کو تلک لگاکر آنے سے منع کیا، انہیں معطل کردیا گیا، بچے ان کیلئے رورہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹیچر نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ ‘‘اس حوالے سے اب خبریں آرہی ہیں کہ ٹیچر کو پھنسایا گیا ہے۔ وقار حسن نے ایک ہندی روزنامے کی خبر کا تراشا شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ تفتیش میں پایا گیا کہ ٹیچر عائشہ پروین پر لگایا گیا الزام جھوٹا تھا، ہیڈماسٹر نے کچھ مقامی افراد کے ساتھ مل کر انہیں ہٹانے کی ایک سازش رچی تھی۔ ‘‘ 
 افسوس نفرت کا ایسا کھیل ہر جگہ کھیلا جارہا ہے جہاں مذہب اور شناخت کو بنیاد بناکر تشدد کیا جاتا ہے۔ تازہ مثال مہاراشٹر کا ٹرین معاملہ ہے جہاں ایک بوگی میں معمر مسلم شخص کو چند شرپسندوں نے زدوکوب کیا۔ الزام لگایا کہ وہ بیف لے کر جارہے ہیں۔ اس معاملے پر سوشل میڈیا پر غم و عصے کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ایڈوکیٹ ایم (رورل انڈیا) نے ایکس پر لکھا کہ ’’یہ ناقابل قبول ہے۔ وزیر داخلہ فرنویس کو ان غنڈوں پر سخت ایکشن لینا چاہئے۔ ان سب کی شناخت ہوسکتی ہے۔ یہ اہل مہاراشٹر کیلئے بھی سوال ہے کہ اس معمر شخص کے ساتھ ہونے والی اس بدسلوکی اور تشدد کو روکنے کیلئے کیوں کسی نے مداخلت نہیں کی؟ یہ (طرزعمل) بھی افسوسناک ہے۔ ‘‘ رتنا سنگھ نے لکھا کہ ایسے سبھی معاملات سے سیاستدانوں اور ججوں کو باخبر رکھا جائے، تاکہ انہیں اپنی اگلی تقریر سے قبل وکست بھارت کا پتہ چلے، اس ملک میں اب کوئی بھی کچھ بھی غلط کرنے سے ڈر نہیں رہا ہے، انسانیت کیلئے کوئی جگہ نہیں بچی ہے۔ ‘‘ آشیش کے مشرا نے لکھا کہ’’ ہندوستان کی ہر جگہ تشدد زدہ بنتی جارہی ہے، غریبوں اور کمزور اقلیتوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ‘‘ قابل ذکر ہے کہ اس معاملے میں کچھ نے ایکس پر افواہ بھی اڑائی کہ متاثر شخص نے دل برداشتہ ہوکر خودکشی کرلی ہے جس کی تردید آلٹ نیوز کے محمد زبیر اور دیگر نے کی۔ 
 ایسی جھوٹی خبروں کے متعلق جیکی یادو نے لکھا کہ ایکس بہت خطرناک جگہ ہے۔ جو بھی لوگ انسٹاگرام اور یوٹیوب پر بکواس کرتے رہتے ہیں وہ جیسے ہی ایکس کے چکر میں پڑتے ہیں، ناپ لئے جاتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ ایف بی، انسٹا، یوٹیوب پر جعلی خبریں دھڑلے سے پروسی جاتی ہیں اور وہاں کے سامعین اسے مستند خبر سمجھ کر قبول کرلیتےہیں، لیکن اگر آپ ایکس پر کوئی فیک نیوز پوسٹ کرتے ہیں تو شروعات کے پانچ کمنٹس میں دو کمنٹس ایسے ہوں گے ہی جو فیک نیوز کی تردید کردیں گے۔ کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے موازنہ میں ٹوئٹر کے سامعین زیادہ متحرک اور ذہین ہوتے ہیں۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK