• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ :’’جملے بازی میں ہم بھی شامل ہوگئے ...‘‘

Updated: May 20, 2024, 3:30 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai

ہاں بھئی، نئے ہفتے میں نئے کالم کے ساتھ ہم پھرحاضرخدمت ہیں۔ کوشش کریں  گے کہ سنجیدگی سے دور رہیں۔ کیونکہ جب ہرطرف مذاق ہی نظر آئے تو پھر سنجیدگی بھی مذاق ہی لگتی ہے۔

Kanhaiya Kumar. Photo: INN
کنہیا کمار۔ تصویر : آئی این این

ہاں بھئی، نئے ہفتے میں نئے کالم کے ساتھ ہم پھرحاضرخدمت ہیں۔ کوشش کریں  گے کہ سنجیدگی سے دور رہیں۔ کیونکہ جب ہرطرف مذاق ہی نظر آئے تو پھر سنجیدگی بھی مذاق ہی لگتی ہے۔ چلئے، قصۂ سوشل میڈیا شروع کرتے ہیں۔ آئی پی ایل کی دوڑ حتمی مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ حسب سابق آرسی بی کی امیدیں ’پوائنٹس‘ اور’قسمت‘پر ٹکی رہیں۔ جب تک آپ یہ تحریر پڑھیں  گے تب تک جان چکے ہوں  گے کہ ان دونوں میں سے سیمی فائنل کا ٹکٹ کس نے پایا۔ تاہم سوشل میڈیا پر اس کشمکش کا بڑا مذاق بنایا گیا ہے۔ ’نیچے سے ٹاپر‘ نامی صارف نے ایک تصویر شیئر کی جس میں اس صورتحال کی عکاسی خوب کی گئی ہے۔ اس میں  ٹہنی کے ایک جانب ایک لڑکا(آرسی بی) لٹکا ہوا ہےجو بہتی ندی کی سمت ہے۔ ٹہنی کی دوسری جانب سانپ (بارش)، درخت کا کٹاہوا تنا(۱۲؍پوائنٹس)، خشکی کی طرف کھڑا شیر (سی ایس کے) اور ندی میں منہ پھاڑے دو مگرمچھ (۱۸؍رن سے ہراؤ، ۱۱؍بال بچاکر جیتو)موجود ہیں۔ ایکس پر ’چِیزبرگر‘ نامی صارف نے لکھاکہ ’’تجھے قسم ہے آرسی بی کوالیفائی کرجانا، بہت مِیم بن گئے ہیں   مارکیٹ میں ‘‘
 مذاق سے یاد آیا کہ آج کل ’ووٹر‘بھی بڑا مذاق کرنے لگے ہیں۔ ’اَزی کنٹرول‘ نامی صارف نے ایک ویڈیو پوسٹ کیا ہے جو دہلی میں  منوج تیواری کے روڈشو کا ہے۔ اس میں ان کے پیچھے پیچھے ایک شخص بھاجپا کا پٹکا گلے میں  ڈالے زندہ باد، آگے بڑھو کے نعرے لگارہا تھا۔ ایک یوٹیوبر نے اس سے بات چیت کی تو اس نے کہا کہ ’’جملے بازی میں  ہم بھی شامل ہوگئے ہیں ‘‘رپورٹر نے آگے پوچھا کہ ووٹ کسے دوگے تو اس نے کنہیا کمار کا نام لیا۔ رپورٹر نے استفسار کیا کہ بی جے پی کی ریلی میں چل رہے ہو اور ووٹ کنہیا کو دوگے کیوں ؟ اس نے کہا کہ ’’سب چل رہے ہیں  تو ہم بھی چل رہے ہیں۔ سب دکھاوا ہے۔ بے روزگاری کروالیتی ہے۔ ‘‘ یہ ویڈیو سوشل میڈیا کے گلیاروں  میں گردش میں  ہے۔ بھئی کامیڈی سے ہمیں کامیڈین کی یاد آگئی۔ وہی شیام رنگیلا کی، جن کا بنارس سے انتخاب لڑنے کا عزم، حسرت بن کر رہ گیا۔ ان کے ’بنارسی بابو‘ نہ بن پانے کے پورے ’ایپی سوڈ‘ پر سوشل میڈیا پر کئی طرح کی باتیں چلیں۔ بہتوں نے ان سے ہمدردی کا اظہار کیا، کچھ نے اناپ شناپ بھی کہا۔ ہم جزئیات میں ہرگز نہ جائیں  گے، اگر آپ جاننے کے متمنی ہیں  توایکس، فیس بک پر ’شیام رنگیلا‘کا نام انگریزی یا ہندی میں  سرچ کرلیجئے کہ بہت کچھ مل جائے گا۔

یہ بھی پڑھئے: سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ : بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا

جو ہم ضبط تحریرمیں نہیں  لانا چاہتے ہیں وہ سب کچھ آپ کی اسکرین پر دِکھ جائے گا۔ چلئے آگے بڑھتے ہیں۔ کچھ ہلکی پھلکی بات کرتے ہیں۔ اودیشہ میں  ایک انتخابی ریلی میں وزیر اعظم مودی نے ریاست کے وزیراعلیٰ نوین پٹنائک کو للکارا۔ اس دوران انہوں  نے پٹنائک کو ’’ضلعوں  کا کیپٹل ‘‘ گنوانے کا چیلنج دے دیا۔ یہاں  سوشل میڈیا کے چٹکلے بازوں  نے بات کو پکڑلیا اور وہ اِسے لے اُڑے۔ اسی باعث ’کیپٹل ‘ ہیش ٹیگ ٹرینڈنگ میں رہا۔ امن کٹیارنےلکھا کہ’’ضلعوں  کا کیپٹل ہوتا ہے؟... مودی جی نے کہا ہے تو کچھ سوچ سمجھ کر ہی کہا ہوگا۔ معصوم اندھ بھکت اور گودی میڈیا‘‘پروین ملک نے مذکورہ کلپ شیئر کرتے ہوئے بھولے پن سے پوچھاکہ’’کوئی سجّن گرو گرام ضلع کی راجدھانی بتائے گا؟ اب ضلعوں  کی راجدھانی کب سے ہونے لگ گئی؟‘‘رشی چودھری نے لکھا کہ ’’ایم اے اینٹائر پالیٹکل سائنس کے پیپر میں بھی پوچھا گیا سوال شاید اتنا کٹھن نہیں  ہوگا جتنا مشکل سوال آج مودی نے پوچھ لیا ہے۔ ‘‘ آپ سوچ رہے ہوں  گے کہ یہ کالم کا موضوع تو مذاق اور سیاست کے ہی گرد گھوم رہا ہے۔ تو بھئی ہم نے کہہ دیا تھا کہ سنجیدہ نہیں  ہوں  گے۔ کیونکہ سنجیدہ ہوگئے تو جو مذاق چل رہا ہے، اس پر آپ سنجیدہ نہیں  ہوں  گے۔ آپ سے ایک اور بات کہنی ہے۔ جو ہم نے’ دیوارسوشل میڈیا‘ پرکہیں  پڑھی تھی۔ یاد نہیں  آرہا ہے کہ کہاں  دیکھی تھی۔ لیکن انیس بیس کے فرق کے ساتھ سنادیتے ہیں۔ کہا گیا تھا کہ الیکشن کے وقت اگر ’نیتا‘ کاگلا رُندھ جائے یا آنکھیں  ڈبڈباجائے تو ’سَتَرک‘ ہوجائیں۔ کیونکہ جب ابھینیتا نیتا بن سکتا ہے تو نیتا بھی ابھینیتا بن سکتا ہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ ’جنتا‘ یہ سب کچھ بخوبی جانتی ہے۔ ایسی صورتحال کی ضمن میں سینئر کارٹونسٹ منجول صاحب نے شعری انداز میں خامہ فرسائی کی ہے۔ انہوں  نے منوررانا مرحوم کی روح سے معذرت کرتے ہوئے انکے شعر میں  یوں  ترمیم کی ہے کہ ’’اس طرح سے اپنےسارے گناہ دھو دیتا ہے/کیمرا چالو ہوتا ہے اور وہ رودیتا ہے‘‘ اب یہ آپ کی صوابدید ہے کہ آپ اس سے کیا سمجھتے ہیں۔ 
  اب ہم بھی انسان ہیں۔ خود کو اتنا روک نہیں  سکتے۔ اس لئے قلم کی شوخی کوتھوڑی سنجیدگی کی روشنائی بھی دے دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ صرف مذاق سےتو کام نہیں چلنے والا ہے۔ اس ہفتے کے کالم کو یہاں  سمیٹیں  اس سے پہلے آپ کوپچھلے ہفتے کے کالم پر لے جاتے ہیں۔ جس میں دہلی کے ایک بڑے میاں  کے وائرل ویڈیوکا ذکر کیا گیاتھا۔ وہی جنہوں  نے کہا تھا کہ ’’یہ ہمارا وطن ہے... ہمارے باپ دادا یہیں  دفن ہوئے، ہم اور ہمارے بچے بھی یہیں  دفن ہوں  گے... ہم کہیں نہیں جائیں گے......‘‘اس ہفتے ان کا ایک دوسرا ویڈیو سوشل میڈیا پرگردش میں آیاہے۔ معلوم ہوا کہ ان کا نام ہاشم ہے، اور دہلی کے نندرام محلہ، برہم پوری ایک نمبر میں  سکونت پزیر ہیں۔ ہاشم چچا سے پچھلےہفتے مکل سنگھ چوہان نامی صحافی نے بات کی تھی۔ اس ہفتے انہوں  نے بڑے میاں کو ڈھونڈنکالا اور ان کے چھوٹے سے مکان جاپہنچے۔ مکل نے وہاں  بیٹھ کر کافی ساری باتیں  کیں۔ 
  یہ معلوم ہوا کہ کچھ وقت پہلے ہاشم صاحب کے محلے میں فسادیوں  نے دھاوا بولا تھا۔ تب کسی دنگائی نے ’’مسلمانوں پاکستان جاؤ‘‘ کا شرانگیز نعرہ دیا تھا۔ تب ہندو پڑوسی ہی ہاشم صاحب کیلئے حفاظتی دیوار بنے تھے۔ انہوں  نے بتایا کہ’’یہ ہندواکثریتی آبادی والا محلہ ہے، انہی کے درمیان ہم پلے بڑھے ہیں۔ ہمیں  بھروسہ تھا ہم رکے رہے۔ ‘‘انہوں نے دعا دیتے ہوئے سبھی کو پیغام دیا کہ ’’سب پھولے پھلیں، اچھے رہیں۔ کچھ نہیں  رکھا دنیا میں، زندگی تھوڑی سی ہے۔ ‘‘چلئے، اسی بات پر کالم تمام کرتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK