جھانسی میڈیکل کالج کے آتشزدگی سانحہ کی لرزہ خیز تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر سوشل میڈیا صارفین بھی دہل گئے ہیں۔ پھول جیسے بچوں کو کھونے والے والدین کی گریہ وزاری سے ہر کلیجہ پھٹا جارہا ہے۔
EPAPER
Updated: November 18, 2024, 3:31 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai
جھانسی میڈیکل کالج کے آتشزدگی سانحہ کی لرزہ خیز تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر سوشل میڈیا صارفین بھی دہل گئے ہیں۔ پھول جیسے بچوں کو کھونے والے والدین کی گریہ وزاری سے ہر کلیجہ پھٹا جارہا ہے۔
جھانسی میڈیکل کالج کے آتشزدگی سانحہ کی لرزہ خیز تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر سوشل میڈیا صارفین بھی دہل گئے ہیں۔ پھول جیسے بچوں کو کھونے والے والدین کی گریہ وزاری سے ہر کلیجہ پھٹا جارہا ہے۔ اکثریت کا یہی سوال ہے کہ ’’یہ حادثہ کیسے ہوا اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟‘‘ ڈاکٹر مکیش کمار نے ایسا ہی ایک ویڈیو شیئر کیا جس میں ایک غمزدہ جوڑا ’’میرا بچہ نہیں ملا....میرا بچہ نہیں ملا....‘‘کہہ رہا ہے، ڈاکٹر مکیش نے لکھا کہ’’ یوگی جی اسپتالوں ، اسکولوں کی حالت سدھارنے کیلئے تھوڑی آئے ہیں۔ وہ تو بانٹنے کاٹنے کیلئے آئے تھے اور وہی کررہے ہیں۔ ووٹ دینے والوں کو سوچنا چاہئے کہ کس کو کیوں ووٹ دے رہے ہیں۔ نہیں سوچیں گے توپھر کبھی جھانسی کبھی گورکھپور ہوتارہے گا۔ ‘‘ نریندر ناتھ مشرا نے ایک دیگر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’جھانسی کے جس اسپتال میں دس بچوں کی موت ہوئی ، وہیں وی آئی پی کے سواگت کیلئے کچھ گھنٹے پہلے چُونے کا چھڑکاؤ ہورہا تھا۔ اور کچھ ماہ پہلے میڈیا اس اسپتا ل کو ورلڈ کلاس بتاکر رپورٹ کررہاتھا۔ ‘‘ انوراگ دواری نے تبصرہ کیا کہ ’’۳؍ سال پہلے بھوپال کے کملا نہرو اسپتال میں نوزائیدہ زندہ جلے تھے، یقین کریں کہ سرکاری اسپتال کے پاس فائر سیفٹی نہیں تھا۔ مرا ہوا دیش ہے، کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جھانسی حادثہ بھی سال بھر بعد ہندسہ بن جائے گا۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے:’’جنہیں آپ دشمن سمجھ رہے تھے یہ وہ لوگ تھے جو آپ سے انصاف کی امید کرتے رہے‘‘
نیہا سنگھ راٹھور نے سخت الفاظ میں لکھا کہ ’’جھانسی میڈیکل کالج میں دس نوزائیدہ بچے زندہ جل گئے۔ کیا لکھوں اس پر ؟ گلا پھاڑ پھاڑکر چلاتی رہتی ہوں کہ طبی خدمات بہتر بنائیں اور بدلے میں گالیاں دی جاتی ہیں۔ ہندو بچانے آئے ہیں یہ نیچ کہیں کے۔ ‘‘نیہا نے مزید لکھا کہ’’اس خبر کو دبانے کیلئے کسی مسلم ڈاکٹر کو بلی کا بکرا بنایا جائے گا یا کہیں دنگا بھڑکایا جائے گا؟ سرکار ایسے حادثات کی اخلاقی ذمہ داری کیوں نہیں لیتی؟‘‘ اس حادثہ سے شدید مضطرب مہندر سنگھ نے کئی سوال قائم کئے، وہ لکھتے ہیں کہ ’’ جھانسی پر سیاست بند کریں ؟ کیوں ؟ پھر کس پر سیاست کریں ؟ مندر مسجد پر؟ ذات دھرم پر؟ ہندو مسلم پر؟ پھر زندہ ہوجائیں گے سارے بچے؟ پھر نہیں اجڑے گی کسی ماں کی کوکھ؟ اس ملک کی سب سے بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ یہاں طبی خدمات اور تعلیم پر سیاست نہیں ہوتی ہے۔ اسکول کالج اوراسپتالوں پر راج نیتی نہیں ہوتی، سڑک بجلی پانی، ہوا اور سیکوریٹی پر سیاست نہیں ہوتی۔ ڈوب کے مرجانا چاہئے اس لیڈر اور پارٹی کو جو ان موضوعات پر سیاست نہیں کرتے، ہر ایک معصوم کی موت کا ذمہ دار ہے وہ لیڈر پارٹی جن کیلئے اسکول اور اسپتال سیاسی مدعا نہیں ہے۔ ‘‘
کنال شکلا یوں رقمطراز ہیں کہ’’۲۰۱۷ء میں گورکھپور کے سرکاری اسپتال میں آکسیجن کی کمی اور لاپروائی سے اکسٹھ بچوں کی موت کو لوگ بھول گئے، ویسے ہی جھانسی کو بھی بھول جائیں گے۔ کیا ہم نے اچھی تعلیم اور بہتر طبی نظام کیلئے حکومت کو چنا تھا؟‘‘
وسیم اکرم تیاگی نے چبھتا سوال پوچھا کہ ’’ جھانسی اسپتال میں آگ لگنے سے دس نوزائیدہ بچوں کی زندگیا ں چلی گئیں۔ اس مصیبت کی گھڑی میں یعقوب نے اپنی جان پر کھیل کر کئی زندگیوں کو بچایا ہے۔ بنٹیں گے تو کٹیں جیسا نفرت انگیز نعرہ دینے والوں سے پوچھئے کہ مصیبت کے وقت میں کام آنے والوں سے نفرت کرنی ہے یا محبت؟‘‘کرانتی کمار نے اس حادثے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’’فائر بریگیڈ کی گاڑی آنے سے پہلے ہی بچوں کے رشتے دار اپنے جگر کے ٹکڑوں کو بچانے کیلئے خود ہی وارڈ میں گھس گئے تھے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اسپتال کے وارڈ کا فائر الارم کام نہیں کررہا تھا اور نہ ہی اس اسپتال میں کوئی’بَرن وارڈ‘ تھا، اگر سیفٹی الارم کام کررہا ہوتا تو شاید اس حادثے کو روکا جاسکتا تھا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ ریاستی حکومت صحت کے بجٹ پر کتنا خرچ کرتی ہے؟ یہ بات کسی کو پتہ نہیں ہوگی۔ گورکھپور اسپتال میں بچے آکسیجن کی کمی سے مرے تھے تب بھی حکومت نے ذمہ داری نہیں لی اور ڈاکٹر کفیل کو بلی کا بکرا بنایا تھا۔ اس غیر انسانی حادثہ پر کسے بلی کا بکرا بنایا جائے گا؟‘‘
میگھا اپادھیائے نے لکھا کہ ’’ ہمارا سسٹم اندر سے اتنا سڑچکا ہے کہ جھانسی کے میڈیکل کالج میں دس معصوموں کے زندہ جل جانے کے بعد ہمیں ہوش آیا کہ عمارت میں فائر الارم خراب تھا اور آگ بجھانے والے سلنڈر کو ‘ایکسپائر‘ ہوئے چار سال بیت چکے تھے۔ ہم نہ مکھرجی نگر سے کچھ سیکھے تھے ، ہم نہ جھانسی سے سیکھیں گے۔ ‘‘