• Wed, 13 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’جنہیں آپ دشمن سمجھ رہے تھے یہ وہ لوگ تھے جو آپ سے انصاف کی امید کرتے رہے‘‘

Updated: November 10, 2024, 12:40 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai

امریکی صدارتی الیکشن پچھلے ہفتے بھر سے میڈیا سوشل میڈیا ہر جگہ چھایا ہوا تھا۔ ٹرمپ کی جیت پر تو ہمارے ملک میں کئیوں کی باچھیں کھل گئیں۔

Donald Trump. Photo: INN
ڈونالڈ ٹرمپ۔ تصویر: آئی این این

امریکی صدارتی الیکشن پچھلے ہفتے بھر سے میڈیا سوشل میڈیا ہر جگہ چھایا ہوا تھا۔ ٹرمپ کی جیت پر تو ہمارے ملک میں کئیوں کی باچھیں کھل گئیں۔ بالخصوص زعفرانی ٹولہ تو جشن میں ڈوب گیا۔ اس پر سنتوش یادو پی ایچ ڈی نے طنزاً لکھاکہ ’’ٹرمپ کی جیت کیلئے بھارت میں ہَوَن اور پوجا پاٹھ ہورہی ہے۔ ٹرمپ نے ایچ ون بی ویزا بند کرنے کا وعدہ کیا ہے، جس کا سب سے زیادہ نقصان بھارت کا ہوگا ٹرمپ کا پسندیدہ کھانا بیف ہے۔ بھارت میں بیف کے نام پر آئے دن لنچنگ ہوتی ہے۔‘‘ منیش سنگھ نے لکھا کہ ’’کیا آپ جانتے ہیں کہ ونیش پھوگاٹ کی ہار اور ٹرمپ کی جیت کا جشن منانے والے ہی مصدقہ دیش بھکت ہیں۔‘‘ اشوینی یادو نے لکھا کہ’’ سننے میں آرہا ہے کہ مودی جی کے گہرے دوست (تو تڑاک والے دوست) ڈونالڈ ٹرمپ مہودئے چناؤ جیت چکے ہیں، یو ایس اے کے اڈانی یعنی ایلون مسک کا پیسہ محنت دونوں کامیاب ہوگئے۔‘‘آئی ایم منوج یادو نے لکھا کہ ’’امریکی الیکشن پر ہندوستانی بلاوجہ ہی پریشان ہیں، ٹرمپ آئے یا کملا، فرق خاص نہیں پڑے گا، وہ پالیسی وہی بنائیں گے جو امریکہ کو منفعت بخش ہو، ٹرمپ ایچ ون بی ویزا پالیسی کو سخت کریں گے اور انہیں یہ غلط فہمی ہے کہ امریکہ کو امریکہ کے لوگ ہی مہان بنائے ہیں۔‘‘ خیر اب جو ہونا ہے، وہ ہوگا۔ بائیڈن ۱۱؍ ہفتوں کے مہمان ہیں۔ پھر ان کی رخصتی ہوگی۔‘‘ 
 وداعی سے یاد آیا کہ ملک کے ۵۰؍ ویں چیف جسٹس ڈی وائی چندڑ چڈ اپنی مدت کار مکمل کرکے سبکدوش ہوگئے ہیں۔ جہاں ایک جانب ان کی پزیرائی اور ستائش ہورہی ہے وہیں دوسری جانب لوگ ان کی مدت کار پر تنقیدیں بھی کررہے ہیں۔ اسلئے انہوں نے اپنے ناقدوں سے جاتے جاتے بشیر بدر کا شعر کہا کہ’’ مخالفت سے مری شخصیت سنورتی ہے....‘‘ ڈاکٹر مکیش کمار نے اس پر تبصرہ کیا کہ ’’یہاں دشمن کوئی نہیں تھا چندرچڈ صاحب، جنہیں آپ دشمن سمجھ رہے تھے یہ وہ لوگ تھے جو آپ سے انصاف کی امید کرتے رہےاور آپ انہیں چلاتے رہے۔ تھوڑی سی ہمت دکھائی ہوتی....‘‘ ونود شرما ویویو نے لکھا کہ’’ بجائے اپنے افعال پر افسوس کرنے کے، انہیں ٹرول کرنیوالے اب کل سے کیا کریں گے؟ کیا سوال پوچھ کر سی جی آئی چندر چڈ وکٹم کارڈ کھیل رہے ہیں؟‘‘
 معروف صحافی نکھل واگلے نے لکھا کہ’’تاریخ آپ کی موقع پرستی کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔‘‘ ویڈیو بلاگر راجیو دھیانی نے لکھا کہ’’ ابھی حال تک چندر چڈ صاحب کے تئیں بڑا ابہام تھا، لیکن آخر کے تین ماہ میں انہوں سارے کنفیوژن دور کردئیے، اب کوئی غلط فہمی نہیں، کوئی خوش فہمی نہیں۔ اس کلئیرٹی کیلئے شکریہ سر، آگے کیلئے ایڈوانس مبارکباد۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: سوشل میڈیا راؤنڈ اپ: بارہ سال میں پہلی بار ایسا ہوا ہے

 ایسے وقت میں جب ’بٹوگے تو کٹوگے‘ جیسے بیانات سے نفرت کا بازار گرم ہے، ایک سادھو کی دل لگتی باتیں سوشل میڈیا پر سبھی کو متاثر کر رہی ہیں۔ یہ ویڈیو رپنزل نامی صارف  نے شیئر کیا اور لکھا کہ’’ بھگوا چولا پہنے خود کو سناتنی کہنے والے یہ بابا اتحاد کی بات کررہے ہیں، تو وہ لوگ کون ہیںجو بھگوا پہن کر بٹوگے تو کٹوگے کی باتیں کرتے ہیں؟‘‘ رپنزل نے اس معمر شخص کی مدح سرائی کی کہ ’’ایسی سوچ والے ہی اصلی سناتنی ہیں، باقی سب فراڈ۔‘‘ دومنٹ چالیس سیکنڈ کی کلپ میں انہوں نے کسی رپورٹر سے گفتگو میں بڑا معنی خیز پیغام دیا کہ’’ یہ سبھی کا دیش ہے، جن کا اس زمین میں اتہاس ہے،  یہ مادر وطن بھی ہے اور بھارت ماتا بھی، بٹنے سے سمودھان کمزور ہوتا ہے، جو لوگ بٹوگے کٹوگے کہتے ہیں ان کا سیاسی مقصد ہے۔ ہم دھارمک  ہیں اور دھرم توڑنا نہیں جوڑنا سیکھاتا ہے....‘‘
 مہاراشٹر میں انتخابی مہم شباب پر  ہے۔ وزیراعلیٰ شندے کی تقریر سوشل میڈیا پر موضوع بحث ہے۔ ان پر تنقید اسلئے نہیں ہورہی ہے کہ انہوں نے متنازع باتیں کہیں بلکہ اسلئے کہ انہوں نے اپنے بغل میں ایک لیڈر کو کھڑے رکھا، جو انہیں تقریر کے نکات یاد دلا رہا تھا۔ کانگریس کی سپریہ شرینیت نے طنز کیا کہ’’مارکیٹ میں نیا ٹیلی پرامپٹر آیا ہے، پیچھے کھڑے ہوکر شبد بولتا ہے۔‘‘
 اداکار وکرانت ماسے بیباکانہ اظہار خیال کیلئے جانے جاتے ہیں۔ ان دنوں وہ اپنی نئی فلم کے پروموشن میں مصروف ہیں۔ اس دوران انہوں نے اور راشی کھنہ و ردھی ڈوگرا نے  میڈیا کے سامنے ہی میڈیا کو آئینہ دکھادیا۔ ان تینوں کا جواب ایکس پر وائرل ہوگیا ہے۔ اس پر سوربھ یادو ۱۱۳۳؍نے لکھا کہ ’’میڈیا کے منہ پر ہی میڈیا کی برائی، سوال تھا آج کا میڈیا اچھا کام کررہا ہے یا برا، اب اس پر وکرانت ماسے کا جواب سنئے۔ انہوں کہا کہ’’ بہت ہی برا کررہا ہے، یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہر چینل نمبروَن کیسے ہوسکتا ہے؟ ہم نیوز چینل دیکھتے تو ہیں لیکن بھروسہ اٹھ چکا ہے، پرائم ٹائم ڈبیٹ کا ماحول تشوی ناک حد تک خراب ہوچکا ہے، جو ڈبیٹس ہوتے ہیں وہ مہذب نہیں رہے، گھر کے سبھی فرد ایک ساتھ بیٹھ کر  دیکھ نہیں سکتے۔‘‘
 قارئین کرام، یقیناً آپ نومبر کو نہیں بھولے ہوں گے۔ جی ہاں ہم نوٹ بندی کی بات کررہے ہیں۔ گزرے ہفتے میں اس اقدام کو ۸؍ سال ہوگئے، اس موقع پر رن وجئے سنگھ نے سدھیر چودھری کی پرانی کلپ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ’’ آج ہی کے دن چِپ والے نوٹ لانچ ہوئے تھے، ان نوٹوں کی یہ خاصیت سمجھ لیجئے۔‘‘ 
 ملک میں کئی مقامات پر مساجد کیخلاف بلا وجہ احتجاج کرکے ماحول کو خراب کیا جارہا ہے، اب نینی تال کی مسجد کیخلاف شوشہ چھوڑا جارہا ہے۔ ہفت واری میگزین ’پنچ جنیہ‘ کے ایکس اکاؤنٹ سے ایسی ہی ایک پوسٹ کی گئی اور لکھا گیا کہ ’’نینی تال میں کیسے بنی جامع مسجد؟ کہاں غائب ہوگئے زمین اور تعمیرات کے اجازت نامے؟ جب آرٹی آئی سے پوچھا گیا سوال تو نہیں ملا کوئی جواب۔‘‘ اس پر اشوک کمار پانڈے نے لکھا کہ’’نینی تال میں جامع مسجد کی تعمیر۱۸۸۲ءمیں آر ایس ایس کے جنم سے پہلے ہوئی ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK