• Fri, 20 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ : ’’جو مارے گئے وہ خبربن گئے، جو زندہ ہیں وہ تماش بین ہیں‘‘

Updated: August 04, 2024, 5:31 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai

جو آنکھیں سسٹم کا حصہ بننے کا خواب دیکھ رہی تھیں وہ سسٹم کی چشم پوشی کے سبب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہوگئیں۔ ہم بات کررہے ہیں دہلی کے راؤآئی اے ایس کوچنگ سینٹر حادثےکی۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

جو آنکھیں سسٹم کا حصہ بننے کا خواب دیکھ رہی تھیں وہ سسٹم کی چشم پوشی کے سبب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہوگئیں۔ ہم بات کررہے ہیں دہلی کے راؤآئی اے ایس کوچنگ سینٹر حادثےکی۔ پچھلے ہفتے اس کے تہہ خانے میں پانی بھرنے سے تین طلبہ ہلاک ہوگئے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ اس حادثے نے پورے ملک کو جھنجھوڑکر رکھ دیا ہے۔ سوشل میڈیا بھی اس سانحہ پر سراپا احتجاج ہے۔ ان قیمتی جانوں کے اتلاف پر ہر دوسری تیسری پوسٹ میں ایک ہی سوال ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کوچنگ اداروں کے نظام پر سوال قائم کئے جارہے ہیں۔ سول سروسیز کی تیاری کرنیوالے طلبہ کی حالت زار موضوع بحث آئی ہے۔ ایکس پر ظاہر کئے جانے والے کچھ ردعمل ملاحظہ فرمائیں۔ 
  پرشانت سنگھ نامی صارف نے مذکورہ کوچنگ ادارے کے مالک سے سوال کیا کہ ’’اگر آپ کا بچہ اس طرح ہلاک ہوگا کیا تب بھی آپ یونہی چھپتے پھروگے؟‘‘ روزی نامی خاتون نے لکھا کہ ’’وہ اولڈ راجندر نگر کے کوچنگ انسٹی ٹیوٹ کے تہہ خانے میں پانی بھرنے کیلئے وہاں سے گزرنے والی کار کو مورد الزام ٹھہرارہے ہیں، سوال تو یہ ہونا چاہئے کہ تھوڑی سی بارش میں یہ پورا علاقہ کیوں زیرآب آگیا؟ ‘‘ ممتا پینولی کالے نے لکھا کہ’’ جو مارے گئے، وہ خبر بن گئے، جو زندہ ہیں وہ تماش بین ہیں۔ میں بھی ایک ماں ہوں، آج خود کو بے بس محسوس کررہی ہوں۔ غمزدہ بھی ہوں اور برہم بھی۔ راجندر نگر کا یہ حادثہ کیا دہلی میں آخری حادثہ ہے؟ دہلی سرکار، ایم سی ڈی، چور بدعنوان ملازمین، کوچنگ مافیا، ذمہ دار کون؟‘‘ للت ورما نے لکھا کہ’’ انتظامیہ کی غلطی کم ہے، میڈیا اداروں کا قصور زیادہ ہے، جو سرکار کی ’چاٹوکاریتا‘ کے چکر میں مفاد عامہ کے موضوعات اٹھانا بھول گئے، لوگوں کو صرف گمراہ کررہے ہیں، سرکاری مشینری اور کوچنگ مافیا کی غلطیوں کا ہرجانہ معصوم بچے بھگتیں گے!اٹھئے اور سوال کیجئے۔ ‘‘ شاکر پیرزادہ نے ایک امیدوار کی لاش کے گھر پہنچنے کا دردناک منظر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’جس کے اعلیٰ افسر بننے کا خواب دیکھا تھا، اس کی لاش کا گھر آنا ناقابل برداشت دکھ ہے۔ ساری امیدیں، توقعات، سخت محنت تباہ ہوگئی۔ یہ ناقابل بیاں ہے۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ : ’’بجٹ، نہ سمجھ میں آتا ہے اور نہ قابو میں‘‘

سپنوں کے بکھرجانے سے یاد آیا کہ پیرس میں اولمپک گیمز چل رہے ہیں جہاں کھلاڑی اپنی برسوں کی محنت شاقہ اور تمام صلاحیتیں جھونک کر کچھ کرگزرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ سبھی کی قسمت میں میڈلز تو نہیں لکھے۔ ہندوستانی کھلاڑیوں کا جتھا بھی اپنی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ اب تک تین کانسے کے تمغے ہندوستان کی جھولی میں آئے ہیں۔ ان میں نشانے باز منوبھاکر کے دو تمغے شامل ہیں۔ منوکی اس کارکردگی کی خوب پزیرائی کی جارہی ہے۔ محمد فیضان ارشد نے لکھا کہ ’’دیش کی بیٹی منوبھاکر نے کمال کردیا، ایک اولمپک میں دو تمغے جیتنے والی پہلی ہندوستانی بنیں۔ ڈھیر ساری مبارکباد۔ ‘‘ منو بھاکر کی اس جیت پر ایک پرانا معاملہ بھی تازہ ہوگیا ہے۔ منو نے ۲۰۱۸ء یوتھ اولمپک میں گولڈ میڈل جیتا تھا۔ اُس وقت کے ہریانہ کے وزیر کھیل انل وج نے اعلان کیا تھا کہ منو کو ریاستی حکومت دو کروڑ روپے کا انعام دے گی۔ اس کے چار ماہ بعد منو نے ٹویٹ کرکے وزیر کھیل کو ان کا وعدہ یاد دلایا تھا اور پوچھا تھا کہ کیا انعام کا وعدہ سچ تھا یا جملہ براہ مہربانی تصدیق کریں۔ جس پر انل وج برافروختہ ہوئے تھے اور منو کو کھیل پر توجہ دینے کی نصیحت کے ساتھ صفائی دی تھی کہ اس معاملے پر پہلے وہ کھیل کی وزارت سے بات کریں۔ اب جب پیرس میں منو نے ملک کا نام روشن کیا تو انل وج نے انہیں مبارکباد دی۔ اس پر کئی صارفین نے وج کو ان کے پرانے ٹویٹ یاددلائے۔ 
  بات اولمپک کی ہورہی ہے تو لگے ہاتھوں ایک تنازع کا بھی ذکر کردیتے ہیں۔ وومنز باکسنگ کے۶۶؍کلو کے زمرہ کا ایک میچ متنازع بن گیا ہے۔ یہ میچ الجیریا کی مکے باز ایمان خلیف اور اٹلی کی انجیلا کارینی کے درمیان ہوا۔ مقابلہ محض ۴۶؍ سیکنڈ میں ختم ہوگیا۔ وجہ تھی اطالوی باکسر کی دست برداری۔ انجیلا کو لگا کہ وہ ایمان کے مقابل مزید ٹک نہیں پائیں گی۔ ایمان کے تیز طرار مکوں سے انجیلا کی ناک ٹوٹ گئی۔ اس نے مزید کھیلنے سے انکار کردیا جس کے سبب ایمان فاتح قرار دی گئی۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پرصنفی تفریق اور نام نہاد حقوق مساوات پر بحث چھڑگئی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ایمان پیدائشی طور پر مرد ہے اور اس نے بعد میں جنس تبدیل کرلی۔ ورلڈ چمپئن شپ میں ایمان کو ٹیسٹیسٹرون اور جنس ٹیسٹ میں ناکامی پر پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا، لہٰذا اولمپک کمیٹی کا یہ فیصلہ سراسر غلط ہے کہ اسے خواتین کے زمرے میں رکھا جائے۔ اس کے خلاف نامور شخصیات سے لے کر عام افراد تک نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ ایلون مسک نے اسپورٹس ہوسٹ رائلی گینز کی پوسٹ سے اتفاق کیا جس میں لکھا ہے کہ ’’عورتوں کے کھیل میں مردوں کا کیا کام‘‘ ہیری پوٹر کی مصنفہ جے کے رولنگ، سابق برطانوی وزیراعظم لز ٹرس سمیت متعدد افراد نےانجیلا کی حمایت کی۔ یہ تنازع طول پکڑتا جارہا ہے۔ 
 حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کی شہادت کا معاملہ بھی ہفتے بھر سے سوشل میڈیا پر گرمایا ہوا ہے۔ تجزیے و تبصروں میں کئی طرح کی ’کانسپریسی تھیوریز‘ کے دعوے کئے جارہے ہیں۔ آئرش صحافی اور بلاگر سیئرن ٹئیرنی نے لکھا کہ ’’اسرائیل نے فلسطین، لبنان، شام اور ایران میں حالیہ ہفتوں میں حملے کئے ہیں، باوجود اس کے امریکہ اور یورپی یونین کا دعویٰ ہے کہ ایران عالمی امن کیلئے خطرہ ہے۔ امریکہ اسرائیل کو بم فراہم کررہا ہے جو وہ غزہ کے پناہ گزینوں کیمپوں پر برساکر معصوم بچوں کا قتل کررہا ہے....‘‘ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر یہ الزامات بھی عائد کئے جارہے ہیں کہ یہ اسرائیل نوازی میں سینسرشپ کررہے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ترکی نے اپنے یہاں انسٹا گرام پر پابندی عائد کردی ہے۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ انسٹاگرام نے اسماعیل ہانیہ کی موت پر اظہار غم کرنے والے کونٹینٹ کو روکنے کا کام کیا۔ جاتے جاتے مشاہدے کی آخری بات سنتے جائیں۔ سوشل میڈیا گلیارے عالمی بازاروں کی اتھل پتھل اور جنگی حالات پر فکرمند ہیں۔ کیوں نہ ہوں، حالات ہی ایسے ہیں۔ بقول ندیم فرخ: 
بارود کے ایک ڈھیر پر بیٹھی ہوئی ہے دنیا
شعلوں سے حفاظت کا ہنر پوچھ رہی ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK